فرحت کیانی
لائبریرین
عجیب لوگ ہیں
ہم اہلِ اعتبار کتنے بد نصیب لوگ ہیں۔
جو رات جاگنے کی تھی وہ ساری رات
خواب دیکھ دیکھ کر گزارتے رہے۔
جو نام بھولنے کا تھا
اس ایک نام کو گلی گلی پکارتے رہے۔
جو کھیل جیتنے کا تھا اس کو ہارتے رہے۔
عجیب لوگ ہیں
ہم اہلِ اعتبار کتنے بد نصیب لوگ ہیں۔
کسی سے بھی قرضِ آبرو ادا نہ ہوا
لہو لہان ساعتوں کا فیصلہ نہ ہوا۔
برس گزر گئے کوئی معجزہ نہ ہوا۔
وہ جل بجھا کہ آگ جس کے شعلہء نفس میں تھی۔
وہ تیر کھا گیا،کمان جس کے دسترس میں تھی۔
سپاہ ِ سر کو فصیلِ شب کا انتظار ہے۔
کب آئے گا وہ شخص جس کا سب کو انتظار ہے۔
ہم اہلِ نظر کتنے بدنصیب لوگ ہیں۔
عجیب لوگ ہیں ۔
ہم اہلِ اعتبار کتنے بد نصیب لوگ ہیں۔
۔۔افتخار عارف
ہم اہلِ اعتبار کتنے بد نصیب لوگ ہیں۔
جو رات جاگنے کی تھی وہ ساری رات
خواب دیکھ دیکھ کر گزارتے رہے۔
جو نام بھولنے کا تھا
اس ایک نام کو گلی گلی پکارتے رہے۔
جو کھیل جیتنے کا تھا اس کو ہارتے رہے۔
عجیب لوگ ہیں
ہم اہلِ اعتبار کتنے بد نصیب لوگ ہیں۔
کسی سے بھی قرضِ آبرو ادا نہ ہوا
لہو لہان ساعتوں کا فیصلہ نہ ہوا۔
برس گزر گئے کوئی معجزہ نہ ہوا۔
وہ جل بجھا کہ آگ جس کے شعلہء نفس میں تھی۔
وہ تیر کھا گیا،کمان جس کے دسترس میں تھی۔
سپاہ ِ سر کو فصیلِ شب کا انتظار ہے۔
کب آئے گا وہ شخص جس کا سب کو انتظار ہے۔
ہم اہلِ نظر کتنے بدنصیب لوگ ہیں۔
عجیب لوگ ہیں ۔
ہم اہلِ اعتبار کتنے بد نصیب لوگ ہیں۔
۔۔افتخار عارف