یاسر شاہ
محفلین
غزل
عجیب طرح کا اک پیچ گفتگو میں ہے
وگرنہ "میں" میں وہی بات ہے جو "تو" میں ہے
ہے کائنات کا ہر ایک ذرہ گردش میں
پتہ جو مل نہ سکا تیری جستجو میں ہے
خطابِ غیر میں گو لاکھ احترام رہے
مگر وہ لطف کہاں ہے جو لفظ تو میں ہے
دہن میں تیغ کے اب بھی ہے تشنگی باقی
عجیب لذّتِ پنہاں مر ے لہو میں ہے
نگاہِ لطف ادھر ہو کہ آ چلا ہے کیف
بچا نہ رکھ مرے ساقی جو کچھ سبو میں ہے
ہزار بار مجھے لے گیا ہے مقتل میں
وہ ایک قطرۂ خوں جو رگ گلو میں ہے
قفس میں نالہ نہ کر مرغ ! صحنِ باغ سے دور
کہ لطف شکوۂ یارانہ رو برو میں ہے
سید سلیمان ندوی
از ارمغان سلیمان
عجیب طرح کا اک پیچ گفتگو میں ہے
وگرنہ "میں" میں وہی بات ہے جو "تو" میں ہے
ہے کائنات کا ہر ایک ذرہ گردش میں
پتہ جو مل نہ سکا تیری جستجو میں ہے
خطابِ غیر میں گو لاکھ احترام رہے
مگر وہ لطف کہاں ہے جو لفظ تو میں ہے
دہن میں تیغ کے اب بھی ہے تشنگی باقی
عجیب لذّتِ پنہاں مر ے لہو میں ہے
نگاہِ لطف ادھر ہو کہ آ چلا ہے کیف
بچا نہ رکھ مرے ساقی جو کچھ سبو میں ہے
ہزار بار مجھے لے گیا ہے مقتل میں
وہ ایک قطرۂ خوں جو رگ گلو میں ہے
قفس میں نالہ نہ کر مرغ ! صحنِ باغ سے دور
کہ لطف شکوۂ یارانہ رو برو میں ہے
سید سلیمان ندوی
از ارمغان سلیمان