قمراحمد
محفلین
"عدلیہ دائرہ کار سے تجاوز کر گئی ہے"
چیئرپرسن پاکستان انسانی حقوق کمشن "عاصمہ جہانگیر"
علی سلمان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
چیئرپرسن پاکستان انسانی حقوق کمشن "عاصمہ جہانگیر"
علی سلمان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
پاکستان انسانی حقوق کمشن کی چیئرپرسن عاصمہ جہانگیر نے این آر او کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے ’عدلیہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرگئی ہے اوریہ بہت ہی خطرناک بات ہوگی کہ سپریم کورٹ اراکین پارلیمان کی اخلاقیات پر فیصلے دے۔‘
عاصمہ جہانگیر نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس طریقے سے فیصلہ آیا اور مانیٹرنگ سیل بنائے گئے اور سارے اراکین پارلیمان کو ایک طرح سے وارننگ دی گئی کہ ان کے کردار کی چھان بین ہوسکے گی ’وہ سمجھتی ہیں کہ عدلیہ اپنے دائرے سے باہر نکلی ہے۔‘
انہوں نے کہا وہ اس بات کی توقع نہیں رکھتی تھیں کہ عدلیہ اب اس بات کی جانچ پڑتال شروع کردے گی کہ ممبران کے اخلاقیات کیا ہیں۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اراکین اسمبلی تو الیکشن لڑ کر آتے ہیں لیکن جج تو اپنی ساکھ کی وجہ سے آتے ہیں اگر ممبران پارلیمان کے لیے معیار اتنا بلند کردیا جائے کہ کوئی اس پر پورا نہ اتر سکے تو پھر عدلیہ کا معیار تو اس سے بھی بہت بلند ہونا چاہیے۔
انسانی حقوق کمشن پاکستان کی سربراہ نے کہا کہ ’یہ جوڈیشل ایکٹوازم نہیں ہے بلکہ عدلیہ اپنی اتھارٹی کو بہت زیادہ آگے لے گئی ہے۔اب اس نے مانیٹرنگ سیل قائم کرنے کی بات کر دی ہے۔یہ بھی دیکھا جائے گا کہ کس میکنزم کے مطابق کام ہوگا۔‘
’عدلیہ کی سپرویژن تو ہوتی ہے لیکن مانیٹرنگ سیل ہم نے آج تک نہیں دیکھا کہ اس طریقے بنائے گئے ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ تقسیم اختیارات کا نظریہ متاثر ہوا ہے۔’عدلیہ کو اپنے رویے پر غور کرنا چاہیے اس کا اپنا ایک مقام ہے اور اسے اپنے اس مقام پر واپس چلے جانا چاہیے۔وہ کسی خاص معاملے یا کیس میں اپنی دلچسپی نہ دکھائے۔‘
’وہ انصاف ضرور کریں لیکن یہ مخصوص نہ ہو بلکہ مساویانہ انداز سے ہونا چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف ملک کے لیےبلکہ خود ان کے لیے بھی اچھا نہیں ہوگا۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اسی صورت میں اپیل کرسکتی تھیں جب اس عدالت سے بڑی بھی کوئی عدالت ہوتی۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بنچ نے ایسا فیصلہ سنا دیا ہے جس کی کہیں اپیل بھی نہیں ہوسکتی۔
’انسان آخر انسان ہوتا ہے اس سے غلطی ہوسکتی ہے اسی لیے اپیل کا حق رکھا جاتا ہے۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اتنے بڑے فیصلے کردیئے جائیں اور اس کی کہیں اپیل بھی نہ ہوسکے۔‘
انہوں کہا کہ وہ یہ نہیں کہتیں کہ عدلیہ فیصلے نہ دے لیکن جو بھی کرے بہت سوچ سمجھ کر کرے۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جن لوگوں نے لوٹ مار کی ہے ان کے مقدمات عدالتوں میں چلنے چاہیے اور یوں اجتماعی معافی نہیں ہونی چاہیے لیکن عدلیہ نے جس انداز میں فیصلے کیے ہیں اس پر انہیں تحفظات ہیں۔
دریں اثناء انسانی حقوق کمشن آف پاکستان نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں بعض افراد کے بیرون ملک نقل وحرکت پر پابندی کو بنیادی حق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کمشن کو اس بات پر پریشانی ہے کہ حکام نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ آرڈیننس کا اطلاق کردیا ہے جسے کبھی بھی منصفانہ نہیں سمجھا گیا۔کمشن کی سربراہ عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ پیشگی نوٹس اور مناسب وجوہات بیان کیے بغیر پابندی عائد کرنا اس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے جس کی ضمانت ملک کا آئین دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کے خلاف عدلیہ میں مقدمات چل رہے ہوں ان کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کرنا ضروری نہیں ہے ان کے فرار کو روکنے کے لیے عدالت میں قانونی سطح پر یقین دہانی حاصل کی جاسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ کو ماضی میں سیاسی طور پر حراساں کرنے کے لیےاستعمال کیا جاتا رہا ہے اور اب ایگزٹ کنٹرول لسٹ کا عدالتی فیصلے کی آڑ میں من مانے طریقے سے استعمال کسی آفت سے کم نہیں سمجھا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ قومی دولت لوٹنے والوں کے خلاف جو قانونی کارروائی کی جارہی ہے وہ کافی ہے، حکام کو بے جا غصے اور جوش میں آکر ایسے ناجائز اقدام نہیں کرنے چاہیے جنہیں وہ انصاف سمجھتے ہوں۔