عمران خان
محفلین
عجب کچھ واہموں میں گِھر گئے ہیں
بہت سے دُشمنوں میں گِھر گئے ہیں
تلاشِ ذات بھی باقی نہیں ہے!!
انا کے بُت کدوں میں گِھر گئے ہیں
سیاست دُور تک پھیلی ہوئی ہے
گھروں کی سازشوں میں گِھر گئے ہیں
سفینے آ ملے ساحل سے لیکن!!
ہوا کے راستوں میں گِھر گئے ہیں
خِرد کی منزلیں طے کر چکے جب
جُنوں کے مرحلوں میں گِھر گئے ہیں
بہت مختار ہو کے ہم نے دیکھا!!
بہت مجبُوریوں میں گِھر گئے ہیں
نہیں کہہ سکتے ہم دُشمن بھی جن کو
کچھ ایسے دوستوں میں گِھر گئے ہیں