عدالتی پابندی لیکن عرب شیوخ شکار کرنے پہنچ گئے

منقب سید

محفلین
محمد کاظم بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ
110804154543_avutarda_640x360_yveshingrat_nocredit.jpg

بلوچستان ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے متعلقہ قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھائے
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہائی کورٹ کی جانب سے لگائی گئی پابندی کے بعد ضلع موسیٰ خیل میں قطر سے عرب شیوخ کی ایک پارٹی شکار کے لیے پہنچی ہے۔

موسیٰ خیل میں انتظامیہ کے ایک اہلکار نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ قطر سے تعلق رکھنے والے یہ شیوخ تین دن پہلے پہنچے تھے۔

واضح رہے کہ موسیٰ خیل کے علاقے میں شکار کے لیے آنے والے ان عرب شیوخ کے آنے سے دو ہفتے قبل ہی بلوچستان ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں وفاقی وزارت خارجہ کی جانب سے عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

اہلکار نے بتایا کہ یہ لوگ ضلع موسیٰ خیل کے علاقے توئی سر میں شکار میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا تھا یہ شکار پارٹی قطر کے شاہی خاندان کے ایک شہزادے کی قیادت میں آئی ہے۔

1980کی دہائی سے عرب شیوخ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں تلور کے شکار کے لیے آتے ہیں۔ ہجرت کرنے والا یہ پرندہ اس موسم میں روس سے بلوچستان کے گرم علاقوں کا رخ کرتا ہے۔

قدرتی ماحول کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی ادارے آئی یو سی این نے اس پرندے کو ان جنگلی حیات کی فہرست میں شامل کیا ہے جن کی نسل کو ختم ہونے کا خطرہ لاحق ہے جس کے باعث اس پرندے کا شکار ممنوع ہے۔

اس پرندے کے شکار کے لیے وفاقی وزارت خارجہ کی جانب سے جو ضابطہ جاری کیا جاتا ہے اس کے مطابق کسی بھی علاقے میں عرب شیوخ کو دس دن کی شکار کیا اجازت ہوتی ہے۔
ان دس دنوں میں ان کو صرف 100 تلور شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے لیکن آئی یو سی این بلوچستان کے سربراہ فیض اللہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کوئی پابندی خاطر میں نہیں لائی جاتی۔

یاد رہے کہ دو ہفتے قبل ہی بلوچستان ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں وفاقی وزارت خارجہ کی جانب سے عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

عدالت نے کہا تھا کہ جن جنگلی حیات کی نسل کو خطرہ ہو ان کے شکار کی اجازت اسے مزید خطرے سے دوچار کرے گی اس لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایسی جنگلی حیات کے شکار کی اجازت دینے کی بجائے ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ان عرب شیوخ کو شکار گاہیں اس لیے الاٹ کی جاتی ہیں کہ وہ فلاحی کام کرتے ہیں لیکن یہ کوئی جائز جواز نہیں۔

عدالت نے قرار دیا تھا کہ بلوچستان حکومت وفاقی وزارت خارجہ کے شکارگاہیں الاٹ کرنے کے کسی فیصلے کی پابند نہیں۔
عدالت نے بلوچستان حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے متعلقہ قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔
لنک
 

x boy

محفلین
مسئلہ گھمگیر نہیں اگر اس کی افزائش کی جائے۔ پتھر کے زمانے میں کوئی پولٹری فارم تھوڑی ہوتا تھا، یا کوئی کیٹل فارم۔
 

منقب سید

محفلین
مسئلہ گھمگیر نہیں اگر اس کی افزائش کی جائے۔ پتھر کے زمانے میں کوئی پولٹری فارم تھوڑی ہوتا تھا، یا کوئی کیٹل فارم۔
ایک مرتبہ کہیں پڑھا تھا کہ ایک رئیس نے اپنے شکار کے شوق کی تسکین کے لئے ایک جنگل بنا رکھا تھا جہاں اس کے کارندے مختلف انواع و اقسام کے جانوروں اور پرندوں کی باقاعدہ افزائش کرتے تھے اور وہ رئیس صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ سال میں دو مرتبہ شکار کرنے آتے تھے۔ اس طرح ان کے شوق کی تسکین بھی ہو جاتی تھی اور ان جانوروں اور پرندوں کی نسلی بقا کا مسئلہ بھی درپیش نہیں رہتا تھا۔ خیر جہاں تک بات ہے پتھر کے زمانے کی تو تب ان جانوروں یا پرندوں کو وسیع قدرتی ماحول دستیاب تھا اور یہ تعداد میں بھی کہیں زیادہ تھے۔ اب حضرت انسان چاہ کر بھی ان کو ان کی ضروریات کے مطابق صاف فضاء اور قدرتی ماحول فراہم نہیں کر سکتا۔ فارمنگ کی تھیوری قابل عمل ہے یا نہیں اس بارے میں کوئی صاحب علم ہی بتا سکتے ہیں تاہم آپ کی فارمنگ والی تھیوری سے متفق ہوں
 

عثمان

محفلین
مسئلہ گھمگیر نہیں اگر اس کی افزائش کی جائے۔ پتھر کے زمانے میں کوئی پولٹری فارم تھوڑی ہوتا تھا، یا کوئی کیٹل فارم۔
عرب شیوخ اپنے وسائل پر اپنے علاقوں میں افزائش کریں اور شکار کریں۔ دوسرے ممالک میں آ کر ان کے قانون تو نہ روندیں۔
 
Top