فرقان احمد
محفلین
خان صاحب کی ٹیم کی 1992 ورلڈ کپ میں کارکردگی، بشمول خان صاحب کی اپنی کارکردگی کے، دیکھ لیجیے۔ شاید آپ انضمام الحق، وسیم اکرم وغیرہ کا شکریہ ادا کرنا نہ بھولیں گے۔ گو کہ ہم خان صاحب سے کریڈٹ نہیں لے سکتے تاہم یوں تو 1983ء اور 1987ء کا ورلڈ کپ بھی بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ بھی کہ خان صاحب 1975ء سے ورلڈ کپ ٹیم کا باقاعدہ حصہ رہے؛ متعدد بار ورلڈ کپ میں کپتان بھی رہے۔ہو سکتا ہے۔ اب گڑھے مردے اکھیڑنے کا کیا فائدہ۔ اصل چیز یہ ہے کہ خان نے نامناسب حالات، انجری کے باوجود ڈلیور کیا اور پاکستان ورلڈ چیمپئن بنا۔
۱۹۹۲ سے کہیں بہتر ٹیم ۱۹۹۹ میں پاکستان کے پاس موجود تھی۔ پورے ورلڈ کپ میں پاکستان صرف تین میچ ایک بنگلہ دیش، دوسرا بھارت اور تیسرا جنوبی افریقہ سے ہارا تھا۔ اس کے باوجود وسیم اکرم کی ناقص کپتانی میں ۱۹۹۹ کا فائنل بری طرح آسٹریلیا سے ہار گیا۔ یہ وہ ٹیم تھی جسے گروپ میچ میں پاکستان شکست دے چکا تھا۔