عذابِ ذات پورا کردیا ہے
مجھے اُس نے اکیلا کر دیا ہے
ابھی تو آنکھ بھی جھپکی نہیں تھی
فلک نے پھر سویرا کر دیا ہے
بناتا توڑتا ہے یوں کہ اُس نے
مرے دل کو گھروندا کر دیا ہے
سرِ ساحل کسی نے پیر دھو کر
سمندر کو بھی پیاسا کر دیا ہے
یہ کس نے یاد کی شمعیں جلا کر
مرے اندر اجالا کردیا ہے
خوشی کی آبجو پُھوٹے کہیں سے
غموں نے دل کو صحرا کر دیا ہے