انیس الرحمن
محفلین
عجیب و غریب ریاست
اعجاز احمد میمن
میرا نام رڈولف ہے۔ میں "اسکندریہ" نامی ایک جہاز راں کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ بحری سفر کے دوران میرے ساتھ کئی حیرت انگیز، دلچسپ اور خوفناک واقعات پیش آئے۔ ان میں سے ایک واقعہ پیش کر رہا ہوں۔اعجاز احمد میمن
ہمارا جہاز اسکندریہ-٦٨٠، ٢٤ دسمبر کو "فیڈریہ" نامی بندرگاہ سے مال لے کر "کوسٹریہ" کے لیے روانہ ہوا۔ یہ ٢٨ دن کا سفر تھا۔ چوتھے دن کا ذکر ہے۔ شام کا وقت تھا۔ میں جہاز کی اوپری منزل پر کھڑا غروب ِآفتاب کے منظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اچانک ایمرجنسی گھنٹی کی زوردار آواز گونج اٹھی۔ میں بھی دوسرے ساتھیوں کی طرح کپتان کے کیبن کی طرف لپکا۔ وہاں معلوم ہوا کہ آدھے گھنٹے بعد ایک بہت خوفناک طوفان آنے والا ہے۔ ہم سب طوفان سے بچاؤ کی تدبیریں کرنے میں مصروف ہو گئے، لیکن طوفان نے ہمیں اس کی مہلت نہیں دی۔ ہمارا جہاز ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ سب کچھ بہہ گیا۔ سب اپنی اپنی جانیں بچانے میں مصروف تھے۔ میں بھی ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا۔ پھر کیا ہوا مجھے یاد نہیں۔
جب میری آنکھ کھلی تو ایسا محسوس ہوا کہ میرے جسم کا انگ انگ ٹوٹ رہا ہے۔ میں نے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ میں لکڑی کے ایک کمرے میں تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میں ایک بطخوں کے ڈربے میں ہوں۔ اچانک کمرے کا دروازہ خلا۔ ایک بڑی سی بطخ اندر داخل ہوئی۔ میں نے کبھی اتنی بڑی بطخ نہیں دیکھی تھی۔ وہ تقریباً چار ساڑھے چار فٹ لمبی تھی۔ میں اسے دیکھ کر سہم سا گیا۔ بطخ نے میری طرف دیکھ کر کہا، "ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ تم اس وقت ریاستِ بطخیہ میں ہو۔ میرا نام سڈرا ہے۔ تمہارا نام کیا ہے؟"
"رڈ۔۔۔۔۔ رڈولف" میں نے ڈرتے ہوئے کہا۔
"اچھا! کچھ دیر میں بادشاہ کے سپاہی آنے والے ہیں۔ وہ تمہیں بادشاہ کے پاس لے جائیں گے۔" سڈرا نے کہا۔
سس۔۔۔۔۔ سس۔۔۔۔۔ سپاہی! ک۔۔۔۔۔ کیوں؟ میں نے تو کچھ۔۔۔۔۔ بھی نہیں کیا۔" میں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
سڈرا نے کہا، "اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری کچھ مدد کروں تو تم مجھے سب کچھ سچ سچ بتا دو۔ تم کون ہو اور یہاں کیوں آئے ہو؟ تم سے پہلے بھی یہاں تمھارے جیسے انسان آئے تھے۔ وہ ہمیں قید کر کے لے جانا چاہتے تھے، لیکن ہماری فوج نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کیا تم بھی اسی مقصد کے لیے آئے ہو؟"
"جی نہیں! میں تو یہاں لایا گیا ہوں۔" میں نے جواب دیا۔
"وہ تو ٹھیک ہے۔ میں تمہیں خود کنارے سے اٹھا کر لائی ہوں، لیکن تم ہماری ریاست میں کیوں داخل ہوئے؟" سڈرا نے پوچھا۔
پھر میں نے اس کو اپنی پوری کہانی سچ سچ بتا دی۔
"ہوں میں تو تمہاری بات کا یقین کر لیتی ہوں، لیکن بادشاہ سلامت کو یقین دلانا بہت مشکل ہے۔ میں تمہیں اپنی مدد کا یقین۔۔۔۔۔"
ابھی سڈرا نے اپنا جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ سڈرا نے دروازہ کھولا۔ دروازے پر نیزوں اور ڈھالوں سے لیس چار سپاہی کھڑے تھے۔ ان کے ہتھیار دیکھ کر مجھے اپنا پستول یاد آ گیا، جو ہر وقت میرے پاس رہتا تھا۔ میں نے فوراً اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔ قمیض کے اندر پیٹی موجود تھی۔ اس کی موجودگی سے میں کچھ مطمئن ہو گیا۔ میں سپاہیوں اور سڈرا کے ساتھ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے سینکڑوں سوالات کیے۔ میں نے سب کے جوابات سچ سچ دیے۔ سڈرا نے میری بہت حمایت کی۔
آخر بادشاہ نے کہا، "ہمیں کیسے یقین آئے کہ تم ان انسانوں میں سے نہیں ہو اور آزاد ہونے کے بعد تم اپنی فوج کے ساتھ ہم پر حملہ نہیں کرو گے؟"
اس پر سڈرا نے کہا، "بادشاہ سلامت! میں ایک تجویز پیش کرتی ہوں، اگر آپ کو پسند آ جائے۔ تجویز یہ ہے کہ اس شخص کو ہم ایک دو مہینے اپنے پاس رکھتے ہیں اور اس سے کوئی کام لیتے ہیں۔ اگر آپ اس سے مطمئن ہو جائیں تو اسے آزاد کر دیا جائے۔"
دربار میں موجود تمام بطخوں نے اس کی تائید کی۔ بادشاہ کو بھی یہ تجویز پسند آئی۔ بادشاہ نے کہا، "اے شخص! تمہیں ہمارے محل میں مالی کا کام کرنا ہوگا۔ اگر تم ہمارا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو تمہیں باعزت بری کر دیا جائے گا اور اگر تم نے کوئی غلط قسم کی حرکت کی اور فرار ہونے کی کوشش کی تو تمہیں سزائے موت دے دی جائے گی۔"
میں نے سر جھکا کر اقرار کیا کہ میں کوئی گڑبڑ نہیں کروں گا۔ میرےذمّے ایک بہت بڑا شاہی باغ تھا۔ اس باغ کے ایک کونے میں میرے رہنے کے لیے لکڑی کی بنی ہوئی ایک کوٹھری تھی۔ میں نے اپنے پلنگ کے نیچے اپنا پستول چھپا کر رکھ دیا۔ مجھے باغ سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی، لیکن سڈرا روز مجھ سے ملنے آتی تھی۔
مجھے اپنا کام کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی، کیوں کہ مجھے بچپن ہی سے باغبانی کا شوق تھا۔ میں نے تھوڑے ہی عرصے میں باغ کو ہرا بھرا اور بہت خوبصورت بنا دیا۔ بادشاہ اور اس کے رشتے دار سب مجھ سے خوش تھے۔ میں روز پھولوں کا خوبصورت گلدستہ بنا کر ملکہ کو بھیجتا تھا۔ اس طرح میں بادشاہ کو کسی حد تک اعتماد میں لینے میں کامیاب ہو گیا۔
ایک دن کا ذکر ہے۔ صبح کا وقت تھا۔ میں اپنے کام میں مشغول تھا کہ ہر طرف سے شور و غل، چیخنے چلّانے اور دوڑنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ میں نے دوڑتی ہوئی ایک بطخ سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو اس نے مجھے بتایا، "مینڈکوں نے ریاست پر حملہ کر دیا ہے۔ ان کی فوج ہماری فوج سے کہیں زیادہ ہے۔"
میرے ذہن میں فوراً پستول کا خیال آیا۔ میں جلدی سے اپنے کمرے میں گیا اور پستول اٹھا کر باہر کی طرف دوڑا۔ باہر میری ملاقات بادشاہ سے ہو گئی۔ وہ بھی بہت پریشان تھا۔ میں نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے فوراً میدانِ جنگ کی طرف بھیج دے۔ بادشاہ نے دو سپاہیوں کے ساتھ مجھے میدانِ جنگ کی طرف روانہ کر دیا۔
پہلے تو اتنے بڑے مینڈکوں کو دیکھ کر میں بھی خوف زدہ ہو گیا، لیکن پھر میں نے ایک سپاہی سے ڈھال لی، پستول ہاتھ میں پکڑا اور مینڈکوں کے سامنے جا پہنچا۔ مینڈک بھی مجھے دیکھ کر ڈر گئے۔ پھر وہ پیچھے ہٹ کر میرے اوپر نیزے پھینکنے لگے۔ میں نے ڈھال کی مدد سے اپنے آپ کو نیزوں سے بچایا اور پھر ہوائی فائر کر دیا۔ فائر کی آواز ان لوگوں کے لیے بالکل نئی تھی۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے۔ پھر میں نے دو فائر کر کے دو مینڈکوں کو مار ڈالا۔ یہ سب دیکھ کر مینڈک بہت خوفزدہ ہوئے اور واپس بھاگ نکلے۔ اسی بھاگ دوڑ میں کئی مینڈک کچلے گئے۔ کئی سمندر میں ڈوب گئے اور کئی گرفتار ہو گئے۔ اس طرح بطخوں کو کامیابی ہوئی۔ اب اس پستول کی وجہ سے بادشاہ بھی مجھ سے ڈر رہا تھا، لیکن میں نے اسے سمجھایا کہ میں ان کا دوست ہوں۔ بادشاہ نے میرا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور اپنے رویّے کی معافی مانگی اور میری آزادی کا بھی اعلان کر دیا۔ بادشاہ نے مجھے چند دن شاہی مہمان بن کر رہنے کی دعوت دی۔ میں چند روز شاہی محل میں رہا۔ پھر میں نے بادشاہ سے ایک کشتی مانگی جس کے ذریعے سے میں اپنے وطن واپس پہنچ سکتا تھا۔ انہوں نے کبھی کشتی نہیں بنائی تھی۔ لہذا وہ کشتی مجھے خود ہی بنانی پڑی۔ جب کشتی بن کر تیار ہو گئی تو میں نے جانے کی اجازت چاہی۔ اس رات بادشاہ نے میرے اعزاز میں ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا۔ صبح مجھے رخصت کرنے کے لیے بہت ساری بطخیں کنارے پر موجود تھیں۔ ان میں بادشاہ، اس کے ساتھی اور سڈرا شامل تھی۔ ان سب نے مجھے پھولوں کے گلدستے پیش کیے۔ میں نے جانے سے پہلے بادشاہ کو اپنا پستول تحفے میں دے دیا۔ اسے پا کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔
مجھے وہاں سے چلے ہوئے چار روز گزر چکے تھے اور میں کسی منزل تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ بطخوں نے میری کشتی میں کھانے پینے کا کافی سامان بھر دیا تھا۔ سورج ڈھلنے والا تھا۔ مجھے اندھیرے میں دور ایک ٹمٹماتی ہوئی روشنی نظر آئی۔ میں جلدی جلدی کشتی کھیتا ہوا روشنی کی طرف بڑھا۔ قریب جا کر دیکھا تو وہ ایک چھوٹا مکان تھا۔ میں نے کشتی کو کنارے سے لگایا اور اتر کر مکان کا دروازہ کھٹکھٹانے ہی والا تھا کہ ایک خوفناک بڑھیا نے خود ہی دروازہ کھولا اور بولی، "آؤ بیٹا آؤ۔۔۔۔۔ راستہ بھول گئے ہو نا؟"
میں بڑھیا کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا۔
"یہ مکان میں نے تم جیسے لوگوں کے لیے بنایا ہے جو اپنا راستہ بھول جاتے ہیں۔ آؤ اندر آؤ۔" بڑھیا نے کہا۔
"جی ہاں! مجھے رات بسر کرنے کی اجازت دے دیں، صبح ہوتے ہی چلا جاؤں گا۔"
پھر میں اندر داخل ہو گیا۔ بڑھیا نے مجھ سے کھانے کو پوچھا اور پھر مجھے ایک کمرے میں لے گئی۔ وہاں اس نے مجھ سے کہا، "تم اس کمرے میں سوجاؤ، صبح میں تمہیں راستہ بتا دوں گی۔ تم چلے جانا۔"
یہ کہہ کر بڑھیا کمرے سے باہر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد میں نے کمرے کا جائزہ لیا۔ ایک پرانا پلنگ تھا۔ ایک میز تھی جس پر لالٹین، پھل اور ایک بڑا چھرا پڑے ہوئے تھے۔ مجھے نہ جانے کیوں بڑھیا پراسرار لگ رہی تھی۔ مجھے کمرے میں خون کی بو بھی محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے میز سے چھرا اٹھایا اور اپنے سرہانے رکھ کر لیٹ گیا۔ مجھے ڈر کے مارے نیند بھی نہیں آ رہی تھی۔ تقریباً آدھی رات کے وقت کمرے کا دروازہ کھلا۔ میں خاموشی سے لیٹا رہا اور دیکھتا رہا۔ بڑھیا کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ میرے سرہانے تک آئی۔ میں پہلے ہی چھرا اپنے ہاتھ میں تھام چکا تھا۔ میں ادھ کھلی آنکھوں سے بڑھیا کو دیکھا۔ وہ بڑے خوفناک انداز میں مسکرا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔ اس کے ناخن بہت بڑے بڑے تھے۔ اس نے اپنے ناخنوں سے میری گردن دبانی چاہی۔ جیسے ہی وہ میرے اوپر جھکی میں نے پھرتی سے چھرے سے اس کی گردن پر وار کر دیا۔ اس کی گردن کٹ کر دور جا گری۔ یکایک بڑھیا کا جسم دھویں میں تبدیل و کر غائب ہو گیا۔ میں یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہو گیا۔ صبح ہونے میں ابھی کافی دیر تھی۔ میں نے سوچا کہ اس مکان کا جائزہ لوں۔ میز پر لالٹین اٹھا کر میں کمرے سے نکلا اور اندر والے کمرے میں داخل ہو گیا۔ یہاں انسانی کھوپڑیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ میں نے کمرے کی ایک ایک چیز کو اچھی طرح دیکھا اور پھر کمرے سے باہر نکلا۔ برآمدے میں ایک اور دروازہ تھا۔ میں نے اسے کھولا تو معلوم ہوا کہ یہ راستہ تہہ خانے کی طرف جاتا ہے۔ میں نیچے پہنچا۔ ایک کونے میں ایک بہت بڑا صندوق پڑا ہوا تھا۔ میں نے قریب جا کر اسے کھولا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ پورا صندوق سونے کے سکّوں سے بھرا ہوا تھا۔
میں نے ایک بہت بڑی تھیلی سکّوں سے بھری اور اوپر آ گیا۔ اب صبح ہونے والی تھی۔ سورج کی ہلکی ہلکی روشنی چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ میں نے سکّوں بھرا تھیلا اٹھایا اور کشتی میں سوار ہو گیا۔ تھوڑی دور جا کر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سارا مکان دھویں میں تبدیل ہو رہا تھا۔ میں نے جلدی سے سکّوں بھری تھیلی کو کھولا۔ تھیلی کھولتے ہی سکّے بھی دھواں بننے لگے۔ میں نے فوراً تھیلی کا منہ بند کر دیا۔ اب اس میں تھوڑے سے سکّے باقی تھے۔ میں نے اسے اچھی طرح باندھ کر ایک کونے میں رکھ دیا اور کشتی کھینے لگا۔ دوپہر کا وقت تھا کہ اچانک میری نظر دور سے آتے ہوئے ایک جہاز پر پڑی۔ میں خوشی سے پاگل ہو گیا اور زور زور سے ہاتھ ہلانے لگا۔ جہاز والوں نے مجھے دیکھ لیا۔ وہ میری طرف آنے لگے۔ قریب پہنچ کر میں یہ دیکھ کر اور بھی خوش ہوا کہ یہ "اسکندریہ" کمپنی کا جہاز تھا۔ جہاز پر سوار میرے کئی دوست مجھے دیکھ کر حیران ہو گئے۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے جہاز کے حادثے میں تمام لوگ مارے گئے تھے اور وہ سب میری موت کا بھی یقین کر چکے تھے۔ میں نے انہیں اپنا پورا قصّہ سنایا، لیکن انہیں یقین نہیں آ رہا تھا۔ پھر میں نے انہیں ثبوت کے طور پر بچے ہوئے سکّے دکھائے تو انہیں یقین آیا۔
دو دن بعد ہم فیڈریہ پہنچے۔ مجھے معلوم ہوا کہ میں پورے ایک مہینے تک غائب رہا۔ اس واقعے کی وجہ سے مجھے کافی شہرت و ترقّی ملی اور ان سکّوں کی مدد سے میری مالی حالت بہتر ہو گئی۔
٭٭٭