مطیع الرحمٰن
محفلین
زندگی کا بیشتر حصہ لوکل بس میں ہی سفر کرکرکے گذرا ہے اور اس پر کسی قسم کا کمپلیکس نہیں ہے، عجیب عجیب صورتحال سے واسطہ پڑتا رہتا ہے، کبھی کنڈیکٹر کا جھگڑا تو کبھی عوام الناس کی دھینگا مشتی تو کبھی گھٹیا گانوں کا شور۔
مگر کبھی کوئی ایسا واقعہ ہوجاتا ہے کہ بھلائے نہیں بھولتا اور عقل سے محو ہی نہیں ہوتا۔
ابھی کچھ ہی دنوں پہلے کی بات ہے کہ ہماری ایک کراچی یونیورسٹی کی بہن ایک ظالم ٹرک کا نشانہ بن گئی اور میں اب تک یہ بھلا نہیں پارہا جب بھی یونیورسٹی کے سامنے سے گذرتا ہوں تو عجیب احساس ہوتا ہے۔
کل کا واقعہ سنئے جس میں دکھ اور سکھ کا پہلو یکساں موجود ہے۔
دوپہرساڑھے تین بجے کے قریب میں اپنے آفس جانے کے لئے G3 بس میں سوار ہوا اور سب سے آخری سیٹ پر براجمان ہوا زندگی کی افرا تفری کا مشاہدہ کرنے لگا ، جیسے ہی بس این ای ڈی یونیورسٹی کے سامنے پہنچی ، میری ایک پردے دار ، باحیا اور باغیرت بہن جو شاید یونیورسٹی کی طالبہ ہی تھی، پھرتی سے مردوں کے کمپارٹ مینٹ میں داخل ہوئی اور اپنا جوتا اتارا اور اپنی سیٹ کے بالکل پیچھے والی سیٹ پر بیٹھے پینٹ شرٹ میں ملبوس لڑکےکے منہ پر ذور دار جوتا مارا ، وہ بہن پھر ٹھہری اور پھر ایک جوتا مارا، اس لڑکے کا منہ سرخ ہوگیا ، ہم سب ہکہ بکہ رہ گئے اور میری وہ باعفت بہن کسی مضبوط مرد کی مانند چنگھاڑ کر اس سے مخاطب ہوئی اور زور سے چلائی کہ : اتر جا ابھی اتر جا ورنہ اور ماروں گی۔
اللہ کی قسم اس ایمان کی پیکر کا یہ حکم ہوا اور وہ لڑکا کود کر بس سے اترگیا۔ میری منزل بھی آگئی اور میں بھی اس لڑکے کے پیچھے پیچھے نیچے آگیا۔مگر دل ہی دل میں اس بہن کو سلام پیش کرتا رہا کہ آج کے اس پرفتن اور بے حیائی کے دور میں بھی میری ایسی مائیں بہنیں زندہ ہیں جواپنی عفت پر کسی ہوس پرست کو ڈاکہ نہیں ڈالنے دیتیں۔میرا دل اس خوشی سے سرشار ہوگیا۔
دوسرے ہی لمحے اس قبیح الفطرت انسان کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا جس نے مجھے شرمندہ کردیا کہ میں بھی تو ایک مرد ہی ہوں نا؟؟؟ میں اس بہن کے دفاع میں کچھ نہیں کرسکا اور اسی طرح سب لوگ حیران اور خاموش تھے۔اس چیز نے واللہ العظیم میرے جسم پر کپکپی طاری کردی کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ کیسی تربیت کررہے ہیں اپنے بہن بھائیوں کی؟؟؟
یہ واقعہ آج دو دن ہونے کے باوجود مجھے ستائے جارہاہے ۔ خدارا اس امت کے لئے دعا کریں ۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کی اصلاح کریں تاکہ روزِ محشر رب العزت سے یہ عرض کردیں کہ الٰہ العالمین میں نے اپنے حصے کا کام کردیا تھا۔
وباللہ التوفیق
مگر کبھی کوئی ایسا واقعہ ہوجاتا ہے کہ بھلائے نہیں بھولتا اور عقل سے محو ہی نہیں ہوتا۔
ابھی کچھ ہی دنوں پہلے کی بات ہے کہ ہماری ایک کراچی یونیورسٹی کی بہن ایک ظالم ٹرک کا نشانہ بن گئی اور میں اب تک یہ بھلا نہیں پارہا جب بھی یونیورسٹی کے سامنے سے گذرتا ہوں تو عجیب احساس ہوتا ہے۔
کل کا واقعہ سنئے جس میں دکھ اور سکھ کا پہلو یکساں موجود ہے۔
دوپہرساڑھے تین بجے کے قریب میں اپنے آفس جانے کے لئے G3 بس میں سوار ہوا اور سب سے آخری سیٹ پر براجمان ہوا زندگی کی افرا تفری کا مشاہدہ کرنے لگا ، جیسے ہی بس این ای ڈی یونیورسٹی کے سامنے پہنچی ، میری ایک پردے دار ، باحیا اور باغیرت بہن جو شاید یونیورسٹی کی طالبہ ہی تھی، پھرتی سے مردوں کے کمپارٹ مینٹ میں داخل ہوئی اور اپنا جوتا اتارا اور اپنی سیٹ کے بالکل پیچھے والی سیٹ پر بیٹھے پینٹ شرٹ میں ملبوس لڑکےکے منہ پر ذور دار جوتا مارا ، وہ بہن پھر ٹھہری اور پھر ایک جوتا مارا، اس لڑکے کا منہ سرخ ہوگیا ، ہم سب ہکہ بکہ رہ گئے اور میری وہ باعفت بہن کسی مضبوط مرد کی مانند چنگھاڑ کر اس سے مخاطب ہوئی اور زور سے چلائی کہ : اتر جا ابھی اتر جا ورنہ اور ماروں گی۔
اللہ کی قسم اس ایمان کی پیکر کا یہ حکم ہوا اور وہ لڑکا کود کر بس سے اترگیا۔ میری منزل بھی آگئی اور میں بھی اس لڑکے کے پیچھے پیچھے نیچے آگیا۔مگر دل ہی دل میں اس بہن کو سلام پیش کرتا رہا کہ آج کے اس پرفتن اور بے حیائی کے دور میں بھی میری ایسی مائیں بہنیں زندہ ہیں جواپنی عفت پر کسی ہوس پرست کو ڈاکہ نہیں ڈالنے دیتیں۔میرا دل اس خوشی سے سرشار ہوگیا۔
دوسرے ہی لمحے اس قبیح الفطرت انسان کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا جس نے مجھے شرمندہ کردیا کہ میں بھی تو ایک مرد ہی ہوں نا؟؟؟ میں اس بہن کے دفاع میں کچھ نہیں کرسکا اور اسی طرح سب لوگ حیران اور خاموش تھے۔اس چیز نے واللہ العظیم میرے جسم پر کپکپی طاری کردی کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ کیسی تربیت کررہے ہیں اپنے بہن بھائیوں کی؟؟؟
یہ واقعہ آج دو دن ہونے کے باوجود مجھے ستائے جارہاہے ۔ خدارا اس امت کے لئے دعا کریں ۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کی اصلاح کریں تاکہ روزِ محشر رب العزت سے یہ عرض کردیں کہ الٰہ العالمین میں نے اپنے حصے کا کام کردیا تھا۔
وباللہ التوفیق