محمد تابش صدیقی
منتظم
عدم آباد کی ایک بیٹھک میں اردو محفل فورم پر چند شعراء موجود ہیں۔ معلوم ہوا کہ محفل کی سالگرہ آ رہی ہے تو گپ شپ شروع ہو گئی۔
سب سے پہلے عبد الحمید عدمؔ جو ابھی کچھ ہی دیر پہلے عارضی معطلی سے واپس آئے تھے، چمک کر بولے:
جونؔ نے کچھ گزرتے شعراء کو دیکھ کر کہا:
شیفتہؔ محفل چھوڑ کر جانے اور پھر منائے جانے کا قصہ سناتے ہوئے کہنے لگے:
داغؔ جو کبھی معطل نہ ہوئے تھے، انتظامیہ کو تڑی لگاتے ہوئے کہتے ہیں:
اصغر گونڈوی، جو کبھی خود بھی مدیر رہ چکے تھے، محفل کے بابوں میں شمار ہوتے ہیں، بہت عرصہ بعد محفل حاضر ہوئے تو نئے محفلین کو نصیحت کرتے ہوئے کہنے لگے:
اقبالؒ جو کافی سوچ میں غرق تھے، افسردہ لہجے میں بولے:
اتنے میں ذوقؔ اپنی محفل میں شمولیت کا قصہ سناتے ہوئے بولے:
غالبؔ، جو ذوق کے طنز پر ابھی تک جز بز تھے، بولے:
میرؔ، جو اپنے مزاج کے مطابق کچھ جھنجھلائے ہوئے تھے، اور منتظمین سے کچھ بنتی بھی نہ تھی، کہنے لگے:
سب سے پہلے عبد الحمید عدمؔ جو ابھی کچھ ہی دیر پہلے عارضی معطلی سے واپس آئے تھے، چمک کر بولے:
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں
عدمؔ معطلی پر ابھی تک جز بز تھے، اپنے غیر فعال ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے بولے:محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں
میں ہوں ضرور کہیں تیری بزم میں لیکن
تلاش کر کے تو خود ہی بتا کہاں ہوں میں
پھر خیال آیا کہ سالگرہ ہے تو محفل کی تعریف بھی بنتی ہے۔ کہنے لگے:تلاش کر کے تو خود ہی بتا کہاں ہوں میں
تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں
محسنؔ نقوی، جو محفل کو محض خاموش تماشائی کی حیثیت سے ہی دیکھتے رہے تھے، اب پچھتاتے ہوئے کہنے لگے:کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں
یہ حَادثہ ہے میں تِری محفل میں چُپ رہا
حالانکہ وہ فضا بھی بڑی سازگار تھی
اور محفل کے ٹرولز سے جھنجھلا کر کہنے لگے:حالانکہ وہ فضا بھی بڑی سازگار تھی
ذہنِ رسا کی محفلِ خاموش میں کبھی
وہ شور کر کہ کچھ بھی سنائی نہ دے مجھے
اور قطعہ کے اگلے شعر میں اپنی اس خواہش کے پیچھے چھپی اصل خواہش کا اظہار بھی کر دیا کہ اس طرح دراصل ان کا مقصد ٹرولز کو معطل کروانا تھا:وہ شور کر کہ کچھ بھی سنائی نہ دے مجھے
اے دوست! چھوڑ کر یہ رگِ جاں کی پستیاں
اتنا بلند ہو کہ دکھائی نہ دے مجھے
اتنا بلند ہو کہ دکھائی نہ دے مجھے
جونؔ نے کچھ گزرتے شعراء کو دیکھ کر کہا:
اگر چاہو تو آنا کچھ نہیں دشوار، آ نکلو
شروعِ شب کی محفل ہے مری سرکار! آ نکلو
پھر اپنے اوپر نقاد کی تنقید پڑھ کر بے نیازی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا:شروعِ شب کی محفل ہے مری سرکار! آ نکلو
تلخ گو مخلصوں کی محفل میں
جون کس بات کا برا مانے
محفل سے وابستگی کا اظہار کچھ یوں کیا:جون کس بات کا برا مانے
سرِ محفل یہ حال ہے میرا
جیسے خود کو بھگا کے لایا ہوں
پھر پرانے محفلین ہونے کے ناطے کچھ ناسٹلجیا میں چلے گئے:جیسے خود کو بھگا کے لایا ہوں
گنوا کے اب جنہیں گم ہے نظر کی بیداری
وہ ایک خواب کی محفل تھی اور خیال کے لوگ
اور اپنے دور کے محفلین کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگے:وہ ایک خواب کی محفل تھی اور خیال کے لوگ
اے یار کسی شام، مرے یار کسی شام
بے رونقیِ محفلِ یاراں پہ نظر ہو
بے رونقیِ محفلِ یاراں پہ نظر ہو
شیفتہؔ محفل چھوڑ کر جانے اور پھر منائے جانے کا قصہ سناتے ہوئے کہنے لگے:
اپنی محفل سے یہ آزردہ اٹھایا مجھ کو
کہ منانے کے لئے آپ مرے گھر آیا
اور دوبارہ بدمزگی سے بچنے کے لیے یہ فیصلہ کیا:کہ منانے کے لئے آپ مرے گھر آیا
ہم پاؤں پھونک پھونک کے رکھتے ہیں کیا کریں
اس بزم میں ہے دخل سراسر رقیب کا
کیونکہ پہلی بدمزگی کا الزام بھی وہ رقیبوں ہی پر دھرتے ہیں:اس بزم میں ہے دخل سراسر رقیب کا
مجھے یوں بٹھاتے وہ کب بزم میں
اٹھائے رقیبوں نے طوفاں عبث
اٹھائے رقیبوں نے طوفاں عبث
داغؔ جو کبھی معطل نہ ہوئے تھے، انتظامیہ کو تڑی لگاتے ہوئے کہتے ہیں:
اے داغؔ اس کی بزم میں ہم گل کھلائیں گے
اس کا ہے انتظار ذرا کوئی کچھ کہے
ساتھ ہی اپنی ڈھٹائی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے:اس کا ہے انتظار ذرا کوئی کچھ کہے
حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے
اور پھر یہ سوچ کر کہ کہیں انتظامیہ غصہ ہی نہ کر جائے، فوراً مسکا لگایا:اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے
بدلے شراب کے ہے مجھے زہر بھی قبول
اس انجمن میں ساقیِ محفل کے ہاتھ سے
ایک محفلین سے مکالمہ میں انتظامیہ کے خلاف بات کر دی تھی، اس محفلین نے سب کو بتا دیا تو شکایت کرتے ہوئے کہنے لگے:اس انجمن میں ساقیِ محفل کے ہاتھ سے
ہم نے جو راز کہ خلوت میں کہا تھا اس سے
آج افشا وہ رقیبوں میں سرِ محفل ہے
پھر ایک شاعر پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ جو محفل پر کڑی تنقید سے بھاگ کر فیس بک پر گئے تھے اور خوب واہ واہ سمیٹ رہے تھے:آج افشا وہ رقیبوں میں سرِ محفل ہے
چھوڑ کر وہ مجمعِ اغیار کیوں آنے لگے
روز جلسے ہیں نئی ہر روز محفل گھر میں ہے
پھر محفل پر سر پھٹول دیکھ کر کہنے لگے:روز جلسے ہیں نئی ہر روز محفل گھر میں ہے
دیکھنا رشک اس کی محفل میں
ایک کو ایک کھائے جاتا ہے
کچھ اداس ہوتے ہوئے کہا:ایک کو ایک کھائے جاتا ہے
دل کو تھاموں کہ تری بزم میں آنسو پونچھوں
ہاتھ جب دل سے اٹھے دیدۂ تر تک پہنچے
پھر اچانک یاد آیا کہ یہ تو سالگرہ کی محفل ہے، تو کہا:ہاتھ جب دل سے اٹھے دیدۂ تر تک پہنچے
نغمۂ عیش سے یاد آگئے نالے ہم کو
بزمِ شادی میں رہے تو بھی تو ماتم میں رہے
بزمِ شادی میں رہے تو بھی تو ماتم میں رہے
اصغر گونڈوی، جو کبھی خود بھی مدیر رہ چکے تھے، محفل کے بابوں میں شمار ہوتے ہیں، بہت عرصہ بعد محفل حاضر ہوئے تو نئے محفلین کو نصیحت کرتے ہوئے کہنے لگے:
ابھی مجھ سے سبق لے محفلِ روحانیاں برسوں
رہا ہوں میں شریکِ حلقہٴ پیرِ مغاں برسوں
اپنے دور کے محفلین کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگے:رہا ہوں میں شریکِ حلقہٴ پیرِ مغاں برسوں
لالہ و گل تم نہیں ہو، ماہ و انجم تم نہیں !
رنگِ محفل بن کے لیکن کون اس محفل میں ہے
اور پھر یاس بھرے لہجے میں بولے:رنگِ محفل بن کے لیکن کون اس محفل میں ہے
ایک مدّت سے تری بزم سے محروم ہوں میں
کاش وہ چشمِ عنایت بھی تری یاد نہ ہو
نئے محفلین کی گپ شپ سے نالاں ہوتے ہوئے بولے:کاش وہ چشمِ عنایت بھی تری یاد نہ ہو
کون سی بزم سے آتے ہیں جوانانِ چمن
خاک میں لے کے چلا ذوقِ تماشا مجھ کو
پھر بھی امید کی کرن انھیں دکھائی دیتی ہے:خاک میں لے کے چلا ذوقِ تماشا مجھ کو
خطِ ساغر میں رازِ حق و باطل دیکھنے والے
ابھی کچھ لوگ ہیں ساقی کی محفل دیکھنے والے
ابھی کچھ لوگ ہیں ساقی کی محفل دیکھنے والے
اقبالؒ جو کافی سوچ میں غرق تھے، افسردہ لہجے میں بولے:
دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمیِ محفل کی یاد
جل چکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد
جل چکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد
فکر رہتی تھی مجھے جس کی وہ محفل ہے یہی
صبر و استقلال کی کھیتی کا حاصل ہے یہی
اپنے کبھی فعال ہونے اور پھر غیر فعالیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے:صبر و استقلال کی کھیتی کا حاصل ہے یہی
کہیں سرمایۂ محفل تھی میری گرم گفتاری
کہیں سب کو پریشاں کر گئی میری کم آمیزی
پھر اپنی غیر فعالیت کی وجہ عارضی معطلی بتاتے ہوئے انتظامیہ سے کہنے لگے:کہیں سب کو پریشاں کر گئی میری کم آمیزی
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
پھر فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ انتظامیہ نے سافٹویئر اپڈیٹ کر کے بحال کیا ہے تو کہنے لگےیہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں
اور اپنے آپ سے کہنے لگے:بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں
خموش اے دل! بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
محفلِ نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جو اب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ
محفل پر سطحیت کا عروج دیکھ کر کہنے لگےرنگ پر جو اب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ
پنہاں تہِ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفلِ نو کی نگاہ ہے
پھر امید دلاتے ہوئے کہنے لگے:ظاہر پرست محفلِ نو کی نگاہ ہے
مجھے فطرت نوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی
اتنے میں ذوقؔ اپنی محفل میں شمولیت کا قصہ سناتے ہوئے بولے:
آیا ہوں نور لے کے میں بزمِ سخن میں ذوق
آنکھوں پہ سب بٹھائیں گے اہلِ سخن مجھے
مگر دل کے ارماں آنسؤں میں بہہ گئے۔ زیادہ پذیرائی نہ ہوئی تو کہا:آنکھوں پہ سب بٹھائیں گے اہلِ سخن مجھے
کوئی اس بزم میں مونس ہے نہ دمساز اپنا
یار دکھلائے کہیں آ کے جو اعجاز اپنا
بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی
وہیں معلوم کروں ہونٹ ہلائے تو سہی
اور پھر جا بے جا غالبؔ کے طرفدار بکھرے نظر آئے تو شکوہ کناں ہوئے:یار دکھلائے کہیں آ کے جو اعجاز اپنا
بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی
وہیں معلوم کروں ہونٹ ہلائے تو سہی
مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا
پر ذکر ہمارا نہیں آتا نہیں آتا
پھر بھی محفل کی سالگرہ کے موقع پر دعا دیتے چلے کہ:پر ذکر ہمارا نہیں آتا نہیں آتا
بزمِ رنگیں میں تری رنگِ طرب ہو ہر روز
اور تری خاطرِ اقدس پہ کبھی آئے نہ رنج
اور تری خاطرِ اقدس پہ کبھی آئے نہ رنج
غالبؔ، جو ذوق کے طنز پر ابھی تک جز بز تھے، بولے:
آئیں جس بزم میں وہ، لوگ پکار اٹھتے ہیں
"لو وہ برہم زنِ ہنگامۂ محفل آئے"
پھر محفل سے جانے والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے:"لو وہ برہم زنِ ہنگامۂ محفل آئے"
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
اپنی حد سے زیادہ پذیرائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے:جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
نئے محفلین، جو اپنی تعارفی لڑی میں پذیرائی پر بہت خوش تھے، انھیں سمجھاتے ہوئے کہنے لگے:یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے
بھول مت اس پر اُڑاتے ہیں تجھے
کچھ عرصہ منتظم بھی رہے، تو اس وقت کی روداد سناتے ہوئے بولے:بھول مت اس پر اُڑاتے ہیں تجھے
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے
اور پھر وہی اپنا زمانہ یاد کرتے ہوئے کہنے لگے:بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں
نہ حیرت چشمِ ساقی کی، نہ صحبت دورِ ساغر کی
مری محفل میں غالبؔ گردشِ افلاک باقی ہے
پھر کسی نے یاد دلایا کہ سالگرہ آ رہی ہے تو کہامری محفل میں غالبؔ گردشِ افلاک باقی ہے
پھر ہوئی ہے اسی مہینے میں
منعقد محفلِ نشاط قریں
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
منعقد محفلِ نشاط قریں
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
میرؔ، جو اپنے مزاج کے مطابق کچھ جھنجھلائے ہوئے تھے، اور منتظمین سے کچھ بنتی بھی نہ تھی، کہنے لگے:
قسمت اس بزم میں لائی کہ جہاں کا ساقی
دے ہے مے سب کو ہمیں زہر پلاتا ہے میاں
ہم کو کہنے کے تئیں بزم میں جا دیتے ہیں
بیٹھنے پاتے نہیں ہم کہ اٹھا دیتے ہیں
دے ہے مے سب کو ہمیں زہر پلاتا ہے میاں
ہم کو کہنے کے تئیں بزم میں جا دیتے ہیں
بیٹھنے پاتے نہیں ہم کہ اٹھا دیتے ہیں
ہم خامشوں کا ذکر تھا شب اس کی بزم میں
نکلا نہ حرف خیر کسو کی زبان سے
اور محفل چھوڑنے کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے:نکلا نہ حرف خیر کسو کی زبان سے
ہم بے خودانِ محفل تصویر اب گئے
آئندہ ہم سے آپ میں آیا نہ جائے گا
ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ محفل ہمارے بغیر نہیں چل سکتی:آئندہ ہم سے آپ میں آیا نہ جائے گا
بزم میں جو ترا ظہور نہیں
شمع روشن کے منھ پہ نور نہیں
پھرکسی نے کہا کہ حضرت سالگرہ ہے تو کچھ تعریف بھی ہو جائے، تو بناوٹی لہجے میں کہا:شمع روشن کے منھ پہ نور نہیں
دلکشی اس بزم کی ظاہر ہے تم دیکھو تو ہو
لوگ جی دیتے چلے جاتے ہیں کس حسرت سے یاں
اتنے میں رات کا کھانا کھلنے کی پکار سنائی دی، تو شعراء اس جانب چل دیے۔ یوں یہ محفل اختتام کو پہنچی۔لوگ جی دیتے چلے جاتے ہیں کس حسرت سے یاں
٭٭٭