محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
غزل
محمد خلیل الرحمٰن
’’فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا‘‘
سامنے رکھّا تھا کھانا اور میں بھوکا نہ تھا
ایسی خوشبو اُٹھ رہی تھی اُس کے توشے سے کہ میں
بس اُسے محسوس کر سکتا تھا ، کھا سکتا نہ تھا
آج اُس نے اپنے برتن بھی علیٰحدہ کرلیے
بن گیا ایسا کہ جیسے ساتھ کچھ کھایا نہ تھا
برتنوں کی کھنکھناہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا کچن میں کوئی بھی کھاتا نہ تھا
لذتیں تو بس اسی کے ہی پکانے کی رہیں
میں کہ کھا سکتا تھا لیکن کچھ پکا سکتا نہ تھا
ہاشمی صاحب کی پیاری سی غزل سے یہ سلوک
ہم نہ کرتے ، پر ہماری سوچ پر پہرہ نہ تھا
غزل
عدیم ہاشمی
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے، اور وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سُو
میں اُسے محسوس کرسکتا تھا، چھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
آج اُس نے درد بھی اپنے علیٰحدہ کرلیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اسکے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی، شہر دھندلایا نہ تھا
یاد کرکے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا