تعارف عثمان جَگت پوری

اس دن نہ بجلی کڑکی نہ بادل گرجے نہ آندھی آئی اور نہ ہی زور کی بارش ہوئی کسی بھی غیر متوقع موسمی تبدیلی کے بغیر ہمارے والدین کے گھر خاندان کی دوسری نسل کے پہلے فرزند ارجمند کی ولادت با سعادت ہوئی سعادت کے اس تسلسل کو جاری رکھنے کی خاطر ترچھی چارپائی کانفرنس میں ہمارا نام سعادت علی تجویز ہوا مگر جس گاؤں میں اعجاز بوولی، اکبر ٹگا، ندیم چپن، ساجد چُپ، نجی سنیاری اور بشیر کھچی جیسے نام ہو وہاں میرے نام کو پکارتے ہوئے پیش آنے والی دُشواری کو انہوں نے جلد بھانپ لیا اور میرا نام سعادت علی سے بدل کر عثمان رکھ دیا جسے ہم نے گاؤں کی مناسبت سے بعد میں عثمان جگت پوری کرلیا ابھی تک کاغذات نامزدگی تک میں وہی لکھا جا رہا ہے
اگر سرسید زندہ ہوتے یا مولانا حسین احمد مدنی کی سربراہی میں دارالعلوم دیوبند چل رہا ہوتا تو عین ممکن تھا کہ ہمیں وہاں حصول تعلیم کے لئے روانہ کر دیا جاتا خاندان کا پہلا سپوت ہونے کے ناطے ہمارے علاوہ سب کو ہماری تعلیم کی بہت فکر تھی سو ہمیں گاؤں کے کھوتی سکول میں ماسٹر منگو صاحب کی سرپرستی میں چھمکوں کے سائے میں تعلیم حاصل کرنے کی خاطر چھوڑ دیا گیا تعلیم تو جو ہم نے حاصل کرنی تھی وہ تو کرنی تھی مگر گندا رہنے میں بہت نام کمایا امی جان صبح پوری محبت اور محنت سے تیار کر کے بیجھتی اور میں کمال مہارت سے خود کو کپڑے سمیت گندا کر کے گھر پہنچاتا انعام میں تھپڑ گھونسے اور جوتیاں کھانے کو ملتی مگر ہماری استقامت میں فرق نہ آیا سال گذرتے گئے زہانت کے باوجود ہمارے اندر تعلیم کے علاوہ ہر چیز سے کمال دلچسپی پیدا ہوئی گھر والوں کا خیال تھا کہ ہم والد صاحب اور چچا جان کی طرح گاؤں میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کر کے ان کی روائت کو قائم رکھیں گے مگر اس معاملے میں ہم نے انہیں بہت مایوس کیا


پڑھتے بہت تھے مگر زیادہ تر غیر نصابی کتابیں عشاق کے خطوط لکھ کر دینے میں خاص مہارت تھی اور کبھی کبھار تو سواری کا انتظام و انصرام بھی ہمارے ذمہ ہوتا تھا نہم تک کام چرپ زبانی سے چلتا رہا ہم اگلے سال کی آمد پر کمرہ بدل کر اچھے سے ڈیسک پر قبضہ جما ہی لیتے مگر جب میٹرک میں بورڈ کے امتحانات کی باری آیی تو اس زبان نے بھی ساتھ چھوڑ دیا سکول والوں نے ہمارا داخلہ بھیجنے سے معذرت کر لی اس دن کی والد صاحب کی پریشانی آج بھی یاد ہے تب غیرت نے جوش مارا گھر والوں کی منت سماجت کی کہ ایک موقع اور دیا جائے تاکہ ہم اپنی زہانت کا ثبوت دے سکیں مشورے سے یہ طے پایا کہ اسے نانا کے ہاں جو کہ خود بھی ریٹائرڈ ٹیچر تھے بھیج دیا جائے تاکہ وہاں رہ کر پرائیویٹ امتحان دے سکے سو ہم ہجرت کرکے ننھیال پہنچے یہ ہمارے چونکہ پہلی ہجرت تھی وہ بہت کُرلاپ ہوا مگر جانے والے کو جانا تھا.وہاں جا کر سب عیش و نشاط عنقا ہو گیے. نانا ابو نے مجھ پر خوب محنت کی اور وقتاً فوقتاً اپنی کھسے سے میری تواضع بھی کرتے رہے دوسری طرف جب بھی اماں جان سے بات ہوتی عہد لیتں کہ بیٹا فیل نہیں ہونا ورنہ تیرے ابا ساری عمر مجھے اتنا کوڑھ مغز فرزند جننے پر تانے مارتے رہیں گے بیٹا میرا سکون اور خاندان کی عزت اب تیرے ہاتھ میں ہے وہاں جا کر آوارہ گردی تو ختم ہو گی مگر یہ کتب بینی والی عادت پھر بھی نہ چھوٹی کیمسٹری کی کتاب کے نیچے جاسوسی ناول ہوتا اور ساری ساری رات جاگ کر سب کے سامنے پڑھنے کا ڈھونگ رچاتے نانا جان تہجد گذار تھے جب اٹھتے تو ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہمارے چہرے پر ایک معصوم سی مسکراہٹ اور دل میں ایک کمینی سی خوشی پیدا ہوتی لمبی سی آنگڑائی لے کر آنکھ بچا کر کتاب سرھانے کے نیچے چھپا کر سو جاتےریاضی کمزور تھی اس کے لیے ایک معلم ریاضی کا بندوبست کیا گیا جن کے بارے میں مشہور تھا کہ سونگھ کر بتا دیتے ہیں کہ سوال غلط ہے اور دوسرا انہیں خوشامد بڑی پسند تھی ریاضی اچھی پڑھاتے تھے. مگر ان کی دوسری عادت سے میں نے بہت فائدہ اٹھایا مجال ہے کبھی کسی سے میری شکایت کی ہو ان دنوں بسنت کا موسم تھا. صبح پیپر دے کر آتے پھر شام تک پتنگ بازی کرتے پیپر تو جیسے تیسے ختم ہو گئے. گھر والوں کے برعکس ریاضی اور انگلش کے علاوہ کسی مضمون سے پاس ہونے کی کچھ خاص امید نہیں تھی.
رزلٹ والے دن خوب گرمی تھی میں دوپہر کو سویا ہوا تھا کہ خالہ کے جھنجھوڑنے سے میری آنکھ کھلی تو پتا چلا آج پانچ سال ابا جان نے اپنے سسرال میں فون کر کے خبر دی ہے کہ مبارک ہو
“منڈا پاس ہو گیا”
میڑک کرنے پر مجھ سے زیادہ گھر والوں کو خوشی ہوئی تھی کہ ان کی عزت کا جنازہ نکلنے سے بچ کیا مگر اس کارنامے سے میری قابلیت پر ان کا ایمان بحال نہ ہو سکا لہذا نتیجہ آنے کے ایک ماہ بعد تک بھی کسی نے کالج میں داخلے کا نام تک نہ لیا. بہت کسمسائے التجائیں کیں مگر آنکھوں میں کالج کی حسین زندگی کے خواب ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گئے ہم یاس و حسرت کی وہ دیوار بنے رہ گئے جو خواہشات کی کائی سے تو آٹی تھی مگر بنیاد شکست خوردگی کا شکار تھی . اس حسین زندگی کی رعنائیوں کی چھن جانے کا بہت قلق تھا کچھ دن بعد ناامید ہو کر ہم نے خود ہی کہنا شروع کر دیا کہ کالج کی پڑھائی میں کیا رکھا ہے مجھے کوئی ہنر سیکھنا ہے کسی ٹیکنیکل ادارے میں داخل کروا دیں قرعہ فال ستارہ کیمیکل کے نام نکلا جہاں 3 سال کی اپرنٹس شب کروائی جاتی تھی جس میں تعلیم کیساتھ ساتھ ماہوار وظیفہ بھی مکرر تھا.چونکہ ہم پیدا ہی قبول صورت ہوئے تھے اور اس کا ہمیں شروع ہی سے ادراک تھا لہٰذا کبھی بھی انتہائی ضرورت کے بغیر بچپن میں کوئی تصویر نہیں بنوائی. ہیت بھی عجیب سی تھی کانگڑی بدن، چُنی آنکھیں، بدھے ہونٹ جمی ٹھوڑی، سانولی کم اسودی رنگت زیادہ، درمیانہ قد اور اس پر مستزاد ہمارے عجیب و غریب قسم کے بال جن میں سے مانگ نکالنا پتھریلی زمین میں نالہ کھودنے کے مترادف تھا اسی لیے تنگ آ کر ہم نے مانگ نکالنی ہی چھوڑ دی. بال روبہ فلک بناتے ہیں اور ابھی تک اسی روش پر قائم ہیں. بھلا روز اتنی مشقت کون کرے
نانا جی کیساتھ ہم ستارہ کیمیکلز پہنچے ایڈمن منیجر عباد علی صاحب کو پہلے تو میری شکل دیکھ کر یقین ہی نہیں آیا کہ میں اتنی کم سنی میں میڑک کی اعلی تعلیم حاصل کر چکا ہوں. تسلی تب ہوئی جب میں نے شرماتے ہوئے جیب سے میٹرک کی کڑکڑاتی سند نکال کر دکھائی جس کہ ایک طرف نگوڑا ڈُپلیکیٹ لکھا ہوا تھا اگلے پانچ منٹ اسی کی وضاحت میں گذر گئےہم شروع ہی سے اعلی پائے کے مخبوط الحواس قسم کے انسان واقع ہوئے تھے بھیجو چینی لینے لے کر ہلدی آتے تھے
کئی دفعہ سامنے پڑی چیز نہ دکھائی پڑتی سارا گھر چھان مارتےانہی حرکتوں کی وجہ سے بڑی دھلائی ہوئی کئی موقعوں پر مگر اس مرض نے ہمارے جان نہیں چھوڑی ابھی پچھلے سال کا واقعہ ہے کہ شادی کے بعد ہمیں بیگم کا پاسپورٹ بنانا تھا جس کے لیے ہمارے شناختی کارڈ کی بھی ضرورت تھی….. بٹوے سے ایک گلی سڑی کاپی برآمد ہوئی جس کی بنیاد پر شٹام لیا تھانے گمشدگی کی رپٹ لکھوائی بڑی بھاگ دوڑ گی سردی کی ٹھنڈی رات میں عشاء کے بعد شہر سے گاؤں کے سنسان راستے پر ٹھٹھرتے ہوئے دیوانہ وار موٹر سائیکل دوڑائی خود کو جوکھم میں ڈالا جب واپسی پر لاہور ایئرپورٹ پر بیٹھا کسی ممنوعہ چیز کی برآمدگی سے بچنے کے لیے اپنے بٹوے کا معائنہ کر رہا تھا تو کارڈز والی جیب کی دیوار سے لگا گمشدہ ہونے والا اصلی شناختی کارڈ برآمد ہوا. جب یہ واقعہ نئی نویلی دلہن کو سنایا تو تو پیچاری نیک پروین دھل کر رہ گئی. آنکھوں میں ہزاروں اندیشے بھر کر
بولی ۔۔۔۔۔ رب دا واسطہ
“میرے نال اینج نا کریوں”
میری شکل کے برعکس میٹرک کی ڈگری پر اعتماد کرتے ہوئے مجھے کام پر رکھ لیا گیا جب پہلی دفعہ فیکٹری میں داخل ہوا تو ممبرین پلانٹ پر میرا تعارف سپروائزر اعزاز صاحب سے کروایا گیااعزاز صاحب دبلے سے درمیانے قد اور پتلی مونچھوں کے ساتھ ایک متوازن شخصیت کے مالک تھےپہلے تو ہمیں گھور کر ایلین نما آنکھوں سے دیکھا پھر سوال کیا نام کیا ہے!
عثمان
اچھا……( مزید غور سے جائزہ لیتے ہوئے )
برداری کونسی ہے…..؟
وینس…!( تھوک نگلتے ہوئے )
اعزاز صاحب نے زور سے قہقہہ لگایا….
یار وہ تو “جانگلی” ہوتے ہیں اپنی برادری کی بارے میں اتنا انتہا پسندانہ تبصرہ میں نے پہلی بار سنا تھا جس پر خاصی مایوسی ہوئی .
مگر آنے والے سالوں میں ان سے مراسم بہت اچھے رہے. بڑے ہنس مکھ آدمی تھے کام کے دوران ایک حادثے کی وجہ سے ان کی دائیں آنکھ ضائع ہوگی اس لیے ہر وقت کالے شیشوں والی عینک لگائے رکھتے تھے. مگر کچھ حاسدین نہ یہ اڑا رکھی تھی کہ اس آنکھ سے وہ خوبصورت لڑکوں کو بری نظر سے دیکھتے تھے اس لیے اللہ نے سزا دی ہے
( استغفراللہ )مجھے پلانٹ کا دورا کروایا گیا اور بتایا گیا کہ کل ڈیوٹی پر یہاں آنا ہےویسے تو ستارہ میں کافی سارے کیمیکل تیار ہوتے تھے مگر مین پروڈکٹ کاسٹک سوڈا تھا باقی دوسری تمام اشیاء مثلا ہاڈرو کلورک اور سلفیورک ایسڈ وغیرہ بائی پروڈکٹس تھیں میری ڈیوٹی دوسری منزل پر موجود کاسٹک کے مرکزی پلانٹ ممبرین پر لگی جہاں بڑے بڑے کاسٹک سوڈا بنانے والے سیل رنگ برنگے مختلف گیسوں کے ناموں والے پائپ پلانٹ کے نیچے مکینکل ورکشاپ تھی ایک طرف بینچ دو کرسیاں اور ایک بوسیدہ سی ٹیبل پر لاگ شیٹیں رکھی ہوئی تھیں بتایا گیا یہ پلانٹ آفس ہے میں ہونقوں کی طرح حیرت کے سمندر میں غوطے کھائے جا رہا تھاگاؤں کے ایک سادہ پینڈو لڑکے کے لیے جس کی ڈگری عمر کے لحاظ سے ابھی تک مشکوک ہو یہ سب کُچھ اول النظر ناقابل فہم اور انتہائی عجیب و غریب تھا ڈیوٹی کے اختتام پر بیگ اُٹھایا اور حبیب صاحب کے ہمراہ ہوسٹل کی طرف روانہ ہوا ہاسٹل اس وقت زیادہ بڑا نہیں ہوتا تھا U شکل کی ایک منزلہ عمارت تھی داخل ہوتے ہی داہنی طرف ہال نما لمبا سا کمرہ اور بائیں طرف ٹی وی ہال تھا جس کے بازو میں ہاسٹل کا کچن تھا درمیان میں سرسبز گھاس پر مشتمل لان اور بیڈ منٹن کورٹ تھا…..
دوسرے کمروں میں پہلے سے ورکرز رہائش پذیر تھے چنانچہ اپنا سامان اس ہال نما کمرے میں پہنچایا جس کے بارے میں بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ اس کمرے کو “جنرل وارڈ” بھی کہتے ہیں کُچھ دن بعد روم نمبر 6 میں جگہ خالی ہوئی تو میں وہاں منتقل ہو گیا فیکٹری میں کام کرنا اور ہوسٹل میں رہنا بڑے پر لطف تجربات تھے دونوں جگہ بہت اچھے دوست ملےاور بہت کُچھ سیکھنے کو ملا جیسے یہاں آ کر پتہ چلا کہ SHO کتنا وسیع المشرب مخفف ہے ہمارے نئے دوستوں میں رمضان عرف جانی کو سارے میس والے SHO پکارتے تھےاپنی حیرانی دور کرنے کیلئے جانی سے اس کا مطلب پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہاں اس کا مطلب “سینئر ہانڈی آپریٹر” ہے.
فیکٹری میں سارے پلانٹ اپریڑ کرنے کو تو اپرنٹس شب آئے تھے مگر فیکڑی والوں کے نزدیک باضابطہ ملازمین تھے سو تین سال میں مجال ہے ایک دفعہ بھی فیکٹری والوں نے کلاس لگانے کا تکلف کیا ہو مگر ماحول اور ساتھ کام کرنے والوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا سارے لوگ پڑھے لکھے تھے اور سیکھنے کے عمل میں بہت معاون ثابت ہوئے روانی سے اردو انگلش بولنا لمبی لمبی ریپوٹس لکھنا اور رات کی ڈیوٹی کے دوران تو اکثر شاہ جی کی بدولت کوئی نہ کوئی کتاب پڑھنے کو مل جاتی تھی. شاہ جی میرے روم میٹ تھے لیبارٹری اسسٹنٹ تھے مگر مطالعہ کے رسیا شاہکوٹ کی ایک پرائیوٹ لائبریری سے کتُب لے کر آتے ان کے توسط سے ہر وہ کتاب پڑھی جو انہوں نے پڑھی جن میں زیادہ تر ناول ہی ہوتے تھےہوسٹل رہ کر ہم نے گھر گرہستی والے سارے کام سیکھے جو اب تک بہت فائدہ مند ہیں ٹی وی روم میں سنوکر ٹیبل تھا جہاں فری سنوکر کھیل کھیل کر اتنے ماہر ہوگئے کہ ہوسٹل کے مھان کھلاڑیوں میں شمار ہونے لگا جس کا ایک نقصان یہ تھا کہ کوئی ہمارے ساتھ گیم ہی نہیں کھیلتا تھا یہاں بھی بے چارا جانی ہی کام آتا ٹی وی روم میں ایک دن بڑا غیر معمولی ہجوم دیکھا تب وہاں نئی نئی ڈش لگی تھی روس کا ایک جینل تھا جہاں فلم میں ایک لیڈی ڈاکڑ مریض پر ایک جادوئی صفوف چھڑکتی جس کے بعد مریض مضطرب ہو کر ڈاکٹر کی اشتہاء پوری کرنے لگ جاتا یہ سب دیکھ کر غیرت ایمانی نے جوش مارا مگر منع کرنے پر مشتعل ہجوم نے دھکے دے کر ٹی وی روم سے باہر نکال دیا گیا اگلے دن کسی مومن نے پرسائنل آفس میں شکایت کر دی انتظامیہ ریسیور اُٹھا کر لے گئی اور ہم جب تک ہوسٹل میں رہے لیڈی ڈاکڑ کے عاشقوں کی ملامت کا شکار رہے…..
کرکٹ کے سالانہ ٹورنامنٹ میں بھی حصہ لیا ایک میچ میں کیپر کی غیر موجودگی کی وجہ سے ذمہ داری ملی ایسی کارکردگی دکھائی کہ اگر اکمل برادران وہ میچ دیکھ لیتے تو جل کر بھسم ہو جاتے مجال ہے ایک بھی کیچ پکڑا ہو الٹا گیند پکڑنے کے چکر میں وکٹ کے پیچھے “سنگسار” ہوتے رہے اس کے بعد اگلے سال جب کرکٹ ٹیم کیلئے اپنی خدمات پیش کی تو یہ کہہ کر منع کر دیا کہ آپ کرکٹ کی جان چھوڑیں
” گِیلی ڈنڈا کھیلا کریں “
باقی ان شااللہ اگلی نشست میں
 

اکمل زیدی

محفلین
۔ خیال سا گزرا تھا کے اگر منشی پرم چند یہاں جوائن کرتے اور وہ اپنا تعارف لکھتے تو کیسا ہوتا ....آپ نے میرے اسے خیال کو تاویل دے دی :)....خوش آمدید
 
آخری تدوین:
۔ خیال سا گزرا تھا کے اگر منشی پرم چند یہاں جوائن کرتے اور وہ اپنا تعارف لکھتے تو کیسا ہوتا ....آپ نے میرے اسے خیال کو تاویل دے دی :)....خوش آمدید
ہاہاہاہاہا
زیدی صاحب آپ کو ببڑی دور کی سوجھی ورنہ ہمیں منشی پریم چند سے کیا نسبت
تعارف پسند فرمانے پر تشکر
سلامت رہیں
 
Top