بھلکڑ
لائبریرین
ہجر کی شب نہ چراغوں کو بجھا کر رکھنا
وصل کی دل میں سدا آس لگا کر رکھنا
کون جانے کہ کہاں کون ترے کام آئے
دوست تو دوست عدو سے بھی بنا کر رکھنا
راہبر بن کر تجھے لوٹا ہے جس رہزن نے
اس کے غم کو نہ سدا دل سے لگا کر رکھنا
زیست بے رنگ ہوا کرتی ہے خوابوں کے بنا
اپنی آنکھوں میں کوئی خواب بسا کر رکھنا
لوٹ آئے گا وہ اک روز، کہا تھا اس نے
اپنے جوڑے میں سدا پھول سجا کر رکھنا
آشکار نہ ہوا اس غم کا بھرم اس دُنیا پر
دل میں اُٹھتا ہوا طوفان دبا کر رکھنا
وہ ترا ہوا کہ نہ ہوا تجھ سے منسوب تو ہے
اس کو دھڑکن کی طرح دل میں بسا کر رکھنا
لوٹ کر عذرا اس تیرے ہی پاس آنا ہے
دل میں اُمید کا اک پھول کھلا کر رکھنا
( عذرا ناز )