عبداللہ بن سبا اور مختار ثقفی

طالوت

محفلین
عبداللہ بن سبا اور مختار ثقفی

تاریخ زوال ملت اسلامیہ از نجیب اکبر آبادی سے اقتباس​
آنحضرت کے بعد حضرت عثمان کے ابتدائی نصف عہد خلافت تک بظاہر ملت اسلامیہ میں امن و سکون تھا اور 30 ہجری تک مسلمانوں نے دنیا کا اتنا بڑا اور اہم رقبہ فتح کر کے اپنی حکومت و سیادت میں شامل کر لیا تھا کہ باقی بچا ہوا تاریک رقبہ اس منور رقبہ کے مقابلے میں کوئی قدروقیمت نہیں رکھتا تھا اور اگر اسلام کی قوت چاہتی تو باقی تمام دنیوی طاقتوں کے مجموعے کو بآسانی کچل سکتی تھی۔ لیکن راس المنافقین عبداللہ بن اُبئ کے بزور ثانی عبداللہ بن سبا صنعانی یہودی نے اسلامی جامہ پہن کر اور دوسرے منافقین سے تقویت پا کر اور بہت سے نو مسلموں کو فریب دے کر وہ سب سے پہلا فتنہ امت میں برپا کیا جس نے اسلام کے مٹائے ہوئے خاندانی امتیاز اور نسلی عصبیت کو تعلیم اسلامیہ اور مقاصد ایمانیہ کے مقابلے میں پھر زندہ اور بیدار کر کے مسلمانوں کو مبتلائے مصائب اور خانہ جنگی میں مصروف کر دیا۔ خدائے تعالٰی قران مجید میں آپس کے اتفاق اور مسلمانوں کی باہمی الفت کو ایک عظیم الشان نعمت قرار دیا ہے اور اسلام نے تمام نسلی و خاندانی امتیازات کو مٹا کر ، باپ دادا کے تمام مراسم بھلا کر مسلمانوں کی ایک قوم بنائی تھی جس کا مقصد زندگی خدا اور رسول اللہ کے احکام کی اطاعت اور اعلاء کلمتہ اللہ کے سوا اور کچھ نہیں تھا لیکن چونکہ بالکل نئے نو مسلموں کی بڑی تعداد قران مجید اور اس کی تعلیمات سے کماحقہ بھی واقف نہیں ہو چکی تھی اور ان میں ابھی تک تقلید آباء اور حمیتہ الجاہلہ کے جراثیم پورے طور پر ہلاک نہیں ہونے پائے تھے۔ لہذا منافقوں کے برپا کردہ فتنہ نے جس طرح عہد نبوی میں بھی بعض مسلمانوں پر تھوڑی دیر کے لیے کچھ نہ کچھ اثر ڈالا تھا اسی طرح اب بھی ان نو مسلموں پر اثر ڈالا۔ جس قدر ان مسلموں اور صحابہ کرام کے اسلام اور روحانیت میں فرق تھا ۔ اسی قدر یہ اس فتنہ سے زیادہ متاثر ہوئے۔ عبداللہ بن سبا نے مدینہ ، بصرہ ، کوفہ ، دمشق ، اور قاہرہ کے تمام مرکزی شہروں میں تھوڑے تھوڑے دنوں قیام کر کے حضرت عثمان کے خلاف نہایت چالاکی ، ہوشیاری اور شرارت سے حضرت علی کے حقدار خلافت ہونے کو جدید الاسلام لوگوں میں اشاعت دے کر بنی امیہ اور بنی ہاشم کی پرانی عداوت اور عصبیت کوجو مردہ ہو چکی تھی پھر زندہ اور بیدار کرنے کی ناپاک کوشش کی حالانکہ خدائے تعالٰی قران مجید میں صاف ارشاد فرما چکا تھا کہ
"تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو اور اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمھارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم خدا کی مہربانی سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے میں گر کر ہلاک ہونے والے تھے کہ اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا ۔ اسی طرح اللہ اپنی آیات تم سے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت یافتہ بنو"
اور آنحضرت نے فتح مکہ کے روز خانہ کعبہ کے دروازے میں کھڑے ہو کر قریش اور شرفائے عرب کے عظیم اجتماع کو مخاطب کر کے یہ خطبہ ارشاد فرمایا تھا کہ
"اے گروہ قریش ! اللہ نے تم سے جاہلیت کے تکبر اور باپ دادا کے فخر کو دور کر دیا۔ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔ خدا فرماتا ہے کہ لوگو ہم نے تم کو نر و مادہ سے پیدا کیا اور تمھاری شاخیں اور قبائل بنائے۔ تاکہ الگ پہچان ہو ۔ اللہ کے نزدیک تم میں بزرگ وہی ہے جو متقی ہے۔”
عبداللہ بن سبا نے سب سے پہلے مدینہ منورہ یعنی دارلخلافہ میں اپنے شر انگیز خیالات کی اشاعت کرنی چاہی مگر چونکہ یہاں صحابہ کرام کی کثرت اور ان کا اثر غالب تھا۔ لہذا اس کو ناکامی ہوئی اور خود ہاشمیوں نے ہی اس کے خیالات کو سب سے زیادہ ملعون و مردود قرار دیا۔ مدینہ سے مایوس ہو کر وہ بصرہ کی چھاؤنی میں پہنچا۔ وہاں عراقی و ایرانی قبائل کے نو مسلموں میں اس نے کامیابی حاصل کی اور اپنی ہم خیال ایک جماعت بنا کر کوفہ پہنچا۔ اس فوجی چھاؤنی میں بھی ہر قسم کے لوگ موجود تھے یہاں بھی وہ اپنے حسب منشاء ایک مفسد جماعت بنانے میں کامیاب ہو ا ، کوفہ سے دمشق پہنچا وہاں بھی اس نے تھوڑی سی شرارت پھیلائی ، لیکن حضرت امیر معاویہ ، حاکم شام کے بروقت مطلع ہو جانے سے زیادہ دنوں تک قیام نہ کر سکا ، وہاں سے قاہرہ پہنچ کر اس نے سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بصرہ و قاہرہ کے فسادی عناصر نے مل کر مدینہ منورہ کی طرف کوچ کیا اور حضرت عثمان کی شہادت کا واقعہ ظہور میں آیا۔ اس فتنہ نے 30 ہجری سے 40 ہجری تک مسلمانوں کو خانہ جنگی میں مصروف رکھ کر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے کام کو نقصان پہنچایا اور مسلمانوں میں خاندانی و نسلی رقابت کو از سر نو پیدا کر کے قران کریم کی طرف سے ان کی توجہ کو کم کر دیا اور جس حبل اللہ کے مضبوط پکڑے رہنے کی خدا نے تاکید فرمائی تھی اس کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔ حضرت حسن نے 41 ہجری میں اس تفرق و تشتت کے بد نتائج محسوس کرکے عبداللہ بن سبا اور اس کے ساتھیوں کا پیدا کردہ فتنہ کا بڑی ہمت و بہادری سے خاتمہ کیا اور امت مسلمہ پھر سے ایک مرکز سے وابستہ ہو گئی۔ بیس سال کے امن و امان اور بحری و بری فتوحات ِ اسلامیہ کے بعد امیر المومنین حضرت امیر معاویہ کی وفات یزید کی تخت نشینی اور کربلا کے حسرت ناک حادثہ نے ایک طرف مشرکوں اور دوسری طرف منافقوں کو پھر جراءت دلا کر مصروف کار بنا دیا اس مرتبہ جو طوفان برپا ہوا ، اس میں مشرکوں اور کافروں کو تو کامیابی مسلمانوں کے مقابلے میں نہ حاصل ہو سکی۔ لیکن منافقوں کے برپا کیے ہوئے فتنوں نے تقریباً تیرہ سال تک بڑے بڑے عظیم الشان نقصانات پہنچائے۔ جو بہت دور رس اور دیرپا ثابت ہوئے۔ پہلے طوفان میں جو 30 ہجری سے 40 ہجری تک دس سال قائم رہا صحابہ کرام کی بڑی تعداد زندہ موجود تھی ، لیکن اس طوفان میں جو 61 ہجری سے 73 ہجری تک برپا رہا۔ صحابہ کرام بہت سے فوت ہو چکے تھے۔ صرف چند نفوس قدسیہ باقی تھےاور قران کریم کی طرف سے مسلمانوں کی توجہ کم ہو کر دوسری چیزوں کی طرف زیادہ ہونے لگی تھی۔ لہذا منافقوں کو اسلام کے خالاف زیادہ آزادی سے کام کرنے کا موقع ملااور مسلمانوں نے نہ صرف یہ کہ خانہ کعبہ کی بے حرمتی کو اپنے انتقامی جذبہ کے مقابلے میں گوارا کیا بلکہ عبداللہ بن سبا کے بزور ثانی مختار بن عبیدہ ثقفی کی مشرکانہ تعلیم اور کفر یہ دعاوی کو بھی جزو اسلام سمجھ لیا ۔ سلیمان بن صرد ہاشمیوں اور شیعان علی کو فراہم کر کے جنگ عین الوردہ میں ہزار ہا مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کر اچکا تھا۔ کہ مختار مذکور نے محمد بن حنفیہ برادر حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن عمر کو دھوکہ دے کر کوفہ میں اپنی قبولیت و رسوخ کے لیے راہ نکالی اور حرضت حسین کی شہادت اور کربلا کے دلگداز و حسرت ناک تذکرہ کو آلہ کار بنا کر عبداللہ بن سبا نے فتنہ خفتہ کو بیدار کر کے خاندانی امتیازات اور قبائلی عصبیتوں میں جان ڈال دی۔ پھر اس کے بعد قوت و شوکت اور کوفہ کی حکومت حاصل کر چکا تو بجائے اس کے کہ اپنے ابتدائی دعاوی و اعلانات کی موافق علویوں کو حکومت و خلافت دلاتا۔ مسلمانوں کو کافر و مشرک بنانا شروع کر دیا۔ اس نے نہایت چالاکی سے کوفہ والوں کو اپنی کرامتوں اور خوارق عادات طاقتوں کا یقین دلایا۔ کوفیوں کی مدد سے حاکم کوفہ کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے خود حاکم کوفہ بن گیا۔ حرتت علی جب کوفہ میں قیام پذیر تھے تو ان کی ایک کرسی تھی جس پر وہ اکثر بیٹھتے تھے۔ وہ کرسی ان کے بھانجے جعدہ بن ام ہانی بنت ابی طالب کے قبضہ میں تھی۔ مختار نے وہ کرسی ان سے طلب کی ۔ انھوں نے وہ کرسی تو نہ دی مگر ایک دوسری اسی قسم کی کرسی پیش کر دی۔ مختار نے اس کرسی کو سامنے رکھ کر دو رکعات نماز پڑھی ، پھر بوسہ دیا اور اپنے تمام مریدوں کو جو اس کی فوج کے سپاہی تھے جمع کر کے کہا۔ کہ جس طرح خدا نے تابوت سکینہ کو بنی اسرائیل کے لیے موجب نصرت و برکت بنایا تھا اسی طرح اس کرسی کو شیعان علی کے لیے نشانی قرار دیا ہے۔ اب ہم کو ہر جگہ فتح و نصرت حاصل ہو گی۔ لوگوں نے اس کرسی سے آنکھیں ملیں ، بوسے دئیےاور اس کے آگے سجدے کیے۔مختار نے ایک صندوق یعنی تابوت نہایت خوبصورت اور مرصع بنوایا۔ اس کے اندر کرسی رکھی گئی۔ تابوت میں چاندی کا قفل لگایا گیا ۔ جامع مسجد کوفہ میں تابوت رکھ کر اس کی حفاظت کے لیے ایک فوجی گارڈ مقرر ہوا۔ ہر شخص جو کوفہ کی جامع مسجد میں نماز پڑھتا اسے بعد نماز اسے ضرور بوسہ دینا پڑتا۔ اس کے بعد مختار نے نہایت چالاکی سے بتدریج اپنے الہام و وحی کا ذکر لوگوں سے کیا اور پھر بہت جلد نبوت کا مدعی بن کر اپنے نبی ہونے کا اقرار لینے لگا۔ مختار کو حضرت علی کے داماد حضرت مصعب بن زبیر ، برادر حضرت عبداللہ بن زبیر نے بتاریخ 14 رمضان المبارک 67 ہجری کو شکست دے کر کوفہ میں قتل کیا۔
سوچنے اور غور کرنے کے قابل یہ بات ہے کہ اسلام کا کس قدر ابتدائی زمانہ ہے۔ صحابہ کرام بھی ابھی تک تھوڑے بہت زندہ موجود ہیں۔ لیکن پھر بھی مختار بن عبیدہ ثقفی کوفہ والوں کو کس طرح گمراہ کر سکتا ہے۔ کوفہ کی تمام تر آبادی فوجیوں اور مختلف صوبوں کے باشندوں پر مشتمل تھی۔ جن میں سے ایک حصہ حضر موت و یمن و حجاز وغیرہ کے ان عربوں کا تھا جو ایران کی مجوسی سلطنت سے جنگ چھڑ جانے کے بعد مسلمان ہو کر اسلامی لشکر میں بھرتی ہونے کے لیے مدینہ منورہ میں آئے۔ اور آتے ہی سرحد ایران کی طرف بھیج دئیے گئے۔ کچھ عراق عرب کے وہ عربی النسل قبائل تھے جو اس سے پہلے ایرانی شہنشاہی کے محکوم اور اب مسلمان ہونے کے بعد اسلامی لشکر میں شامل ہو کر فوجی خدمات بجا لانے لگے تھے۔ ان کو مدینہ منورہ جانے کا اتفاق ہی نہ ہوا تھا۔ کچھ ایرانی لوگ تھے جو ملک ایران کے مفتوح ہو جانے پر کوفہ کی چھاؤنی میں جو بہت جلد ایک شہر کی شکل میں تبدیل ہو چکی تھی آ بسے تھے۔ صحابہ اور علمائے اسلام کی تعداد بہت ہی کم اور برائے نام تھی۔ فتوحات اور سامان راحت کی فراوانی اور کوفہ کے مرکزی مقام بن جانے نے ان فوجیوں کو یہیں کا باشندہ بنا دیا تھا۔ اور اپنے بے آب و گیاہ ریگستانوں اور گمنام بستیوں کی طرف جانے سے باز رکھا۔پہلی نسل کا ایک بڑا حصہ جس کا تمام زمانہ میدان جنگ کی مصروفیتوں میں گزرا تھا ۔ کسی طرح سے اسلامی تعلیم کا پورا عالم نہیں کہا جا سکتا تھا اور عہد جاہلیت کے جذبات سے بالکل پاک نہ تھانیز یہودیوں عیسایوں اور مجوسیوں میں جو لوگ بدل قریشیوں اور عربوں سے نسلی عناد رکھتے تھےاور شوکت اسلام سے مرعوب ہو کر منافقانہ مسلمانوں میں شامل اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے خواہاں تھے، ان سب کے لیے کوفہ ہی سب سے بہتر اور سب سے بہتر میدان عمل تھا۔ یہ لوگ کسی وقت بھی اپنی شرارتوں سے باز نہیں رہے۔ چناچہ ابو زید عیسائی منافق نے مختار سے بہت دنوں پہلے ایک مسلمانو گورنر کی مصاحت میں داخل اور اس کے مزاج میں رسوخ حاصل ہونے کے بعد اس کو شراب نوشی کی ترغیب دی تھی۔ جس کا تذکرہ تاریخوں میں موجود ہے۔ دوسری نسل جس نے خانہ جنگیوں ہی میں آنکھ کھولی تھی کوفہ کی مذکورہ فضا میں رہ کر کوئی ترقی نہ کر سکی تھی۔ حضرت عثمان کی شہادت ، حضرت علی و حضرت معاویہ کے مشاجرات، جنگ جمل اور جنگ صفین، خوارج کے ہنگامے ، حضرت علی کی شہادت ، حادثہ کربلا وغیرہ ایسی چیزیں تھیں جو عبداللہ بن سبا کی برپا کردہ شرارت کے نتیجے میں یکے بعد دیگرے پیدا ہوتی رہیں۔ اور کوفہ والوں کا ان سب سے تعلق رہا۔ کوفہ کے عوام تو کیا ، مکہ و مدینہ کے خواص کو بھی مذکورہ واقعات نے اپنی طرف متوجہ اور متاثر کیا۔ صحابہ کرام کی جو جماعت ان مذکورہ ہنگاموں سے جدا تبلیغ اسلام اور تعلیم قران میں مصروف رہی۔ ان کے کاموں کو بھی ایک حد تک ان ہنگاموں نے محدود کر دیا۔ بہرحال کوفہ والے جو مختار مذکور کے فریب میں آ گئے تھے۔ اس کا سبب سوائے اس کے کچھ نہ تھا کہ ان کی غالب تعداد حقائق قرانی سے غافل اور تعلیمات اسلامیہ میں ادھوری تھی۔ چند ہی روز کے بعد جب کوفہ والوں کو علم حاصل کرنے اور قران مجید کی طرف متوجہ ہونے کا موقع ملا تو انھیں لوگوں کی آئندہ نسلوں میں بڑے بڑے علما و اتقیا اور بڑے بڑے امام پیدا ہوئے۔ میں نے اس جگہ مختار کی بے راہ روی اور کوفہ والوں کی غلط کاریوں کا تذکرہ اسلیے ضروری سمجھا کہ جو لوگ ہمیشہ باپ دادا اور اپنے اسلاف کے نام پر فدا ہونے کو فخر سمجھتے اور اپنے اسلاف کی کسی غلطی کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے وہ غور کریں اور سوچیں کہ عہد نبوی سے اس قدر قریب زمانہ کے لوگ بھی قران مجید اور احکام رسول سے غافل ہو کر کس قدر جلد اور کیسی قابل مضحکہ خیز حرکات کے مرتکب ہو سکتے ہیں اور منافقین یعنی لشکر شیاطین کے ہاتھوں میں کس طرح کھلونا بن سکتے تھے آج کل کے لوگ اپنے جن بزرگوں اور باپ داداؤں کو محض پرانے لوگ ہونے کی وجہ سے معصوم سمجھتے اور ان کے خلاف شرع اعمال کو اعمال صالح یقین کرتے ہیں ان کے مقابلے میں یہ کوفی لوگ جن کا اوپر ذکر ہوا بہت زیادہ پرانے اور قدیم لوگ تھے تو کیا آج مختار کی نبوت کا اقرار کرنا اور اس کو فرستادہ الہٰی سمجھنا جزواسلام ہو سکتا ہے ؟

مسلمانوں کے خلاف منافقوں کی مسلسل کوششیں
عبداللہ بن سبا یہودی منافق نے قبائلی عصبیت نسلی امتیاز اور خاندانی مخالفتوں کو بیدار اور مسلمانوں میں تشتت و افتراق پیدا کرنے کے لیے ایسی زبردست جماعت بنا دی تھی جس نے حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علی کی حمایت و طرفداری کا اعلان کر کے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کی فوج میں شامل ہوئی۔ لیکن حضرت علی کی اطاعت اور ان کے احکام کی تعمیل کبھی نہیں کی۔ ہمیشہ عین وقت پر دھوکہ دیتی اور ان کے بنے ہوئے کاموں کو بگاڑتی رہی بہت ہی کم لوگوں نے اس طرف توجہ کی ہے کہ حضرت علی کی لڑائیوں اور عہد علوی کی بے انتظامیوں کا اصل سبب کیا تھا؟ منافقوں کی اس زبردست جماعت نے جو عبداللہ بن سبا کے مرتب کردہ اصول پر قائم تھی ۔ حضرت علی کے لشکر میں شروع سے لے کر آخر تک شامل رہ کر نہ ان کو قاتلان عثمان سے قصاص لینے کا موقع دیا نہ انتظامی ملکی کی طرف متوجہ ہونے کا موقع دیا۔ یہی جماعت تھی جس نے جنگ صفین میں حضرت علی کو کامیابی حاصل کرنے سے روکا پھر اسی جماعت نے جو خود ہی با اصرار جنگ کو ملتوی کر ا چکی تھی۔ حضرت علی پر جنگ کے ملتوی ہونے کا الزام لگا کر لوگوں کو ان کی مخالفت پر آمادہ کیا۔ یہی جماعت خوارج کا نام پا کر حر ت علی مقابلے میں صف آراء اور بالآخر ان کی شہادت کو موجب ہوئی۔ پھر اسی جماعت نے حضرت حسن کے لشکر میں بد نظمی پیدا کی۔ یہی جماعت تھی جس نے کوفہ و بصرہ وگیرہ لشکری مقامات کو اپنا جو لانگاہ اور عراق و فارس کو جائے پناہ بنا کر امویوں اور ہاشمیوں میں مستقل عداوت اور مسلسل لڑائیوں کا سامان مہیا کیا۔ آخر نتیجہ یہ ہوا کہ امویوں نے کامیاب ہو کر ایک طویل مدت کے لیے ہاشمیوں کو میدان سے نکال دیا اور فوراً فتوحات ملکی میں مصروف ہو گئے۔ منافقوں کی یہ جماعت بھی امویوں کے جاہ و جلال اور شوکت و عظمت کے مقابلے میں اپنی اعلانیہ شرارتوں سے باز رہ کر روپوش اور پس پردہ رہ کر کاروائیوں میں مصروف ہو گئی ۔ امویوں نے اس جماعت کو پس پردہ رہ کر کام کرنے کا خود اپنی ایک عظیم الشان غلطی کی وجہ سے موقع دیا۔ امویوں کی وہ عظیم الشان اور ناقابل معافی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے خلافت اور اسلامی ریاست کو ایک خاص خاندان سے مخصوص و متعلق قرار دے کر اپنی اولاد کے ولی عہد بنانے کی رسم بس اسلام میں جاری کی۔ اور یہی چیز تھی جس نے منافقوں کے لیے بھی کام کرنے کا موقع بہم پہنچایا اور ہاشمیوں نے ناکام رہ کر اور اکثر عربی قبائل کو امویوں کا وفادار و طرفدار پا کر جوش انتقام میں اسی مفسد جماعت کو اپنا آلہ کار بنایا اور بجائے عربوں کے ایرانیوں سے کام لینا ضروری سمجھا۔ ادھر بنی امیہ مطمئن ہو کر فتوحات ملکی کی طرف متوجہ ہوئے ادھر بنی ہاشم اپنی خفیہ جماعتیں بنانے اور خلافت بنو امیہ کا تختہ الٹ دینے کی تدبیریں سوچنے لگے۔ 73 ہجری میں حضرت زبیر کی شہادت کے بعد عبدالملک بن مروان کی خلافت شروع ہونے پر بظاہر مسلمانوں میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ خلیفہ عبدالملک بن مروان خود بھی ذی علم اور بہت سے صحابیوں کی صحبت سے فیض پائے ہوئے تھا۔ مدینہ منورہ ، مکہ معظمہ ، دمشق اور دوسرے مرکزی مقامات میں کوئی نہ کوئی صحابی موجود تھے خانہ جنگی کے موقوف ہوتے ہی مسلمانوں کی ایک جماعت علم دین کی تحصیل میں اور دوسری جماعت ملکوں اور شہروں کی فتوحات میں مصروف ہو گئی۔ عبدالملک بن مروان کے بعد ولید بن عبدالملک اس کے بعد سلیمان بن عبدالملک اس کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز ان کے بعد یزید بن عبدالملک اس کے بعد ہشام بن عبدالملک تخت نشین ہوئے ۔ ہشام بن عبداملک نے 125 ہجری میں وفات پائی۔ امویوں کے ان چھ مذکور خلفاء کی مجموعی مدت خلافت کے پچاس سال کے قریب ہوتی ہے۔ اس پچاس سال میں مسلمانوں نے ہر قسم کی دینی و دنیوی ترقی کی اور اندلس و مراکش سے لے کر سندھ ، بلخ اور چین تک جو اس زمانے کی قریباً تمام متمدن دنیا تھی اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہو گیا۔ امویوں کی مذکورہ پچاس سالہ خلافت اگرچہ خیر و برکت کے اعتبار سے خلافت راشدہ کے ابتدائی 25 سال کا مقابلہ نہیں کر سکتی ، تاہم یہ پچاس سال اسلام اور مسلمانوں کے لیے آئندہ اب تک کے زمانوں سے بہتر اور اسلام کی عظمت و شوکت کے لیے زریں زمانہ تھا ۔ اس زمانے کے ختم ہونے سے پہلے تمام صحابہ کرام دنیا سے رخصت ہو چکے تھے اور ان شاگرد یعنی تابعی لوگ بھی جو دین کی تعلیم اور حفاظت کے کام میں مصروف تھے اکثر اسی زمانہ میں فوت ہو کر تبع تابعین کو اپنی قائم مقامی کا موقع دے چکے تھے۔ لیکن اسلام کے اس عروج اور فتح مندی کے زمانے میں بھی منافقین کی وہ مشتعل کی ہوئی آگ جس نے نسلی اور خنادانی رقابتوں کو بیدار کر دیا تھا اندر ہی اندر برابر سلگتی رہی ۔ اور خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے بعد چند ہی سال کے اندر اس کے شعلوں نے بلند ہو کر نہ صرف خلافت بنو امیہ کو برباد کر کے ہاشمیوں کے خاندان بنو عباسیہ کو تخت دلوایا بلکہ اسلام کی ایک مرکزی حکومت کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور دین اسلام کے صاف و سادہ و آسان عقائد و اعمال میں انواع قسم کے رخنے ڈال کر بہت سے گروہ اور جماعتیں پیدا کرنے کا سامان بہم پہنچایا۔
-------------------------
وسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
آنحضرت کے بعد حضرت عثمان کے ابتدائی نصف عہد خلافت تک بظاہر ملت اسلامیہ میں امن و سکون تھا اور 30 ہجری تک مسلمانوں نے دنیا کا اتنا بڑا اور اہم رقبہ فتح کر کے اپنی حکومت و سیادت میں شامل کر لیا تھا کہ باقی بچا ہوا تاریک رقبہ اس منور رقبہ کے مقابلے میں کوئی قدروقیمت نہیں رکھتا تھا اور اگر اسلام کی قوت چاہتی تو باقی تمام دنیوی طاقتوں کے مجموعے کو بآسانی کچل سکتی تھی۔ لیکن راس المنافقین عبداللہ بن اُبئ کے بزور ثانی عبداللہ بن سبا صنعانی یہودی نے اسلامی جامہ پہن کر اور دوسرے منافقین سے تقویت پا کر اور بہت سے نو مسلموں کو فریب دے کر وہ سب سے پہلا فتنہ امت میں برپا کیا جس نے اسلام کے مٹائے ہوئے خاندانی امتیاز اور نسلی عصبیت کو تعلیم اسلامیہ اور مقاصد ایمانیہ کے مقابلے میں پھر زندہ اور بیدار کر کے مسلمانوں کو مبتلائے مصائب اور خانہ جنگی میں مصروف کر دیا۔

گو مصنف نے پہلی سطر میں ہی 'بظاہر' کا لفظ استعمال کر کے اپنے بلند و بالا دلائل کی عظیم الشان عمارت کی بنیاد خود ہی 'ٹیڑھی' کر دی ہے، لیکن اگر اس دلیل کو درست مان بھی لیا جائے تو جس 'فتنۂ عبداللہ بن سبا' کو ہر برائی کا ذمہ دار مصنف نے ٹھہرایا ہے، اس پر اگر "ٹھنڈے دل و دماغ" سے غور کیا جائے تو کیا یہ نتائج برآمد نہیں ہوتے کہ:

- 23 سال تک رسولِ اکرم (ص) جو تعلیمات قرآن اور اپنے اسوۂ حسنہ سے دیتے رہے وہ اس ایک شخص نے صرف چند سالوں میں ملیا میٹ کر دیں (نعوذ باللہ)

- اس ایک شخص کا فتنہ اتنا عظیم الشان تھا کہ اسلام کی سب تعلیمات اسکے سامنے نقش بر آب ثابت ہوئیں اور صرف 35 سے 40ھ ہجری کے پانچ سالہ دور کے درمیان، سوا لاکھ مسلمان آپس کی تلواروں کی نذر ہو گئے مع دو خلفائے راشدین و عشرۂ مبشرہ و اکابر صحابہ کے۔

- کیا اسکا منظقی نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ یہ شخص، پیمبرِ اسلام (ص) سے بھی زیادہ طاقت ور اور بااثر تھا بغیر اللہ کا رسول ہوئے اور بغیر ساتھ قرآن جیسی عظیم الشان کتاب رکھے(نعوذ باللہ)۔

افسوس کہ ہمارے مصنفین، اس دورِ ابتلا، کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور نسلی عصیبت کے محرکات پر غور و فکر کرنے کی بجائے، ایک شخص پر الزام دھر کے اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔

-------
نوٹ: ابنِ سبا، میرا کوئی چاچا ماما نہیں تھا، جیسا کہ اس پوسٹ سے بعض دوستوں کو لگے گا :)، عرض صرف اتنا کرنا چاہ رہا ہوں کہ جذبات کی عینک ہٹا کر 'ریشنل' طریقے سے سوچیں اور دیکھیں تو کیسے کیسے لایعنی دلائل سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے!
 

dxbgraphics

محفلین
واقعی تاریخ گواہ ہے عبداللہ بن سبا نے اسلام کو جتنا نقصان پہنچایا اتنا کسی نے بھی نہیں پہنچایا۔ اسی فتنے کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ ، حضرت علی کرم اللہ وجہ اور حضرت حسین کی شہادت پیش آئی
 

dxbgraphics

محفلین
دوسرا آج کل انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے ہر چیز دستیاب ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ تاریخ ابن خلدون اگر کسی کو وقت ملے تو ضرور پڑھے
 

dxbgraphics

محفلین

افسوس کہ ہمارے مصنفین، اس دورِ ابتلا، کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور نسلی عصیبت کے محرکات پر غور و فکر کرنے کی بجائے، ایک شخص پر الزام دھر کے اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔

-------
نوٹ: ابنِ سبا، میرا کوئی چاچا ماما نہیں تھا، جیسا کہ اس پوسٹ سے بعض دوستوں کو لگے گا :)، عرض صرف اتنا کرنا چاہ رہا ہوں کہ جذبات کی عینک ہٹا کر 'ریشنل' طریقے سے سوچیں اور دیکھیں تو کیسے کیسے لایعنی دلائل سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے!


ارے وارث بھائی آپ کو کیا پتہ بعض لوگ تو قرآن کریم کی جامعیت سے انکار کرتے ہیں تو تاریخ ان کے لئے کیا معنی رکھتا ہوگا۔
 
السلام علیکم محمد وارث آپ نے اگلے قدموں کا بہت خوبصورت استعمال کرتے ہوئے شاہد آفریدی کی طرح ایک شاندار چھکا مار کر گیند کو گما دیا ہے۔۔۔۔۔طالوت صاب اب بال آپ کے کورٹ میں ہے۔ منتظر ہوں کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔۔۔۔
موضوع سے ہٹ کر ایک بات کروں کہ میرے پاس ابن خلدون کا مقدمہ اصل عربی حالت میں موجود ہے اگر کسی صاحب کو چاہیے تو دے سکتا ہوں لیکن وہ عربی میں ہے۔
 

طالوت

محفلین
بھائی مجھے کرکٹ پسند نہیں اور بال ٹینس کورٹ میں ہوتی ہے ، خیر یہ تو مذاق ہوا ۔ میرے خیال میں یقینا ایسا چند سالوں میں نہیں ہوا اسے ہوتے ہوتے عموما سو سال لگے اور خصوصآ قریبا 2 سے 3 صدیوں بعد اس کا مکمل اثر سامنے آیا ۔ وگرنہ صحابہ و تابعین بلکہ اموی خلافت تک معاملات ہاتھ سے نہیں نکلے تھے ۔ میری اس بات کو ان نام نہاد مکار و کذاب مورخوں سے جھٹلانے کی کوشش بےکار ہے ۔ بہرحال مجھے اس سے انکار نہیں کہ نہ تو رسول اللہ کی تعلیم و تربیت ایسی تھی اور نا ان کے اصحاب اور ان کے اصحاب ایسے تھے ۔ یہ زمین دوز کاروائیاں جیسا کہ میں کہہ چکا بہت بعد میں کھل کر سامنے آئیں اور اثر انداز ہوئیں ۔ اور یقینا اس میں سب سے اہم ہتھیار قریش کی زمانہ جاہلیت کی آپسی منافرتوں کو بیدار کرنا تھا ، جس میں کامیابی مگر اس کے مقصد میں ناکامی پر اس سب کو مذہبی رنگ دیا گیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔۔

اسی طرح کے دلائل جب ہماری طرف سے سامنے آتے ہیں تو یار لوگ وہ بین ببجاتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی مگر یہاں شاید محمد وارث کی قد آور شخصیت انھیں ایسا کرنے سے روک رہی ہے ۔ اسی باعث میں نے اس پر مزید گفتگو نہیں کی تھی اور شاید اب اور مزید نہ کروں ۔۔
وسلام
 
ش

شوکت کریم

مہمان
- 23 سال تک رسولِ اکرم (ص) جو تعلیمات قرآن اور اپنے اسوۂ حسنہ سے دیتے رہے وہ اس ایک شخص نے صرف چند سالوں میں ملیا میٹ کر دیں (نعوذ باللہ)

- اس ایک شخص کا فتنہ اتنا عظیم الشان تھا کہ اسلام کی سب تعلیمات اسکے سامنے نقش بر آب ثابت ہوئیں اور صرف 35 سے 40ھ ہجری کے پانچ سالہ دور کے درمیان، سوا لاکھ مسلمان آپس کی تلواروں کی نذر ہو گئے مع دو خلفائے راشدین و عشرۂ مبشرہ و اکابر صحابہ کے۔

نہیں ایسا نہیں ہوا، اور نہ وہ ایک شخص‌ تھا، اور ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہے کہ جس کے رگ و پے میں من و سلوٰی کے اثرات ہیں۔ یہ اس قوم سے تعلق رکھتا تھا کہ جس نے مسیح اللہ کو اپنی طرف سے سولی چڑھا دیا، زکریا علیہ السلام کو آرے سے چیر دیا گیا۔ اور جدید دور میں دیکھیں امریکہ پر کیسا چھایا ہوا ہے۔ یاد رکھیں یہودی کبھی ایک نہیں ہوتا جہاں بھی ہو اس کی پشت پر اس کی پوری تاریخ اور قبیلہ ہوتا ہے اور نظر انکی ۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا پر حکمرانی کی طرف ہوتی ہے۔

نصرانیت کا حلیہ بگاڑنے والا بھی بظاہر ایک یہودی تھا مگر درحقیقت وہ ایک نہیں تھا۔ ۔۔۔۔۔۔ اور پھر کئی سو سال بعد پاپائے روم سے قتل مسیح سے بریت کی سند لینے والا بھی یہودی ہی ہے۔

اور درحقیقت ان لوگوں‌کا زور نو مسلموں پر چلا براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ ایک شخص‌پر بھی ان کا زور نہ چل سکا۔ آپ خود سوچیں اس وقت ہم ایک چھوٹے سے ملک میں چند قومیں ہیں صدیوں سے دین ایک زبان بھی ایک پھر بھی نفرتیں ، صوبائت اور پتہ نہی کیا کیا۔

اور ان دنوں تو بڑی بڑی سلطنتیں مفتوح ہو رہی تھیں۔ اور پورے پورے خطے مسلمانوں‌کے زیر نگیں ہو رہے تھے۔ ان میں سے ہی ان لوگوں‌ کو آلہ کار ملے۔ بعض لوگوں‌کو اپنی سلطنتیں اور قومیت چھن جانے کا بدلہ لینے کی خواہش تھی اور وہ آسانی سے آلہ کار بنتے چلے گئے۔
 

طارق راحیل

محفلین
میرے خیال میں تو احادیث میں جب ملاوٹ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں لوگ تو تاریخ کو کیوں نہ کریں گے؟
احادیث کو جانچنے کا معیار تو بنا دیا گیا پر تاریخ کا کیا کریں اس کے لئے کوئی معیار ہی کبھی نہین بن سکا
جس نے جو چاہا خوب افواہوں کو جگہ دی اور بات کا بتنگر اور رائی کا پہاڑ بناتا ہی چلا گیا
اہل تشیع کی روایات آج بھی سنی استعمال کرتے ہیں

اب ایسی صور تحال میں یہی بہتر ہے کہ معاملہ صحابہ اور تابعین کا ہے تو
ہمیں چاہیئے کسی کو قاتل اور کسی کو ظالم یا معصوم و بے گناہ ماننے کے بجائے معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا جائے
وہی اصل انصاف کرنے والا ہے نہ کہ ہم ان کا فیصلہ کریں کمزور تواریخ کی روشنی میں


یہی درست وقت ہے کہ س حساس موضوع میں کسی پر انگلی اٹھائی جائے نہ ہی کسی کو معصوم گردانہ جائے
 
Top