عثمان بزدار ہی وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے، وزیراعظم کا دو ٹوک اعلان

جاسم محمد

محفلین
عثمان بزدار ہی وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے، وزیراعظم کا دو ٹوک اعلان
ویب ڈیسک اتوار 26 جنوری 2020

1966683-imrankhan-1580048930-370-640x480.jpg

قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں،وزیراعظم فوٹو: فائل


لاہور: وزیر اعظم عمران خان نے پی ٹی آئی کے ارکان صوبائی و قومی اسمبلی کو واضح طور پر کہا ہے کہ عثمان بزدارہی وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق لاہور میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران تحریک انصاف کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے شکایتیوں کے انبار لگادیئے۔ وہ اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام نہ ہونے اور بیوروکریسی کے رویے کیخلاف پھٹ پڑے۔ اراکین اسمبلی نے ویلج کونسل کے انتخابات کرانے کے بارے میں وزیراعظم کواپنے تحفظات سے آگاہ کیا، انہوں نے کہا کہ حلقے میں لوگوں کے کام نہ ہونے کی وجہ سے پارٹی کومشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

شاہ محمود قریشی کے خلاف شکایت

اجلاس کے دوران ملتان سے رکن قومی اسمبلی ملک احمد حسین ڈیہر نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور عامر ڈوگر پر الزام لگایا کہ دونوں ارکان اسمبلی ان کے حلقے میں مداخلت کررہے ہیں۔ شاہ محمود سارے فنڈز لے جاتے ہیں اور ہمیں کچھ نہیں ملتا۔ جس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ الزام غلط ہے، حقیقت یہ ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں انہوں نے ہی احمد حسین کو پارٹی ٹکٹ دینے کی سفارش کی تھی۔

راجا ریاض کی تنقید؛

تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی راجا ریاض نے بجلی کے زائد بلوں پر شدید تنقید کی، انہوں نے کہا کہ حلقے میں ہماری اور بزرگوں کی 100 سال کی عزت تھی وہ بھی چلی گئی ، حلقے کے عوام ہمیں مارنے کے درپے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں مہنگائی کا بھی احساس ہے،ہم قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ سابق حکومتوں نے پاکستان کو بے دردی سے لوٹا اور عوام کو غربت اور بے روزگاری کے اندھیروں میں دھکیل دیا، جو انتظامی، سماجی، معاشی اور اقتصادی تبدیلیاں ہم لے کر آ رہے ہیں ان سے ملک ترقی و خوشحالی سے ہمکنار ہوگا، قوموں کی زندگیوں میں نشیب و فراز آتے ہیں۔ لیکن ہمیں ہمت اور دلیری سے حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔ پاکستان درست سمت میں رواں دواں ہے، 2019 معیشت کو سنبھالنے اور استحکام کا سال تھا۔ 2020 انشا اللہ ترقی کا سال ہوگا۔

پولیس کے خلاف شکایات

اجلاس کے دوران ارکان اسمبلی نے شکایت کی کہ بیورو کریسی اور پولیس ان کی بات سننے کو بھی تیار نہیں۔ جس پر وزیراعظم نے آئی جی پولیس کو اراکین اسمبلی سے رابطہ رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ امن و امان کے مسئلے پر پولیس عوامی نمایندوں کے ساتھ مل کر پالیسی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں عوام نے ہماری صحت، مقامی حکومتوں کے نظام اور خصوصی طور پر پولیس کے نظام کے حوالے سے کامیاب پالیسیوں پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ اس نظام کی کامیابی کی بنیادی وجہ سیاسی عدم مداخلت تھی۔

وزیر اعظم خود پنجاب سنبھالیں

اجلاس کے دوران ارکان اسمبلی نے اس بات پر زور دیا کہ پنجاب کو وزیر اعظم عمران خان خود سنبھالیں، جس پر وزیر اعظم نے کہا کہ بیوروکریسی اپنا کام کررہی ہے اور وزیراعلی اپنا کام کررہے ہیں، پنجاب میں بہترین انتظامی ٹیم لے کر آئے ہیں۔

ناراض گروپ کے گلے شکوے

پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے ناراض گروپ نے اجلاس میں وزیراعظم کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کی۔ ناراض رکن اسمبلی غضنفر عباس چھینہ نے کہا کہ ہم نا تو ناراض تھے نہ ہی فارورڈ بلاک بنایا، ہمارے چھوٹے موٹے شکوے تھے ان کا اظہار کردیا، ہم پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں، پارٹی کے اندر گلہ شکوہ تو ہوسکتا ہے۔

عثمان بزدار ہی وزیراعلیٰ پنجاب

اجلاس میں وزیراعظم نے عثمان بزدارکی تبدیلی کے حوالے سے قیاس آرائیوں کومسترد کردیا، انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار پر بھرپور اعتماد ہے، مجھے پتہ ہے سازش کون کررہا ہے اور اس کے پیچھے کون ہے، عثمان بزدارکو کسی صورت نہیں ہٹاؤں گا،عثمان بزدارہی وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے۔عثمان بزدارکی تبدیلی سے پنجاب میں پارٹی ختم ہوجائے گی۔عثمان بزدارکو ہٹایا تو نئے وزیراعلیٰ کو بھی ایسے ہی ہٹادیا جائے گا، وہ 20 روز بھی نہیں چل سکے گا۔

عثمان بزدار کی تعریفیں

اس دوران ملک فاروق اعظم نے کہا کہ عثمان بزدار سے اچھا وزیراعلی پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں آیا۔ رکن اسمبلی طالب نکئی نے بھی وزیراعلی پنجاب کی تعریف کی اور کہا کہ وزیراعلی نے 4 مرتبہ ان کے حلقے کا دورہ کیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
کپتان جب کرکٹ کے میدان میں تھے تو منصور اختر کو شاید دنیا کا بہترین بلے باز تصور کرتے تھے۔ آج تاریخ نے ثابت کر دکھایا کہ منصور اختر سے بڑا بلے باز دنیا کی تاریخ میں نہیں آیا۔ اب آپ کہیں گے کہ ہمیں اُن کا نام بھی نہیں معلوم۔ یہ تو پھر ہو گا صاحب، آپ کو چاہیے کہ عثمان بزدار کی تاریخ جاننے سے قبل منصور اختر کی تاریخ پڑھیں!
 

جاسم محمد

محفلین
کپتان جب کرکٹ کے میدان میں تھے تو منصور اختر کو شاید دنیا کا بہترین بلے باز تصور کرتے تھے۔ آج تاریخ نے ثابت کر دکھایا کہ منصور اختر سے بڑا بلے باز دنیا کی تاریخ میں نہیں آیا۔ اب آپ کہیں گے کہ ہمیں اُن کا نام بھی نہیں معلوم۔ یہ تو پھر ہو گا صاحب، آپ کو چاہیے کہ عثمان بزدار کی تاریخ جاننے سے قبل منصور اختر کی تاریخ پڑھیں!
وسیم اکرم، وقار یونس جیسے گم نام کھلاڑیوں کو پالش کرکے بین الاقوامی ہیروز بنانا بھی اسی عمران خان کا کارنامہ ہے۔
Trust Imran to place the right man in the right place: Akram
 

عدنان عمر

محفلین
دروغ بر گردنِ راوی، ہم نے معاصر کھلاڑیوں بشمول عظیم بیٹس مین جاوید میانداد سے خان صاحب کی چشمک کے قصے بھی سن رکھے ہیں۔ اس بارے میں ہم سے عمر میں بڑے اور کرکٹ کا شوق رکھنے والے محفلین ہی بہتر بتاسکتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
دروغ بر گردنِ راوی، ہم نے معاصر کھلاڑیوں بشمول عظیم بیٹس مین جاوید میانداد سے خان صاحب کی چشمک کے قصے بھی سن رکھے ہیں۔ اس بارے میں ہم سے عمر میں بڑے اور کرکٹ کا شوق رکھنے والے محفلین ہی بہتر بتاسکتے ہیں۔
تاریخ کے مطابق

  • جنرل ایوب صدر سکندر مرزا کا انتخاب تھے
  • ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کا انتخاب تھے
  • جنرل ضیا الحق وزیر اعظم بھٹو کا انتخاب تھے
  • نواز شریف جنرل ضیا الحق کا انتخاب تھے
  • زرداری وزیر اعظم بینظیر کا انتخاب تھے
  • جنرل مشرف وزیر اعظم نواز شریف کا انتخاب تھے
  • چوہدری برادران جنرل مشرف کا انتخاب تھے
  • جنرل باجوہ وزیر اعظم نواز شریف کا انتخاب تھے
  • اب وزیر اعظم عمران خان جنرل باجوہ کا انتخاب ہیں اور عثمان بزدار عمران خان کا انتخاب
ان تمام تاریخی انتخابات میں عوامی انتخاب کتنے ہیں؟ آٹے میں نمک کے برابر
 
اللہ رحم کریں پاکستان پر کی عوام پر ۔۔۔عوام مر یا جیئے ان کی بلا سے ،، ان کو فنڈ کی پڑی ہے کہ کون لے جاتا ہے یا وازرتوں کی ،، عوام بھی آگے سے ایسی ہی ہے ان کو اپنے مسائل سے زیادہ ڈرامے میں کون مر گیا کی فکر کھاہیے جارہی ہیں
 

عدنان عمر

محفلین
تاریخ کے مطابق
  • جنرل ایوب صدر سکندر مرزا کا انتخاب تھے
  • ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کا انتخاب تھے
  • جنرل ضیا الحق وزیر اعظم بھٹو کا انتخاب تھے
  • نواز شریف جنرل ضیا الحق کا انتخاب تھے
  • زرداری وزیر اعظم بینظیر کا انتخاب تھے
  • جنرل مشرف وزیر اعظم نواز شریف کا انتخاب تھے
  • چوہدری برادران جنرل مشرف کا انتخاب تھے
  • جنرل باجوہ وزیر اعظم نواز شریف کا انتخاب تھے
  • اب وزیر اعظم عمران خان جنرل باجوہ کا انتخاب ہیں اور عثمان بزدار عمران خان کا انتخاب
ان تمام تاریخی انتخابات میں عوامی انتخاب کتنے ہیں؟ آٹے میں نمک کے برابر
جناب ہم نے تو خان صاحب کے کرکٹ کیریئر کے بارے میں کچھ عرض کیا تھا، آپ ہمیں سیاست کی طرف کہاں لے آئے۔
ویسے کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ خان صاحب، عثمان بزدار کی ویسی ہی غیر مشروط حمایت کر رہے ہیں جیسی وہ لیگ اسپنر عبد القادر صاحب کی کیا کرتے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جناب ہم نے تو خان صاحب کے کرکٹ کیریئر کے بارے میں کچھ عرض کیا تھا، آپ ہمیں سیاست کی طرف کہاں لے آئے۔
ویسے کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ خان صاحب، عثمان بزدار کی ویسی ہی غیر مشروط حمایت کر رہے ہیں جیسی وہ لیگ اسپنر عبد القادر صاحب کی کیا کرتے تھے۔
چاپلوسی اور خوشامد اس قوم کا تاریخی ورثہ ہے:
جنرل ایوب جیسا لیڈر آج تک پیدا نہیں ہوا، ذوالفقار علی بھٹو
میری عمر بھی نواز شریف کو لگ جائے، جنرل ضیا الحق
میں جنرل ضیا الحق کا مشن پورا کروں گا، نواز شریف
زرداری نے کوئی کرپشن نہیں کی، بینظیر بھٹو
جنرل مشرف عظیم لیڈر ہیں، چوہدری شجاعت
نواز شریف ایک نشہ ہے، مریم اورنگزیب
عثمان بزدار وسیم اکرم پلس ہے، عمران خان
 

فرقان احمد

محفلین
وسیم اکرم، وقار یونس جیسے گم نام کھلاڑیوں کو پالش کرکے بین الاقوامی ہیروز بنانا بھی اسی عمران خان کا کارنامہ ہے۔
جی ہاں! اس میں وسیم اکرم اور وقار یونس کا اپنا کوئی کارنامہ نہیں۔ :) بزدار سائیں کے لیے بھی کوئی پالش ڈھونڈیے!
 

جاسم محمد

محفلین
جی ہاں! اس میں وسیم اکرم اور وقار یونس کا اپنا کوئی کارنامہ نہیں۔ :) بزدار سائیں کے لیے بھی کوئی پالش ڈھونڈیے!
پنجاب کا نظام تیس سال سے شریفوں، زرداریوں اور چوہدریوں نے درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے۔ یہاں تک کہ اس وائرس نے تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ماضی کی روش کے مطابق ڈویلپمنٹ فنڈز براہ راست ممبران اسمبلی کو دئے جائیں اور پھر وہ آگے سے اپنے اپنے حلقوں میں کام کروا کر ووٹ لیں۔ یہ دو نمبر نظام اب نہیں چلے گا۔ اب صرف بلدیاتی انتخابات کے بعد قائم ہونے والی بلدیاتی حکومتوں کو براہ رست فنڈ جاری ہوں گے۔ پرانا کرپٹ نظام ختم ہو رہا ہے اس لیے سب کی چیخیں نکل رہی ہیں۔
اراکین اسمبلی نے ویلج کونسل کے انتخابات کرانے کے بارے میں وزیراعظم کواپنے تحفظات سے آگاہ کیا، انہوں نے کہا کہ حلقے میں لوگوں کے کام نہ ہونے کی وجہ سے پارٹی کومشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جی ہاں! اس میں وسیم اکرم اور وقار یونس کا اپنا کوئی کارنامہ نہیں۔ :) بزدار سائیں کے لیے بھی کوئی پالش ڈھونڈیے!
مزید یہ کہ اگر ن لیگ یا کوئی اور جماعت بلدیاتی انتخابات جیت جاتی ہے تو اس سے صوبائی اور وفاقی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کیونکہ مقامی سطح پر ڈلیور کرنا بلدیاتی حکومتوں کا ہی کام ہے۔ صوبائی اور وفاقی اراکین اسمبلی کا کام صرف قانون سازی کرنا اور وزرا کا کام پالیسی سازی کرنا ہے۔ اس بنیادی نظام مملکت کو تباہ برباد کرکے جو پٹوارانہ نظام پنجاب میں رائج کر دیا گیا تھا اس کو ٹھیک کرتے کرتے وقت لگے گا
 

جاسم محمد

محفلین
جی ہاں! اس میں وسیم اکرم اور وقار یونس کا اپنا کوئی کارنامہ نہیں۔ :) بزدار سائیں کے لیے بھی کوئی پالش ڈھونڈیے!
پنجاب کا اصل وزیر اعلیٰ عمران خان ہے۔ عثمان بزدار صرف کٹھ پتلی ہے۔ اور پھر لوگ کہتے ہیں خان کو سیاست نہیں آتی۔ :)
EPM-Frp-Wo-AAp3x.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
دروغ بر گردنِ راوی، ہم نے معاصر کھلاڑیوں بشمول عظیم بیٹس مین جاوید میانداد سے خان صاحب کی چشمک کے قصے بھی سن رکھے ہیں۔ اس بارے میں ہم سے عمر میں بڑے اور کرکٹ کا شوق رکھنے والے محفلین ہی بہتر بتاسکتے ہیں۔
آپ درست فرما رہے ہیں۔ عمران خان اور جاوید میانداد کی چشمک دو طرح کی تھی، پہلی تو وہی جو پاکستان کرکٹ میں روایتی چشمک ہے لاہور اور کراچی کی کہ کیپٹن کہاں سے ہو اور کس کی مرضی کے کھلاڑی ٹیم میں کھیلیں یہ اَسی کی دہائی کی بات ہے۔ دوسری بار ان کا مسئلہ 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد کھڑا ہوا، شنید ہے رقم کا تنازعہ تھا۔ عمران خان کا اس کے علاوہ سرفراز نواز سے بھی مسئلہ رہا اور ماجد خان سے بھی۔ ماجد خان، عمران خان کا کزن ہے لیکن عمران نے کپتان بننے کے بعد سب سے پہلے ماجد خان کو فارغ کیا تھا۔ ماجد خان ایک انتہائی سنجیدہ انسان ہیں اور شاید ابھی تک عمران خان سے ناراض ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ماجد خان، عمران خان کا کزن ہے لیکن عمران نے کپتان بننے کے بعد سب سے پہلے ماجد خان کو فارغ کیا تھا۔ ماجد خان ایک انتہائی سنجیدہ انسان ہیں اور شاید ابھی تک عمران خان سے ناراض ہیں۔
عمران خان کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے کسی رشتے کی پرواہ نہیں کرتا۔ جبکہ شریف، زرداری وغیرہ اپنا سب کچھ جھونک کر خاندان کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
عمران خان کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے کسی رشتے کی پرواہ نہیں کرتا۔ جبکہ شریف، زرداری وغیرہ اپنا سب کچھ جھونک کر خاندان کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
قاسم عمر صاحب اور دیگر کئی ٹیلنٹ رکھنے والے کھلاڑی بھی شاید خان صاحب کے رشتہ دار ہوں گے؛ تب ہی انہیں بھی فارغ کر دیا گیا یا کروا دیا گیا۔
 

عدنان عمر

محفلین
آپ درست فرما رہے ہیں۔ عمران خان اور جاوید میانداد کی چشمک دو طرح کی تھی، پہلی تو وہی جو پاکستان کرکٹ میں روایتی چشمک ہے لاہور اور کراچی کی کہ کیپٹن کہاں سے ہو اور کس کی مرضی کے کھلاڑی ٹیم میں کھیلیں یہ اَسی کی دہائی کی بات ہے۔ دوسری بار ان کا مسئلہ 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد کھڑا ہوا، شنید ہے رقم کا تنازعہ تھا۔ عمران خان کا اس کے علاوہ سرفراز نواز سے بھی مسئلہ رہا اور ماجد خان سے بھی۔ ماجد خان، عمران خان کا کزن ہے لیکن عمران نے کپتان بننے کے بعد سب سے پہلے ماجد خان کو فارغ کیا تھا۔ ماجد خان ایک انتہائی سنجیدہ انسان ہیں اور شاید ابھی تک عمران خان سے ناراض ہیں۔
ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ بانوے کے ورلڈ کپ کے لیے خان صاحب نے جاوید میانداد کو ٹیم میں شامل نہیں کیا تھا۔ اس پر جب عوامی احتجاج ہوا تو اربابِ اختیار نے میانداد صاحب کی ٹیم میں شمولیت کی راہ ہموار کی۔
 

فرقان احمد

محفلین
ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ بانوے کے ورلڈ کپ کے لیے خان صاحب نے جاوید میانداد کو ٹیم میں شامل نہیں کیا تھا۔ اس پر جب عوامی احتجاج ہوا تو اربابِ اختیار نے میانداد صاحب کی ٹیم میں شمولیت کی راہ ہموار کی۔
یہ 1996ء ورلڈ کپ کا قصہ ہے جناب!
 

جاسم محمد

محفلین
قاسم عمر صاحب اور دیگر کئی ٹیلنٹ رکھنے والے کھلاڑی بھی شاید خان صاحب کے رشتہ دار ہوں گے؛ تب ہی انہیں بھی فارغ کر دیا گیا یا کروا دیا گیا۔
ہو سکتا ہے۔ اب گڑھے مردے اکھیڑنے کا کیا فائدہ۔ اصل چیز یہ ہے کہ خان نے نامناسب حالات، انجری کے باوجود ڈلیور کیا اور پاکستان ورلڈ چیمپئن بنا۔
۱۹۹۲ سے کہیں بہتر ٹیم ۱۹۹۹ میں پاکستان کے پاس موجود تھی۔ پورے ورلڈ کپ میں پاکستان صرف تین میچ ایک بنگلہ دیش، دوسرا بھارت اور تیسرا جنوبی افریقہ سے ہارا تھا۔ اس کے باوجود وسیم اکرم کی ناقص کپتانی میں ۱۹۹۹ کا فائنل بری طرح آسٹریلیا سے ہار گیا۔ یہ وہ ٹیم تھی جسے گروپ میچ میں پاکستان شکست دے چکا تھا۔
 
آخری تدوین:
ہو سکتا ہے۔ اب گڑھے مردے اکھیڑنے کا کیا فائدہ۔ اصل چیز یہ ہے کہ خان نے نامناسب حالات، انجری کے باوجود ڈلیور کیا اور پاکستان ورلڈ چیمپئن بنا۔
۱۹۹۲ سے کہیں بہتر ٹیم ۱۹۹۹ میں پاکستان کے پاس موجود تھی۔ پورے ورلڈ کپ میں پاکستان صرف دو میچ ایک بنگلہ دیش اور دوسرا بھارت سے ہارا تھا۔ اس کے باوجود وسیم اکرم کی ناقص کپتانی میں ۱۹۹۹ کا فائنل بری طرح آسٹریلیا سے ہار گیا۔ یہ وہ ٹیم تھی جسے گروپ میچ میں پاکستان شکست دے چکا تھا۔
ایسا کیوں ہے کہ 92 میں کپتان نے کامیابی کو اپنی ذاتی کامیابی کہا اور ٹیم کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جبکہ پچھلے ڈیڑھ سال سے مسلسل ناکامیوں کو اپنی ٹیم سے منسوب کرتے آرہے ہیں اور بار بار ٹیم کو تبدیل بھی کرتے رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایسا کیوں ہے کہ 92 میں کپتان نے کامیابی کو اپنی ذاتی کامیابی کہا اور ٹیم کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جبکہ پچھلے ڈیڑھ سال سے مسلسل ناکامیوں کو اپنی ٹیم سے منسوب کرتے آرہے ہیں اور بار بار ٹیم کو تبدیل بھی کرتے رہے ہیں۔
کیونکہ وہ ٹیم صرف اور صرف پاکستان کو ورلڈ کپ جتوانے کیلئے کھیل رہی تھی۔ جبکہ موجودہ ٹیم وزارتوں، مراعات، فنڈز کے پیچھے خان کو خوار کر رہی ہے۔ جس دن یہ ٹیم صرف ملک کو جتوانے کا سوچے گی اس دن خان کامیاب ہوگا۔
3-A7-C1-AFB-A3-EF-4-D82-95-D7-BCE337-E017-BC.jpg
 
Top