عجب ہے وجد کا عالم دمِ دیدار، اللہ ہو! - قمر نقوی نقشبندی

کاشفی

محفلین
غزل
( قمر نقوی نقشبندی)

عجب ہے وجد کا عالم دمِ دیدار، اللہ ہو!
مگر یہ خوش نصیبی، میں‌ہوں پیشِ یار، اللہ ہو!

ابھی راز اُن کا کھلنے کی تو منزل ہی نہیں آئی
کہ میں‌ خود ہوں ابھی منجملہء اسرار، اللہ ہو!

گلستاں کے مناظر رفتہ رفتہ مرتے جاتے ہیں
کوئی تو نقشِ تازہ، یا اولی الابصار، اللہ ہو!

کوئی دیکھے جِلو میں لے کے اک انبوہِ جانبازاں
بہ وضع رقص جاتا ہوں میں سوئے دار، اللہ ہو!

اُدھر وہ مسند آرائے محبت بےنیازانہ
اِدھر میں سوختہ ساماں سربازار، اللہ ہو!

مری وارفتگی کا ہے اک عالم ہی جداگانہ
نہ اب تسبیح باقی ہے، نہ اب زُنّار، اللہ ہو!
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ! بہت عمدہ غزل ہے کاشفی صاحب۔ میں نے تو آج ہی یہ غزل دیکھی۔ اگر قیصرانی صاحب اس پر تبصرہ نہ کرتے تو میں شاید اس غزل سے محروم ہی رہتا۔
 
Top