منقب سید
محفلین
محمد کاظم بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ
بلوچستان ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے متعلقہ قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھائے
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہائی کورٹ کی جانب سے لگائی گئی پابندی کے بعد ضلع موسیٰ خیل میں قطر سے عرب شیوخ کی ایک پارٹی شکار کے لیے پہنچی ہے۔
موسیٰ خیل میں انتظامیہ کے ایک اہلکار نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ قطر سے تعلق رکھنے والے یہ شیوخ تین دن پہلے پہنچے تھے۔
واضح رہے کہ موسیٰ خیل کے علاقے میں شکار کے لیے آنے والے ان عرب شیوخ کے آنے سے دو ہفتے قبل ہی بلوچستان ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں وفاقی وزارت خارجہ کی جانب سے عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
اہلکار نے بتایا کہ یہ لوگ ضلع موسیٰ خیل کے علاقے توئی سر میں شکار میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا تھا یہ شکار پارٹی قطر کے شاہی خاندان کے ایک شہزادے کی قیادت میں آئی ہے۔
1980کی دہائی سے عرب شیوخ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں تلور کے شکار کے لیے آتے ہیں۔ ہجرت کرنے والا یہ پرندہ اس موسم میں روس سے بلوچستان کے گرم علاقوں کا رخ کرتا ہے۔
قدرتی ماحول کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی ادارے آئی یو سی این نے اس پرندے کو ان جنگلی حیات کی فہرست میں شامل کیا ہے جن کی نسل کو ختم ہونے کا خطرہ لاحق ہے جس کے باعث اس پرندے کا شکار ممنوع ہے۔
اس پرندے کے شکار کے لیے وفاقی وزارت خارجہ کی جانب سے جو ضابطہ جاری کیا جاتا ہے اس کے مطابق کسی بھی علاقے میں عرب شیوخ کو دس دن کی شکار کیا اجازت ہوتی ہے۔
ان دس دنوں میں ان کو صرف 100 تلور شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے لیکن آئی یو سی این بلوچستان کے سربراہ فیض اللہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کوئی پابندی خاطر میں نہیں لائی جاتی۔
یاد رہے کہ دو ہفتے قبل ہی بلوچستان ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں وفاقی وزارت خارجہ کی جانب سے عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
عدالت نے کہا تھا کہ جن جنگلی حیات کی نسل کو خطرہ ہو ان کے شکار کی اجازت اسے مزید خطرے سے دوچار کرے گی اس لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایسی جنگلی حیات کے شکار کی اجازت دینے کی بجائے ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ان عرب شیوخ کو شکار گاہیں اس لیے الاٹ کی جاتی ہیں کہ وہ فلاحی کام کرتے ہیں لیکن یہ کوئی جائز جواز نہیں۔
عدالت نے قرار دیا تھا کہ بلوچستان حکومت وفاقی وزارت خارجہ کے شکارگاہیں الاٹ کرنے کے کسی فیصلے کی پابند نہیں۔
عدالت نے بلوچستان حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے متعلقہ قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔
لنک
بلوچستان ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے متعلقہ قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھائے
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہائی کورٹ کی جانب سے لگائی گئی پابندی کے بعد ضلع موسیٰ خیل میں قطر سے عرب شیوخ کی ایک پارٹی شکار کے لیے پہنچی ہے۔
موسیٰ خیل میں انتظامیہ کے ایک اہلکار نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ قطر سے تعلق رکھنے والے یہ شیوخ تین دن پہلے پہنچے تھے۔
واضح رہے کہ موسیٰ خیل کے علاقے میں شکار کے لیے آنے والے ان عرب شیوخ کے آنے سے دو ہفتے قبل ہی بلوچستان ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں وفاقی وزارت خارجہ کی جانب سے عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
اہلکار نے بتایا کہ یہ لوگ ضلع موسیٰ خیل کے علاقے توئی سر میں شکار میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا تھا یہ شکار پارٹی قطر کے شاہی خاندان کے ایک شہزادے کی قیادت میں آئی ہے۔
1980کی دہائی سے عرب شیوخ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں تلور کے شکار کے لیے آتے ہیں۔ ہجرت کرنے والا یہ پرندہ اس موسم میں روس سے بلوچستان کے گرم علاقوں کا رخ کرتا ہے۔
قدرتی ماحول کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی ادارے آئی یو سی این نے اس پرندے کو ان جنگلی حیات کی فہرست میں شامل کیا ہے جن کی نسل کو ختم ہونے کا خطرہ لاحق ہے جس کے باعث اس پرندے کا شکار ممنوع ہے۔
اس پرندے کے شکار کے لیے وفاقی وزارت خارجہ کی جانب سے جو ضابطہ جاری کیا جاتا ہے اس کے مطابق کسی بھی علاقے میں عرب شیوخ کو دس دن کی شکار کیا اجازت ہوتی ہے۔
ان دس دنوں میں ان کو صرف 100 تلور شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے لیکن آئی یو سی این بلوچستان کے سربراہ فیض اللہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کوئی پابندی خاطر میں نہیں لائی جاتی۔
یاد رہے کہ دو ہفتے قبل ہی بلوچستان ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں وفاقی وزارت خارجہ کی جانب سے عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
عدالت نے کہا تھا کہ جن جنگلی حیات کی نسل کو خطرہ ہو ان کے شکار کی اجازت اسے مزید خطرے سے دوچار کرے گی اس لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایسی جنگلی حیات کے شکار کی اجازت دینے کی بجائے ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ان عرب شیوخ کو شکار گاہیں اس لیے الاٹ کی جاتی ہیں کہ وہ فلاحی کام کرتے ہیں لیکن یہ کوئی جائز جواز نہیں۔
عدالت نے قرار دیا تھا کہ بلوچستان حکومت وفاقی وزارت خارجہ کے شکارگاہیں الاٹ کرنے کے کسی فیصلے کی پابند نہیں۔
عدالت نے بلوچستان حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے متعلقہ قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔
لنک