عبد الرحمان بابا "عشق" کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

الف نظامی

لائبریرین
عبد الرحمان بابا رحمۃ اللہ علیہ اپنے اشعار میں عشق کے حوالے سے کیا لکھتے ہیں:

رحمان کو عشق میں آنکھیں نصیب ہوئیں۔ جو لوگ عاشق کو اندھا سمجھتے ہیں خدا انہیں خوار کرے۔
-
تیرے عشق کے شہیدوں کی خاک کے بغیر سرخ لالہ کے پھول کسی اور مٹی میں نہیں کھلتے
-
اگر تجھے اعلیٰ مرتبے کی ضرورت ہے تو وہ عاشقی ہی ہے۔ باقی تمام مرتبے ادنی ہیں۔ کوئی ادنی درجہ قبول نہ کر۔
عشق تو ایک کھلا خزانہ ہے۔ جس کی نظروں سے یہ اوجھل ہوا وہ مفلس ہوگیا
-
اگر دنیا میں کوئی کام ہے تو وہ عاشقی ہے ، ورنہ اس کے علاوہ دوسرے کام کوئی کام نہیں ہیں
-
عشق عاشق کے لیے ایسا گلستان ہے جس پر خزاں کا گذر ہی نہیں ہے
-
اگر تم عشق کی لذت سے آشنا ہو جاو تو دنیا بھر کی لذتوں کو زہر کی طرح تھوک دو گے۔
-
میرا ایک بال بھی عشق سے محروم نہیں۔ میں راہِ عشق میں ہر دم اپنے قافلے کا نگہبان ہوں
-
خبردار اس نایاب و نادر چیز (عشق) کا سودا اللہ کے سوا کسی اور سے نہ کر بیٹھنا
-
تواپنے عقل و ہنر پر تکیہ نہ کر کیوں کہ یہ وہ اسباب نہیں جو راہِ عشق میں تیری کامیابی کا سبب بن سکیں۔ انہی چیزوں پر تو بھروسہ کر کے افلاطون اس راہ میں اپنی کمر توڑ چکا ہے
-
عبد الرحمان بابا اور شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے خیالات میں مماثلت کی ایک مثال:
عبد الرحمان بابا فرماتے ہیں:

جب تک حق کو نہ پا لے اس وقت تک دم نہ لینا چاہیے خواہ اس جہان میں تجھے جہان کا پتہ پتہ اور ذرہ ذرہ ہی کیوں نہ چھاننا پڑے

اسی موضوع پر شاہ عبد اللطیف بھٹائی لکھتے ہیں کہ:
چلتے رہو اور بیٹھ کر وقت ضائع نہ کرو۔ اپنے دل میں حق کی تلاش اور جستجو کا مصمم ارادہ رکھو۔ اگر تمہیں منزل مقصود تک پہنچنے میں نامرادی اور ناکامی بھی ہو پھر بھی حق کی جستجو کی خاطر بیابان میں بھٹکنے میں راحت ہے

بحوالہ : عبد الرحمان بابا اور ان کے ہم عصر( بلھے شاہ ، سلطان باہو ، شاہ عبد اللطیف بھٹائی )
شائع کردہ : شعبہ مطبوعات ، محکمہ اطلاعات ، مغربی پاکستان لاہور
 

عدنان عمر

محفلین
سبحان اللہ۔ نثری ترجمے میں اتنی معنویت اور خوب صورتی ہے تو اصل منظوم متن میں کتنی ہوگی۔ عبد الرحمان بابا سے تعارف کروانے پر بہت بہت شکریہ الف نظامی بھیا۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
سبحان اللہ۔ نثری ترجمے میں اتنی معنویت اور خوب صورتی ہے تو اصل منظوم متن میں کتنی ہوگی۔ عبد الرحمان بابا سے تعارف کروانے پر بہت بہت شکریہ الف نظامی بھیا۔

آپ کی دلچسپی کو دیکھ کر یہاں مولانا بجلی گھر صاحب کا بذاتِ خود رحمان بابا کے حوالے سے ایک مشہور اور منفرد واقعہ ان کے بیان سے ترجمہ کرکے پوسٹ کررہاہوں۔
مولانا صاحب رحمان بابا کے خاص عقیدت مند تھے۔ رحمان بابا کا تعارف اور ان کا کلام جس طرح بجلی گھر صاحب نے پڑا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔


ترجمہ:

پچھلے سال ہوم سیکٹری نے فون کیا۔ کہ دو امریکی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ تو میں دل میں کچھ متذبذب ہوا کہ امریکیوں کا مجھ سے کیا کام؟
میں نے کہا مجھ سے کیا کام ہے، تو بولا کہ رحمان بابا پر ریسرچ کررہے ہیں۔
اور امریکی انٹیلیجنس ڈائریکٹرز ہیں۔
تو میں نے کہا کہ بلاؤ۔ جب رحمان بابا کا نام سنا تو کہہ دیا کہ بھیج دو۔ لیکن ترجمان بھی ساتھ بھیج دو کیوں کہ میں انگریزی نہیں جانتا۔
تو مجھ سے کہا کہ پشتو جانتے ہیں، بالکل صاف پشتو بولتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے دن دس بجے بھیج دو۔
میری جتنی داڑھیاں۔ سفید ٹوپیاں سر پر۔ میری طرح کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ بیٹھ گئے، پوچھا یہ کیا؟ آپ لوگ امریکی ہو؟
کہا جی ہاں۔ میں نے پوچھا یہ داڑھیاں، یہ ٹوپیاں، یہ طالبان جیسی سفید کپڑے، یہ کیسے؟
تو کہا کہ رحمان بابا پر ریسرچ کے غرض سے ہم نے تین سال کابل میں گزارے۔
چوں کہ کابل میں بغیر داڑھی کے لوگوں کو اجازت نہیں تو ڈر سے داڑھی رکھی ہے۔
کیا ریسرچ کررہےہو؟
کہا کہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ بندہ اس دنیا میں اتنا مشہور کیوں ہے؟
ہم نے امریکا میں سنا تھا کہ یہ بجلی گھر مولانا رحمان بابا کے بارے میں بہت بڑی اتھارٹی سمجھا جاتاہے۔ لہذا ہم سیکرٹری کے ذریعے آپ کے پاس آئے ہیں کہ ہمیں ان کے حالات کے متعلق بتائیں۔
تو میں نے کہا کہ کیا سنا ہے؟ تو کہا کہ ہم نے سنا ہے آپ نے رحمان بابا کو خود دیکھا ہے۔
تو ہم یہ تصدیق کرنے آئے ہیں۔ تو میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ اگر میں تصدیق کرلوں کہ میں نے دیکھا ہے تو پھر مسلمان ہوجاؤ گے یا نہیں۔ تو کہا کہ حضرت خلیہ تو مسلمانوں کا بنایا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ اگر کلمہ بھی پڑھ لو تو کہا کہ کلمہ بھی پڑھ لیں گے آپ بس بتادیں۔
پھر میں نے وہ قصہ ان کو بیان کردیا۔
قصہ:
کابل کے بادشاہ ظاہر شاہ نے دو سیٹ بھیجیں تھے سنگ مرمر کے۔ ایک رحمان بابا کے لیے اور ایک خوشحال خان بابا کے لیے۔
جب رحمان بابا کے قبر پر انہیں لگایا جارہا تھا تو اس دن میں دارالعلوم سرحد میں مدرس تھا۔ گیارہ بجے میں اور ایک طالب علم سائکل پر سوار ہوکر رحمان بابا کے قبر پر گئے۔ عید کا دن ہم ان کے مزار پر گزارتے تھے۔
جب ان امریکیوں سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ پھر کیا ہوا؟
تو میں نے کہا کہ رحمان بابا کے قبر کے ساتھ ان کالے پتھروں کو لگانے کے لیے ایک گڑھا کھودا گیا تھا۔ تو میں اس گڑھے میں اتر گیا اور لحد کے طرف کو جبل سے مارا۔ جب مارا تو چہرے کے اوپر ہی قبر میں سوراخ ہوگیا۔ (تعجب کے ساتھ) کیا دیکھتا ہوں کہ مردہ پڑا ہے۔ تو مجھے وہاں موجود مستری نے آواز دی کہ
ہندکو میں کہ اوپر آجاؤ بیڑا تباہ ہوگیا یہ کیا کردیا۔
میں نے کہا ہندکو میں کہ تم بھی آجاؤ۔
جب وہ بھی نیچے اترا تو اس سوراخ کو اِتنا کھول دیا۔ وہ طالب بھی نیچے آیا، سعید نام تھا، اللہ تعالیٰ بخش دے۔ جب سوراخ کو کھولا تو بالوں کا ایک گچھا اس جگہ پر اور ایک اس جگہ پر پڑا تھا۔ چہرے پر بہترین مسکراہٹ تھی۔
میں نے اس مستری سے ہندکو میں کہا کہ تم میرا ہاتھ پکڑو، اگر اس مردے نے مجھے پکڑ لیا تو تم مجھے کھینچ لینا۔ ڈر بھی رہا تھا۔
تو اس نے میرے ہاتھ پاؤں پکڑلیے اور میں نے ہاتھ اندر کیا۔ اللہ کی قسم، پانچ وقت اکھٹے ہورہےہیں۔ یہ ہونٹ، دانت، ناک، آنکھ کو اس طرح کھول کے دکھایا۔ سینے پر "شخوئی گڑي خانتا" کپڑے کا کفن ہے۔ ایسا پڑا ہے کہ جیسے ابھی رکھا ہو۔
زیارت کا قصہ یہاں ختم ہوتاہے۔

تو آخر میں ان امریکیوں نے مجھ سے کہا کہ براہ کرم یہ ٹیپ ریکارڈ ساتھ لائے ہیں، ایک دو قصیدے خوش الحانی میں سنا دیں۔ ہم نے سنا ہے کہ تقریروں میں آپ کی آواز بہت خوبصورت ہوتی ہے تو کچھ قصیدے سنا دیجیے۔ میں نے کہا ریکارڈر پکڑ لو۔ جب ریکارڈنگ ہوگئی۔ دو گھنٹے تک بیٹھے تھے۔
جب چلے گئے تو مہینے بعد ہوم سیکرٹری کو فون کیا کہ ان کا وہ کیسٹ ہم نے کلنٹن کو بھی سنایا۔ تو اس نے کہا کہ اگر یہ امریکا آنا چاہتے ہوں، تو ہم ان کے لیے جہاز کا بندوبست کرلیتے ہیں۔
تو میں نے ہوم سیکرٹری سے کہا کہ جب کوئی دوسرا امریکا جاتا ہے تو مجھے سور سے زیادہ بدتر لگتا ہے۔ تو آپ ابھی مجھے امریکا بھیج رہے ہو۔ کہہ دو کہ وہ بیمار ہیں طبیعت ٹھیک نہیں۔ ہوم سیکرٹری نے کہا کہ وہ پھر فون کریں گے۔
میں نے کہا کہ جان چھڑادو میری ان سے۔ نہیں جانا مجھے امریکاؤں کو۔ تو رحمان بابا پر امریکا نے بارہ سال تک تحقیق کی ہے۔

اس کے بعد
05:50 پر ان کے ایک قصیدے کا جزوی حصہ مولانا صاحب کی آواز میں سنا جاسکتاہے۔
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
جزاک اللہ آصف اثر صاحب۔ پشتو زبان سے ناواقفیت کی بنا پر (حالانکہ میرے ذخیرۂ کتب میں کہیں اردو، پشتو یا پشتو اردو لغت رکھی ہے۔) آڈیو تو سمجھ نہیں پایا، لیکن آپ کے ترجمے نے یہ کمی پوری کر دی۔ عبد الرحمٰن بابا اور خوشحال خان خٹک رحمھم اللہ کے بارے میں پڑھ رکھا ہے کہ آپ حضرات اپنے روحانی مرتبے کے ساتھ ساتھ پشتو کے عظیم شعراء ہیں۔ باقی الف نظامی صاحب اور آپ کی معرفت مزید جاننے کا موقع ملا۔ جزاکم اللہ خیراً۔
 

الف نظامی

لائبریرین
چہ پہ یو قدم تر عرشہ پورے رسی
مالیدلے دے رفتار د درویشانو

ایک قدم پر عرش پر جا پہنچتے ہیں
میں نے دیکھی ہے درویشوں کی رفتار !​
 
آخری تدوین:
Top