راشد احمد
محفلین
ایک مرتبہ نواز شریف سنگاپور کے دورہ پر گئے۔ وہاں ان کی ملاقات سنگاپور کے سابق وزیر اعظم لی کوآن سے ہوئی۔ جب ملائیشیا نے سنگاپور کو ایک بیکار ٹکڑا سمجھ کر اپنے سے علیحدہ کردیا تو لی کوآن نے سنگاپور کو ترقی دینے کی ٹھان لی۔ اس نے مجرموں کے لئے سخت سزائیںنافذ کیں۔ سرکاری ملازموں اور افسران کی تنخواہیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے برابر کردیں۔ مختصرا سنگاپور کی ترقی میں لی کوآن کا بہت بڑا ہاتھ رہا۔ اس نے وہ تیس سال وزارت اعظمی پر فائز رہا۔ بعد میں اس نے ریٹائرمنٹ لے لی اور سینئیر وزیر کی وزارت سنبھال لی۔ اس کا یہ وزارت سنبھالنے کا مقصدیہ تھا کہ وہ نئے وزرا کو ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کی تربیت دے سکے۔ نواز شریف نے لی کوآن سے پوچھا کہ کیا ہمارا ملک ترقی کرسکتا ہے۔ تو لی کوآن نے کہا کہ نہیں۔ اس کی اس نے نواز شریف کو تین وجوہات بتائیں۔
1۔ آپ کے مذہب میں دنیا کو عارضی سمجھاجاتا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ آج ہم ہیں کل نہیں تو کیا ضرورت ہے سڑکیں، پارک، سکول، ہسپتال وغیرہ بنانے کی جبکہ میرے خیال میں ہمیں یہ سب کچھ کرنا چاہئے تاکہ ہم نہیںتو آنے والی نسلیں اس سے مستفید ہوں۔
2۔ آپ کے ملک میں زیادہ تر فوجی نظام رہتا ہے۔ فوجی نظام ملکی ترقی کے لئے زہر قاتل ہے۔ ایک فوجی کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ مرجاو یا ماردو جبکہ ایک سیاستدان کی سوچ مصالحت ہوتی ہے۔
3۔ تیسرا یہ کہ آپ اپنی آنے والی نسل کو ورثے میں مسائل دیتے ہو۔ میں جب برصغیر میں وکالت کرتا تھا تو میں ایک مسلمان میرے پاس مقدمہ لیکر آتا تھا تو میں مقدمہ دیکھ کر کہتا تھا کہ آپ کے مقدمے میں جان نہیں ہے تو وہ کہتا تھا کہ آپ مقدمہ کو لٹکا دو۔ ہم پیسہ پانی کی طرح بہا دیں گے بلکہ ہمارے آنے والی نسلیں بھی اس مقدمہ کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔
اگر لی کوآن کی ان باتوں پر غور کیا جائے تو واقعی اس کی باتیں درست ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سے مقدمے ایسے ہیں جن کا سامنا آنے والی نسلیں کرتی ہیں۔ جن میں زمین کا مقدمہ وغیرہ۔ اسی طرح قتل اوردیگر جرائم کے مقدموں کا یہی حال ہے جو سالہا سال لٹکے رہتے ہیں دونوں فریقین پیشیاں بھگتتے رہتے ہیں۔
میرے ایک محترم دوست اسلم چوہدری صاحب جو وکالت کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ایک بار میں اس کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اس کابیوی کے ساتھ کوئی جھگڑا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اس کی بیوی خلع کا مطالبہ کررہی ہے میں اسے خلع ضرور دوں گا لیکن پہلے ان کو سبق سکھا لوں ۔اسلم چوہدری نے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں تو اس نے کہا کہ آپ اس مقدمے کو ایسا کردیں کہ وہ پیشیاں بھگتتے رہیں اور آخر تھک ہار کر میرے قدموں میں گر جائیں اور معافی مانگ لیں۔ اسلم چوہدری نے کہا کہ آپ ایسا نہ کریں آپ کے دو بچے ہیں ان کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ تو وہ کہنے لگا کہ ہونے دو۔ بس آپ مقدمہ لڑنے کے لئے ہاں کریں آپ کی جو فیس ہے میں دے دوں گا۔ تو اسلم چوہدری نےمعذرت خواہانہ رویہ اختیار کر لیا۔ تو وہ کہنے لگا کہ آپ نہیں لڑیں گے تو کوئی اور لڑلے گا یہاں وکیلوں کی کونسا کمی ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
اس کے بعد اسلم چوہدری سے مختلف مسائل پر بات ہونے لگی۔ تو اس نے ایک واقعہ سنایا کہ کچھ دن پہلے ایک قتل کے ملزم کو سات سال بعد انصاف ملا ہے اور وہ قتل کے مقدمے سے بری ہوگیا ہے۔ اس نے وضاحت کی کہ اس شخص کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا تھا۔ اس کے مخالفین نے اس کو سزا دلوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور روپیہ پانی کی طرح بہا دیا لیکن دوسری طرف ملزم کے ورثا نے بھی اسے بچانے کے لئے یہی کچھ کیا۔ جس کی وجہ سے مقدمہ سالہا سال لٹکا رہا۔ اس کے مقدمے کا فیصلہ کے لئے میرے اندازے کے مطابق 13 ججز تھے جب کبھی کوئی جج اس مقدمے کو سنتا اور کبھی کوئی ان میں سے اکثر جج ریٹائر ہوچکے ہیں۔ جب دونوں فریقین مقدمہ پر پیسہ روپیہ اور قیمتی وقت ضائع کرکے تھک ہار کر بیٹھ گئے تو ایک دن اچانک مقدمے کا فیصلہ اس ملزم کے حق میں ہوگیا۔
یعنی وہ رہا تو ہوگیا لیکن اپنے سات قیمتی سال جیل میں برباد کردئیے۔ اس دوران اس کے خاندان اور بیوی بچوں پر کیا گزری ہوگی یہ کسی نے نہ سوچا ہوگا۔
ہمارے ایک عزیزکا کسی کے ساتھ چند کنال زمین کا تنازع تھا۔ مقدمہ عدالت میں گیا دونوں نے کئی سال پیشیاں بھگتیں اور روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہایا جند کنال زمین حاصل کرنے کے لئے اپنی بیسیوں ایکڑ اراضی مقدمہ بازی پر خرچ کردی اور کنگال ہوکر بیٹھ گئے۔ایک وکیل نے انہیں کہا کہ آپ آپس میں معاملات طے کیوں نہیں کرلیتے تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے صلح کرلی اور آپس میں معاملات طے کر لئے تو ہماری برادری ہم پر لعن طعن کرے گی اور ہمارے مخالفیں سمجھیں گے کہ ہم ان سے ہار گئے ہیں. اب یہ کھیل انہوں نے شروع کیا ہے جو ہوگا دیکھا جائے گا.
ہمارا عدالتی نظام، حکومتی نظام، سرکاری اداروں کا نظام ترقی کے قابل نہیں. آج ہم ججوں کو رو رہے ہیں. اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ججز بحال ہوکر ملک میں انصاف کی بالادستی قائم کردیں گے. اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ مشرف جیسے آمروں کا تحفظ نہیں کریں گی. اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ ایک غریب آدمی کو انصاف کے لئے سالہا سال انتظار نہیں کروائیں گی. ہمارے ملک کا مسئلہ ججز نہیں. بلکہ وہ عدالتی نظام ہے جس میں انصاف تاخیر سے ملتا ہے. وہ نظام جہاں ایک چپڑاسی سے لیکر کلرک، رجسٹرار، کلرک، جج کو رشوت، وکلا کو ہر پیشی پر پیسہ دینا پڑے ہمیں وہ نظام نہیں چاہئے. اگر ہمارے جج صاحبان بحال ہو کر ہمارے عدالتی نظام کے مسائل حل نہیں کرسکتے تو ہمیں ایسے ججوں کی کوئی ضرورت نہیں.
اگر افتخار چوہدری اور دوسرے جج صاحبان کو انصاف نہیں ملتا تو اس کی وجہ بھی ہمارا عدالتی نظام ہے. کیا پاکستان میں صرف افتخار چوہدیر ہی ہے جو لوگوں کو انصاف دے سکتا ہے باقی جج صاحبان کہاں ہیں. ہم وہی سڑے ہوئے انگریزوں کے عدالتی نظام پر زندہ ہیں. جس کو تبدیل کرنے کی بالکل کوشش نہیں کی گئی. کیا ہم آئندہ بھی ایسے فرسودہ عدالتی نظام پر زندہ رہیں گے؟ کیا ہماری آنے والی نسلیں اسی طرح مقدمے بازی میں الجھی رہیں گی؟
آپ شاید یہ نہ مانیں لیکن اس میں ہر شخص قصوروار ہے. ہماری حکومت، ہماری عوام، ہمارے وکلا صاحبان، ہمارے جج صاحبان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے.
نوٹ: لی کوآن کا حوالہ جاوید چوہدری کی کتاب زیروپوائنٹ سے لیا گیا ہے۔
1۔ آپ کے مذہب میں دنیا کو عارضی سمجھاجاتا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ آج ہم ہیں کل نہیں تو کیا ضرورت ہے سڑکیں، پارک، سکول، ہسپتال وغیرہ بنانے کی جبکہ میرے خیال میں ہمیں یہ سب کچھ کرنا چاہئے تاکہ ہم نہیںتو آنے والی نسلیں اس سے مستفید ہوں۔
2۔ آپ کے ملک میں زیادہ تر فوجی نظام رہتا ہے۔ فوجی نظام ملکی ترقی کے لئے زہر قاتل ہے۔ ایک فوجی کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ مرجاو یا ماردو جبکہ ایک سیاستدان کی سوچ مصالحت ہوتی ہے۔
3۔ تیسرا یہ کہ آپ اپنی آنے والی نسل کو ورثے میں مسائل دیتے ہو۔ میں جب برصغیر میں وکالت کرتا تھا تو میں ایک مسلمان میرے پاس مقدمہ لیکر آتا تھا تو میں مقدمہ دیکھ کر کہتا تھا کہ آپ کے مقدمے میں جان نہیں ہے تو وہ کہتا تھا کہ آپ مقدمہ کو لٹکا دو۔ ہم پیسہ پانی کی طرح بہا دیں گے بلکہ ہمارے آنے والی نسلیں بھی اس مقدمہ کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔
اگر لی کوآن کی ان باتوں پر غور کیا جائے تو واقعی اس کی باتیں درست ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سے مقدمے ایسے ہیں جن کا سامنا آنے والی نسلیں کرتی ہیں۔ جن میں زمین کا مقدمہ وغیرہ۔ اسی طرح قتل اوردیگر جرائم کے مقدموں کا یہی حال ہے جو سالہا سال لٹکے رہتے ہیں دونوں فریقین پیشیاں بھگتتے رہتے ہیں۔
میرے ایک محترم دوست اسلم چوہدری صاحب جو وکالت کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ایک بار میں اس کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اس کابیوی کے ساتھ کوئی جھگڑا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اس کی بیوی خلع کا مطالبہ کررہی ہے میں اسے خلع ضرور دوں گا لیکن پہلے ان کو سبق سکھا لوں ۔اسلم چوہدری نے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں تو اس نے کہا کہ آپ اس مقدمے کو ایسا کردیں کہ وہ پیشیاں بھگتتے رہیں اور آخر تھک ہار کر میرے قدموں میں گر جائیں اور معافی مانگ لیں۔ اسلم چوہدری نے کہا کہ آپ ایسا نہ کریں آپ کے دو بچے ہیں ان کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ تو وہ کہنے لگا کہ ہونے دو۔ بس آپ مقدمہ لڑنے کے لئے ہاں کریں آپ کی جو فیس ہے میں دے دوں گا۔ تو اسلم چوہدری نےمعذرت خواہانہ رویہ اختیار کر لیا۔ تو وہ کہنے لگا کہ آپ نہیں لڑیں گے تو کوئی اور لڑلے گا یہاں وکیلوں کی کونسا کمی ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
اس کے بعد اسلم چوہدری سے مختلف مسائل پر بات ہونے لگی۔ تو اس نے ایک واقعہ سنایا کہ کچھ دن پہلے ایک قتل کے ملزم کو سات سال بعد انصاف ملا ہے اور وہ قتل کے مقدمے سے بری ہوگیا ہے۔ اس نے وضاحت کی کہ اس شخص کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا تھا۔ اس کے مخالفین نے اس کو سزا دلوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور روپیہ پانی کی طرح بہا دیا لیکن دوسری طرف ملزم کے ورثا نے بھی اسے بچانے کے لئے یہی کچھ کیا۔ جس کی وجہ سے مقدمہ سالہا سال لٹکا رہا۔ اس کے مقدمے کا فیصلہ کے لئے میرے اندازے کے مطابق 13 ججز تھے جب کبھی کوئی جج اس مقدمے کو سنتا اور کبھی کوئی ان میں سے اکثر جج ریٹائر ہوچکے ہیں۔ جب دونوں فریقین مقدمہ پر پیسہ روپیہ اور قیمتی وقت ضائع کرکے تھک ہار کر بیٹھ گئے تو ایک دن اچانک مقدمے کا فیصلہ اس ملزم کے حق میں ہوگیا۔
یعنی وہ رہا تو ہوگیا لیکن اپنے سات قیمتی سال جیل میں برباد کردئیے۔ اس دوران اس کے خاندان اور بیوی بچوں پر کیا گزری ہوگی یہ کسی نے نہ سوچا ہوگا۔
ہمارے ایک عزیزکا کسی کے ساتھ چند کنال زمین کا تنازع تھا۔ مقدمہ عدالت میں گیا دونوں نے کئی سال پیشیاں بھگتیں اور روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہایا جند کنال زمین حاصل کرنے کے لئے اپنی بیسیوں ایکڑ اراضی مقدمہ بازی پر خرچ کردی اور کنگال ہوکر بیٹھ گئے۔ایک وکیل نے انہیں کہا کہ آپ آپس میں معاملات طے کیوں نہیں کرلیتے تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے صلح کرلی اور آپس میں معاملات طے کر لئے تو ہماری برادری ہم پر لعن طعن کرے گی اور ہمارے مخالفیں سمجھیں گے کہ ہم ان سے ہار گئے ہیں. اب یہ کھیل انہوں نے شروع کیا ہے جو ہوگا دیکھا جائے گا.
ہمارا عدالتی نظام، حکومتی نظام، سرکاری اداروں کا نظام ترقی کے قابل نہیں. آج ہم ججوں کو رو رہے ہیں. اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ججز بحال ہوکر ملک میں انصاف کی بالادستی قائم کردیں گے. اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ مشرف جیسے آمروں کا تحفظ نہیں کریں گی. اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ ایک غریب آدمی کو انصاف کے لئے سالہا سال انتظار نہیں کروائیں گی. ہمارے ملک کا مسئلہ ججز نہیں. بلکہ وہ عدالتی نظام ہے جس میں انصاف تاخیر سے ملتا ہے. وہ نظام جہاں ایک چپڑاسی سے لیکر کلرک، رجسٹرار، کلرک، جج کو رشوت، وکلا کو ہر پیشی پر پیسہ دینا پڑے ہمیں وہ نظام نہیں چاہئے. اگر ہمارے جج صاحبان بحال ہو کر ہمارے عدالتی نظام کے مسائل حل نہیں کرسکتے تو ہمیں ایسے ججوں کی کوئی ضرورت نہیں.
اگر افتخار چوہدری اور دوسرے جج صاحبان کو انصاف نہیں ملتا تو اس کی وجہ بھی ہمارا عدالتی نظام ہے. کیا پاکستان میں صرف افتخار چوہدیر ہی ہے جو لوگوں کو انصاف دے سکتا ہے باقی جج صاحبان کہاں ہیں. ہم وہی سڑے ہوئے انگریزوں کے عدالتی نظام پر زندہ ہیں. جس کو تبدیل کرنے کی بالکل کوشش نہیں کی گئی. کیا ہم آئندہ بھی ایسے فرسودہ عدالتی نظام پر زندہ رہیں گے؟ کیا ہماری آنے والی نسلیں اسی طرح مقدمے بازی میں الجھی رہیں گی؟
آپ شاید یہ نہ مانیں لیکن اس میں ہر شخص قصوروار ہے. ہماری حکومت، ہماری عوام، ہمارے وکلا صاحبان، ہمارے جج صاحبان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے.
نوٹ: لی کوآن کا حوالہ جاوید چوہدری کی کتاب زیروپوائنٹ سے لیا گیا ہے۔