معروف خطاط
عبد الباقی حداد یاقوت رقم
عہد شاہجہانی کے معروف خطاط تھے
خطِ نسخ میں باکمال تھے اور نستعلیق کے بھی بہترین استاد تھے
انہوں نے تیس صفحات پر مشتمل پورا قرآن کریم لکھ کر اورنگزیب عالمگیر کی نذر کیا
شاہ جہاں نے انہیں "یاقوت رقم" کا خطاب دیا
خطاطی مسلمانوں کی تاریخ میں ایک ایسا روشن اور منور باب ہے کہ جس کی کرنیں تا قیامت انسانی پاکیزہ ذوق کو ہمیشہ روحانی قوت فراہم کرتی رہیں گی۔
عبد الباقی حداد یاقوت رقم برصغیر کی تاریخ میں ایک اعلیٰ خطاط کے طور پر ہمیشہ زندہ و پائندہ رہیں گے۔ آپ ایرانی النسل تھے ، اصل نام عبد اللہ تھا مگر عبد الباقی حداد کے نام سے معروف تھے۔ مغلوں کے عہد میں ایرانی خطاطوں اور مصوروں کی ایک بڑی تعداد برصغیر پاک و ہند میں آئی۔ ان حضرات نے یہاں کے افراد کو خطاطی کی باکمال تربیت دی اور یہاں فنِ خطاططی و مینا توری آرٹ اور تہذیب کو روشناس کرایا۔
عبد الباقی حداد خطِ نسخ کے باکمال استاد تھے۔ آپ نے خطِ نسخ کی خوبصورتی میں ایسے اضافے کیے کہ اسے عروس الخط بنا دیا تھا۔ عبد الباقی حداد شاہ جہاں کے عہد میں آگرہ میں آئے اور یہاں آ کر ایسے ایسے فنی مظاہرے کیے کہ آپ کی شہرت شاہ جہاں تک جا پہنچی اور اس نے جناب یاقوت رقم کو شرفِ ملاقات بخشا اور آپ کے فن کا زبردست مداح ہوگیا اور آپ کو یاقوت رقم کا خطاب عطا کیا۔
اورنگزیب عالمگیر آپ کے خطِ نسخ کا بے حد مداح تھا۔
یاقوت رقم کا قول ہے کہ:
قلم کا ترچھا خط اور الفاظ کی بیضوی صورت خطِ نسخ کو بے حد کمال بخشتے ہیں
یاقوت رقم تازہ قلم سے صرف ایک صفحہ تحریر کرتے تھے اور اس سلسلہ میں آپ میر عماد الحسنی کے مقلد تھے۔ میر عماد کا کہنا تھا کہ :
ایک صفحہ کے بعد قلم کا خط اپنی جگہ چھوڑ دیتا ہے اور خط میں بھدا پن پیدا ہو جاتا ہے
عہد اورنگزیب عالمگیر میں آپ نے ایک نہایت اعلیٰ خوبصورت نسخہ قرآن اورنگزیب عالمگیر کو پیش کیا جو صرف تیس اوراق پر مشتمل تھا۔ اس کے علاوہ آپ نے اورنگزیب عالمگیر کو ایک بڑی وصلی پر قرآن کریم لکھ کر پیش کیا جو اورنگزیب عالمگیر لاہور لے آیا اور شاہی قلعہ میں آویزاں کر دیا۔ یہ نسخہ فقیر خانہ میوزیم بھاٹی گیٹ میں اب بھی موجود ہے۔ علاوہ ازیں جناب یاقوت رقم کے اور بھی فن پارے فقیر خانہ میوزیم میں موجود ہیں۔
اسی طرح آپ کا تحریر کردہ ایک نسخہ ء قرآنِ کریم جس میں بے شمار کمالاتِ خطاطی موجود ہیں ، سعیدیہ لائبریری ٹونک (انڈیا) میں بھی موجود ہے۔
یاقوت رقم کا قلم اور روشنائی بنانے کا انداز بالکل مختلف تھا۔ آپ کے تحریر کردہ فن پاروں میں روشنائی کی چمک دمک اب تک موجود ہے اگرچہ وصلیاں اور کاغذ بالکل بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ روایات میں ہے کہ عبد الباقی بالکل اسی معیار کی روشنائی تیار کرتے تھے جس طرح یاقوت مستعصمی تیار کیا کرتے تھے جو تحریر میں سہل اور سینکڑوں برس بعد بھی اپنی شان قائم رکھنے والی ہوتی تھی۔
عمر کے آخری حصہ میں جناب یاقوت رقم اپنے چند شاگرد برصغیر چھوڑ کر واپس ایران چلے گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دربارِ شاہی سے ان کے شاگردوں کو بھی کئی اعلی خطاب ملے اور ان شاگردوں نے بھی بڑا نام پیدا کیا۔
سعیدیہ لائبریری ٹونک (انڈیا) میں جناب یاقوت رقم کا تحریر کردہ اتنا باریک نسخہ بھی موجود ہے کہ جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ بغیر آئی گلاس کے بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
یاقوت رقم نہایت خلیق ، شاگردوں پر مہربان اور بلند اخلاق شخصیت تھے۔
آپ کے ایک شاگرد محمد عارف کو "یاقوت ثانی" کا خطاب ملا۔ جناب یاقوت ظانی کی تحریر کردہ ایک حمائل شریف دہلی میوزیم میں موجود ہے۔
عبد الباقی حداد یاقوت رقم نے ایران میں ہی وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔
حق تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین