عبد المجید پرویں رقم
از قلم صاحبزادہ نصرت نوشاہی
لاہور میں بیسویں صدی کا آغاز ایک ایسے عہد آفریں صاحب فن کی ولادت سے ہوا جس کے خاندان کو مسلسل کئی پشتوں سے فن خطاطی کو عروج بخشنے کا فخر حاصل رہا۔ اس کے شگفتہ قلم نے وہ جوہر دکھائے کہ وقت نے اسے فن خطاطی کا امام اور شہنشاہ بنا دیا۔
یہ نادر روزگار شخصیت جناب عبد المجید پرویں رقم مرحوم و مغفور کی تھی جو 1901 میں بمقام لاہور پیدا ہوئے۔ یہیں بچپن گزرا اور یہیں پل کر جوان ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار مولوی عبد العزیز صاحب مرحوم و مغفور لاہور کے مشہور خطاط تھے۔
مغلیہ عہد حکومت میں راجپوت خاندان کے مولوی امام اللہ صاحب مشہور خوش نویس تھے ان کی اولاد میں سے مولوی سید احمد خوش نویس اپنے آبائی شہر ایمن آباد کو چھوڑ کر لاہور آ بسے اور اپنے بڑے بھائی مولوی جان محمد صاحب خوش نویس کو بھی اپنے پاس بلا لیا اس طرح ان دونوں بزرگ خوش نویسوں کا ہنر آموز خاندان لاہور میں مستقلا آباد ہوگیا۔ ان فنی رہنماوں کی کاوشوں سے خطاطی کو خاصی ترقی حاصل ہوئی اور خطہ لاہور جو ہمیشہ علمی ، ادبی اور ثقافتی اقدار کے باعث ہمیشہ اہل نظر کی توجہ کا مرکز رہا ہے ، بلاشبہ تاریخی رعنائیوں سے معمور ہوا۔
پرویں رقم اسی خوش نویس خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ فن کتابت سے محبت انہیں آباء کی طرف سے ورثہ میں ملی تھی۔ لڑکپن ہی سے آپ نے حروف کی نوک پلک سنوارنے کی کوشس شروع کردی۔ دینی تعلیم بھی حاصل کی ، بعض اساتذہ سے فارسی کی کتابیں بھی سبقا سبقا پڑھیں۔ آپ نے آٹھ سال تک مسلسل پورے انہماک سے دن رات محنت کی اور شمسی رسم الخط میں وہ کمال پیدا کیا جو آپ ہی کا خاصہ ہے۔
اس دوران آپ کی ملاقات شفاء الملک حکیم فقیر محمد چشتی مرحوم سے ہوگئی ، جو حاذق طبیب ہونے کے علاوہ صاحب طرز ادیب ، اعلی پایہ کے مصور اور نستعلیق طرز کتابت میں اجتہادی قوت رکھتے تھے۔ وہ خود اس جستجو میں تھے کہ کوئی جوہر قابل ملے تو اسے ساتھ ملا کر فن خوش نویسی میں نئی طرح ڈالیں۔ چناچہ صوفی عبد المجید صاحب کا شوق کتابت ملاحظہ کیا تو اپنے بیش بہا مشوروں اور قیمتی معلومات سے آپ کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صوفی عبدالمجید کے کتابت کے لیے قدرتی طور پر موزوں نازک ہاتھوں نے اور حکیم صاحب مرحوم کے فکری تجسس نے پرانے رسم الخط میں نیا رنگ بھر دیا۔ انہوں نے قدیم رسم الخط میں جس قدر تبدیلیاں مناسب سمجھیں ، کیں بلکہ اپنے دریافت کردہ نئے خط کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے انتھک محنت کی۔ پختگی اور مشاقی کا دور ختم ہوا تو حضرت عبد المجید نے نئی طرز ایجاد کرنے کا طرہ امتیاز حاصل کیا۔ نتیجتا آپ کے موجد طرز جدید ہونے کا دعوی ہم عصر فن کاروں سے لیکر دور حاضرہ تک کے اساتذہ فن تک سب کو تسلیم کرنا پڑا۔
ابتدا میں آپ نے خوش رقم خطاب اپنایا۔ بعد میں برصغیر کے ادیب شہیر مولانا غلام رسول مہر نے حکیم فقیر محمد چشتی مرحوم کی فرمائش پر صوفی عبد المجید کے لیے پرویں رقم کا خطاب تجویز کیا ، جسے حکیم صاحب نے پسند کیا اور یہی خطاب دیا گیا۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشند خدائے بخشندہ
پرویں رقم جتنا خوبصورت لکھتے تھے ، اتنے خوب صورت آپ خود بھی تھے اور آپ کی سیرت اس سے بڑھ کر خوبصورت تھی۔ قدرت کاملہ نے آپ کو سیرت حسنہ کی دل نشیں اداوں سے نوازا تھا۔ باغ و بہار شخصیت تھے۔ طبیعت میں کوئی تکلف نہ تھا ، اپنا ہو یا بیگانہ سبھی سے بڑے خلوص سے ملتے تھے۔ کوئی آپ کی تعریف کرتا تو اسے معیوب گردانتے اور کسر نفسی سے کام لیتے ۔ پنجابی زبان کا یہ شعر اکثر ورد لب رہتا
ڈردے رہیے رب ڈاہڈے کولوں
متے پھٹ جائے دودھ کڑھ کے
ایک دفعہ اپنے بے تکلف دوست شیخ مبارک علی تاجر کتب سے فرمایا: مجھ میں تو کوئی خوبی نہیں صرف غیبی عنایت ہے
نہایت منکسر المزاج تھے۔ لباس بے شک امیرانہ رہا مگر طبعا فقیر تھے۔ کسی کو ذرا دکھ میں دیکھ لیتے تو تڑپ جاتے۔ خوش باش انسان تھے۔ عادات و اطوار میں اپنے اسلاف کی پاکبازی اور شرافت کا شاندار مظہر تھے۔
لہو و لعب اور کھیل تماشہ سے ہمیشہ نفرت رہی۔ عبادات و اذکار میں مشغول رہتے۔ اپنے مرشد کے بتائے ہوئے وظائف پر سختی سے عمل کرتے تھے۔ چشتی نطامی سلسلہ تصوف کے شیخ کامل حافظ غلام محی الدین قصوری رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت تھے۔ حضرت سید علی الہجویری المعروف داتا گنج بخش کے مزار کے کتبات باوضو ہوکر کتابت کرتے رہے۔ چونکہ آپ فطرتا کم گو ، صوفی منش علم دوست ، درویش مزاج اور بالغ النظر انسان تھے ، اس لیے شفائ المک مرحوم کو ایسی ممتاز ہستی اپنی رفاقت کے لیے بہت پسند آئی۔
جناب حمید نظامی مدیر "نوائے وقت" لاہور نے آپ کے انتقال پر جو اداریہ مورخہ 9 اپریل 1946 کی اشاعت میں سپرد قلم کیا اس کے مندرجات میں یہ اعتراف بھی شامل ہے کہ:
"منشی عبد المجید پرویں رقم بھی اس ہفتہ انتقال کر گئے۔ مرحوم کو فن کتابت میں موجد کا درجہ حاصل ہے"
یکم جون 1950 ریڈیو پاکستان پشاور سے آپ کی موقر شخصیت پر جو نشریہ پیش کیا گیا ، رسالہ آہنگ کے حوالہ سے اس میں یہ الفاظ موجود ہیں
" خطاط مشرق جناب خلیفہ عبد المجید پرویں رقم نے جنہیں ہم طرز جدید کا سب سے بڑا موجد مانتے ہین ، پچھلے تمام شاہی خوش نویسوں سے بڑھ کر اس فن کو کمال تک پہنچایا اور رات دن کی محنت و کاوش سے پچھلی طرز تحریر ہی بدل ڈالی۔ خوش نویسی کو طرز جدید کے سانچے میں ڈھال کر نور علی نور بنا دیا۔ منشی صاحب موصوف اپنی طرز کے دنیا میں ایک ہی باکمال شخص تھے جنہوں نے تمام عمر اس فن کی تکمیل میں صرف کردی"
نوائے وقت کے ایک اداریہ کا اقتباس ملاحظہ ہو:
" آپ کی وفات پر ملک کے نامور حضرات کے علاوہ سینکڑوں علم دوست حضرت مولانا غلام رسول مہر ، مولانا محمد بخش مسلم اور مولانا عبد المجید سالک بھی جنازہ میں شامل ہوئے۔ انہوں نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے فرمایا آج فن کتابت کو ہیشہ ہمشہ کے لیے میانی صاحب لاہور میں دفن کردیا گیا ہے اور شاید قیامت تک ایسا صاحب فن پیدا نہ ہوسکے "
ممتاز خطاط سید انور حسین نفیس رقم مرحوم روزنامہ کوہستان لاہور کی اشاعت 14 جون 1964 میں ان خیالات کا اظہار فرماتے ہیں:
"اسی زمانہ میں خط نستعلیق کے مسلم الثبوت استاد عبد المجید پرویں رقم مرحوم کا آفتاب شہرت نصف النہار پر تھا۔ جناب پرویں رقم کو اس فن میں اجتہاد کا مقام حاصل تھا۔ انہوں نے خط نستعلیق کو ایک جدید اور دل کش طرز نگارش سے آراستہ کیا۔ خوش نویسان لاہور کی بہت بڑی تعداد نے ان کے اسلوب تحریر کو قبول عام کی سند دی۔ چناچہ جناب زریں رقم نے خط پروینی ہی اختیار کیا۔"
خطاط بے بدل حافظ محمد یوسف سدیدی مرحوم اپنے مقالہ "عہد اسلامی میں خطاطی" روزنامہ امروز مورخہ 15 اگست 1950 میں تحریر کرتے ہیں:
عبد المجید پرویں رقم لاہوری عہد برطانیہ کے بہت بڑے ماہر گذرے ہیں۔ انہوں نے نستعلیق میں بہت سے تبدیلیاں کیں اور نئی طرز تحریر کے جوڑ اور پیوند لگائے۔ یہاں کے خطاط عبد المجید پرویں رقم کے مقلد ہوئے اور بکمال خوبی اس طرز تحریر کو اپنایا۔ پرویں رقم نے اپنی زندگی میں کلام اقبال کی خطاطی کی۔
پرویں رقم کے شاگردوں میں خوشی محمد خوش رقم مرحوم اور جناب حاجی محمد اعظم صاحب منور رقم جو ان کے جانشین کی حیثیت سے پکارے جاتے ہیں ، خطاطی کی مختلف نمائشوں میں خصوصی انعامات ، میڈل اور تعریفی اسناد حاصل کرچکے ہیں
شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال علیہ الرحمۃ کا آپ سے خاص محبت تھی۔ وہ آپ کے فن و ہنر کے دلی قدر دان تھے۔ فلسفہ کہ گہرائیوں میں اتر جانے والا ذہن ، علم و حکمت کے اسرار مخفی سے آگاہ ہونے والا عظیم مفکر ، جس کی دور رس بصیرت نے حیات و موت کے راز معلوم کیے ، اسے یقینا پرویں رقم کی عظمت فن کا کوئی گوشہ دکھائی دیا ہوگا۔ ان کی رائے حقائق سے خالی نہیں ہوسکتی۔
بال جبریل کی کتابت شروع ہوئی تو فن اور قلم پسند کروانے کے لیے پرویں رقم نے ایک صفحہ لکھ کر اپنے عزیز شاگرد خوشی محمد خوش رقم کو علامہ کی خدمت میں بھیجا۔ حکیم الامت نے کتابت شدہ ورق دیکھتے ہوئے فرمایا
جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
خطاط مشرق کے مداح جان سکتے ہیں کہ حکیم الامت کی دیگر پیش گوئیوں کی طرح پرویں رقم کی آفاق گیر شہرت کے باب میں علامہ کا یہ شعر کتنا صادق آتا ہے۔ جوں جوں وقت گذرتا جائے گا ، اس فن لطیف کے پرستار ہر دور میں پرویں رقم کی معراج عظمت کے معترف رہیں گے۔ دنیا میں اقبال سا ترجمان حقیقت نہ ہوگا اور نہ پرویں رقم سا خوش نویس۔ دونوں کا عہد حیات ایک تھا۔ دونوں اپنی نظیر آپ تھے۔ دونوں کے کارناموں سے افق مشرق روشن ہوا کہ اہل مغرب کی آنکھیں چندھیا گئیں۔
آپ کا طریق کار مختلف تھا۔ طبیعت میں ٹھہراو پاتے تو کام کرتے ورنہ توجہ نہ دیتے۔ تھکاوٹ محسوس کرتے تو کام چھوڑ دیتے ، کیونکہ فن کار جو کچھ اپنے شوق اور آمادگی طبع سے ساتھ کرتا ہے وہ یادگار ہوتا ہے۔ پیشہ وری فن سے نزاکت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ پرویں رقم نہایت باوقار طریقہ سے مسند پر بیٹھتے۔ کمرے میں فرشی دری بچھی ہوتی تھی اس پر اعلی قسم کا قالین ہوتا۔ ٹیک لگانے کے لیے دو گاو تکیے رکھے ہوتے۔ ایک چھوٹے سائز کا قالین آپ کی عین نشست کی جگہ بچھا ہوتا۔ گدی میں پرندوں کے پر بھرے ہوتے تھے اپنے بیٹھنے کو استمعال کرتے تھے۔
صبح کے وقت ہی کام پر بیٹھتے۔ تازہ قلم تراشتے۔ مشق کی عادت شروع سے ہی اتنی پختہ تھی کہ کام کرنے سے پہلے اپنے آخری وقت تک تھوڑی سے مشق کرتے۔ نئی چیز لکھنے کے لیے دائرہ منتخب کرتے ، جو دائرہ مناسب ہوتا ، تحریر کے تمام دائرے عین اسی کے مطابق بناتے۔ جتنا آسانی سے لکھا جاسکتا ، لکھتے۔ عصر کی نماز کے بعد عموما کام نہ کرتے۔