عراق میں نکاحِ متعہ: ’کتنی بار شادی ہوئی اب صحیح تعداد بھی یاد نہیں‘

جاسم محمد

محفلین
بس اس میں جانبین اپنی بدنیتی شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً مرد کے دل میں یہ چور ہوتا ہے کہ کچھ مدت بعد طلاق دے دوں گا اور عورت کو بھی اس کا علم ہوتا ہے کہ یہ پائیدار نکاح نہیں ہے۔
اسلامی نکاح میں اگر ایک طرف سے بھی بدنیتی کا عنصر شامل ہو جائے تو اصولا وہ کالعدم ہو جاتا ہے۔ یہاں تو دونوں اطراف ہی بدنیتی ہے، اس لئے نکاح مسیار اور نکاح متعہ میں زیادہ فرق موجود نہیں۔
 

سید عمران

محفلین
ایک میں نکاح توڑنے کی خواہش دل میں دبائی ہوتی ہے
صرف خواہش کی وجہ سے جائز فعل کو ناجائز نہیں کہہ سکتے۔۔۔
بعض اوقات یہ نکاح تمام عمر بھی چل جاتا ہے کیوں کہ طلاق دینے سے ہی ختم ہوگا، طلاق نہ دی جائے تو نکاح قائم رہے گا۔۔۔
فی نفسہ نکاح تو صحیح ہے، نکیر اس میں شامل بدنیتی پر کی جائے گی!!!
 

زیک

مسافر
اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ جس مذہب میں لونڈی سے جبری تعلقات جائز ہوں اس میں متعہ اور نکاح مسیار کا ہونا کچھ بعید نہیں
 
طلاق کے معانی ہیں ، چھوڑ کر جانا۔ میری سمجھ میں طلاق دینا اور لینا بالکل سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص کو چھوڑ کر جانے کا حق ہو اور وہ یہ حق استعمال کرتا ہو تو اس میں دینا کیا ہے اور لینا کیا ہے۔

طلاق یا چھوڑ جانے کو اس طرح سمجھئے کہ میں اور آپ ایک کاروبار کرتے ہیں۔ کاروبار پھولتا پھلتا ہے لیکن میری اور آپ کی آپس میں نہیں بنتی تو میں اس کاروبار کو چھوڑ کر جانے کا حق استعمال کرتا ہوں۔ تو جو کچھ کاروبار ہے وہ آپکا۔ لیکن جو بھی میری ذمہ داری ہے وہ چھوڑ کر جانے کی وجہ سے ختم نہیں ہوجائے گی۔

شادی ایک خالصتاً بھاری معاہدہ ہے، مرد کی اس معاہدے میں کئی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ ذمہ داریاں چھوڑ کر جانے سے ختم نہیں ہو جاتی ہیں۔ قرآن حکیم کے احکامات سے یہ ذمہ داریاں بہت ہی واضح ہیں۔ لہذا اگر کوئی شخص وقتی معاہدہ کرے یا دائمی، ذمہ داریاں تو اپنی جگہ ہیں۔ اب اگر کوئی نہیں مانتا تو بنیادی قانون سازی، کی ضرورت ہے کہ چھوڑ کر جانے والا شخص ، پیچھے رہ جانے والے کی ذمہ داریاں پوری نا کرے۔

والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
یعنی تمام مذاہب ریپ کے حامی ہیں؟
مفتوح کی عورتوں پر جبری تصرف حاصل کر لینا تمام فاتحین کی ایک تاریخی روایت تھی، اُن کی بھی جو کسی مذہب کو نہیں مانتے تھے۔ مذہبی سے زیادہ یہ ایک جنگی عمل تھا اور اب اس پر ان معنوں میں شاید کسی کا عمل نہیں ہے۔
 

زیک

مسافر
مفتوح کی عورتوں پر جبری تصرف حاصل کر لینا تمام فاتحین کی ایک تاریخی روایت تھی، اُن کی بھی جو کسی مذہب کو نہیں مانتے تھے۔ مذہبی سے زیادہ یہ ایک جنگی عمل تھا اور اب اس پر ان معنوں میں شاید کسی کا عمل نہیں ہے۔
اگر ابن جمال یہ فرما دیں کہ یہ پرانے وقتوں کی جنگی بربریت تھی اور اب یہ حرام ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں تو میں آپ سے مکمل اتفاق کروں گا
 

جاسم محمد

محفلین
اگر ابن جمال یہ فرما دیں کہ یہ پرانے وقتوں کی جنگی بربریت تھی اور اب یہ حرام ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں تو میں آپ سے مکمل اتفاق کروں گا
اسے کہتے ہیں ’’گڑے مردے اکھاڑنا‘‘۔
آئین پاکستان 1973ء میں غلام اور لونڈیوں کی تجویز کس نے دی تھی؟
 

La Alma

لائبریرین
جس مذہب میں لونڈی سے جبری تعلقات جائز ہوں
قرآن کا موقف تو لونڈیوں کے متعلق انتہائی واضح ہے۔
‎وَلَا تُكۡرِهُوۡا فَتَيٰتِكُمۡ عَلَى الۡبِغَآءِ اِنۡ اَرَدۡنَ تَحَصُّنًا لِّ۔تَبۡتَغُوۡا عَرَضَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا‌ؕ وَمَنۡ يُّكۡرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنۡۢ بَعۡدِ اِكۡرَاهِهِنَّ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏
(سوره نور )
" اور اپنی لونڈیوں کو اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں تو دنیاوی زندگی کے فوائد حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرنا۔ اور جو ان کو مجبور کرے گا تو ان (بیچاریوں) کے مجبور کئے جانے کے بعد خدا بخشنے والا مہربان ہے۔"

وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّامَلَکَتْ اَیْمَا نُکُمْ مِّنْ فَتَیٰ۔تِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ
(النساء،)
’’اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان لونڈیوں سے نکاح کر لے جو تمہاری ملکیت میں ہیں۔‘‘

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت طیبہ سے تو ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جہاں بغیر نکاح کیے انہوں نے کسی جنگی قیدی عورت یا لونڈی سے کوئی جسمانی تعلق قائم کیا ہو یا بالجبر نکاح ہی کیا ہو۔
جس دین میں جنگ کے دوران بھی دشمن کی عبادت گاہوں، ان کے بچوں، بوڑھوں، کمزوروں، جانوروں، یہاں تک کہ درختوں اور فصلوں کو بھی کسی قسم کا نقصان نہ پہنچانے کی تلقین کی گئی ہو، وہاں مجبور قیدی عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی اجازت بعید از تصور ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسلامی تاریخ اور روایات کے بیان میں کہیں کہیں عرب معاشرت کو دین سے الگ کرنے کا کوئی خاص تکلف نہیں برتا گیا۔
اسلام میں جہاد کے مقاصد انتہائی اعلٰی و ارفع ہیں۔ جہاد کی فرضیت تو فتنہ و فساد کے خاتمے، ظلم و ستم کے قلع قمع اور عدل و انصاف کے بول بالا کے لیے ہے نہ کہ جیت اور طاقت کے زعم میں مفتوح اقوام کے کمزور طبقے کو یرغمال بنا لینا اور ان کی خواتین کا جنسی استحصال کرنا۔
ان بے گناہ قیدی عورتوں کا معاملہ تو ایک طرف رہا، حتٰی کہ وہ کفار جو میدان جنگ میں کھلم کھلا مسلمانوں کے ساتھ لڑے اور بعد میں گرفتار ہو ئے، اللہ تعالٰی نے تو ان کے ساتھ بھی نرمی کا معاملہ اختیارکرنے کا حکم دیا ہے۔
فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ذَلِكَ ( سورہ محمد)
"پھر اس کے بعد یا تو احسان کر کے چھوڑ دینا ہے یا فدیہ لے کر رہا کر دینا۔ یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔''

عام طور پر اس آیت کو بنیاد بنا کر لونڈیوں سے جسمانی تعلق کو جائز سمجھا جاتا ہے۔
‎إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ

مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ کا ترجمہ اگر داہنے ہاتھ کی ملکیت ہی ہے تو کیا یہ ضروری ہے اس سے مراد فقط لونڈی ہی ہو۔ اگر بالفرض لونڈی ہی ہے تو آزاد عورت کے مقابلے میں وہ بھی کسی نہ کسی قانون، قاعدے یا ایگریمنٹ کے تحت ہی زوجیت میں آئے گی۔ یہاں جبر کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔
قرآن میں کہیں بھی غلاموں اور لونڈیوں سے کسی بھی معاملے میں زور زبردستی کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ذیل کی آیت سے اس کی ایک مثال دیکھیے۔
وَلۡيَسۡتَعۡفِفِ الَّذِيۡنَ لَا يَجِدُوۡنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغۡنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ‌ؕ وَالَّذِيۡنَ يَبۡتَغُوۡنَ الۡ۔كِتٰبَ مِمَّا مَلَ۔كَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ فَكَاتِبُوۡهُمۡ اِنۡ عَلِمۡتُمۡ فِيۡهِمۡ خَيۡرًا‌‌ۖ وَّاٰتُوۡهُمۡ مِّنۡ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِىۡۤ اٰتٰٮكُمۡ‌ؕ
“اور جن کو نکاح کا مقدور نہ ہو وہ پاک دامنی کو اختیار کئے رہیں یہاں تک کہ خدا ان کو اپنے فضل سے غنی کردے۔ اور جو تمہاری ملکیت میں ہیں، تم سے مکاتبت چاہیں اگر تم ان میں (صلاحیت اور) نیکی پاؤ تو ان سے مکاتبت کرلو۔ اور خدا نے جو مال تم کو بخشا ہے اس میں سے ان کو بھی دو۔” (سورہ نور )
عربی زبان جاننے والے احباب سے میرا سوال ہے کہ عربی میں کیا “ أَوْ” کا ترجمہ بہر صورت “یا” ہی ہوگا یا اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔
یعنی اس آیت إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ کی روشنی میں “ مگر تمہاری بیویاں 'یا' وہ جو تمہارے داہنے ہاتھ کی ملکیت ہیں “
یا پھر
"مگر تمہاری بیویاں 'جو' (یا کوئی اور معانی ) تمہارے داہنے ہاتھ کی ملکیت ہیں"
بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ یہ آیت ازدواجی تعلقات کو کسی جائز قانونی دائرے میں لانے سے متعلق ہے۔ اگر موجودہ دور کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ مغرب میں بغیر نکاح یا میرج کانٹریکٹ کے لوگ برسوں ایک دوسرے کے ساتھ ریلیشن شپ میں رہتے ہیں۔ اور اس بات کا سب کو علم بھی ہوتا ہے۔ ان سے اولاد بھی پیدا ہوتی ہے۔ بظاہر ان کی حیثیت جنسی جوڑے (couple) یا زوج کی ہی ہوتی ہے لیکن یہ ان کے داہنے ہاتھ کی ملکیت یعنی which they rightfully possess کی قانونی کیٹیگری میں نہیں آتی ۔ یعنی خدا کے نزدیک یہ بھی لازم ہے کہ صرف درست اور جائز طریقے سے ہی ازدواجی بندھن میں بندھا جائے۔ ویسے بھی اگر میں غلط نہیں ہوں تو اس آیت میں صرف تانیث کےصیغہ کی طرف تخصیص نہیں ہے۔ spouses کے متعلق ایک عمومی بیان ہے۔ واللہ اعلم
 

ابن جمال

محفلین
یعنی تمام مذاہب ریپ کے حامی ہیں؟
لونڈیوں سے حق استمتاع ایک ضمنی بحث ہے، اصل مسئلہ غلامی کا ہے، آپ غلامی کے بارے میں اپنے خیالات واضح کیجئے کہ اس دور مین غلاموں کے ساتھ کیاکرناچاہئے تھا؟(۱)چاہے مخالفین ہمیں غلام بنالیں لیکن ہم اپنے مفتوحوں کو واپس آزاد کرکے بھیج دیتے۔(۲) سبھی کو قتل کردیتے کہ خس کم جہاں پاک(۳) کسی دوردراز جزیرے یا ویران جنگل میں چھوڑدیتے کہ اب جیسے ہواپنی زندگی بسرکرو،مرو یاجیئو،(۴)قید کردیتے اورسبھی کے خوراک ،پوشاک اوردیگرضروریات کا بوجھ حکومتی خزانہ پر ڈالتے(۵)یاپھر جنگ میں حصہ لینے والے سپاہیوں پر مفتوحین کو بانٹ دیتے کہ وہ ان کواپنے ساتھ رکھیں،ان سے خدمت لیں اوران کی ضروریات کی تکمیل کریں۔
واضح رہے کہ غلامی پر اعتراض کرنے والے عمومارومن ایمپائر ،امریکہ اوربرطانیہ یاپھر یوروپ مین غلامی کی رویات اور غلاموں سے وحشیانہ سلوک کو مد نظررکھتے ہیں اورپھر اسی نکتہ نظر سے اسلام میں غلامی کی روایات کاجائزہ لیتے ہیں، حالانکہ دونوں میں اتناہی فرق ہے جتناکہ زمین وآسمان میں۔
(۱) کیا رومن یاپھر امریکہ ویوروپ کے غلاموں کو اتنی آزادی ملی کہ وہ اپنی بادشاہت قائم کرسکیں، بادشاہ بن سکیں، اس کے بالمقابل اسلامی تاریخ دیکھیئے،آپ کوغلاموں کے خاندان سے کئی بادشاہ نظرآئیں گے،چاہے وہ ہندوستان مین خاندان غلاماں ہو،یاپھر مصر کے ممالیک
(۲)کیاپھر مغرب میں کوئی مثال ہے کہ غلاموں کو علم حاصل کرنے کی پوری آزادی دی گئی ہو اور وہ پھر علم میں اپنے فاتحین کے پیشوا بن گئے ہوں،اسلامی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے،بالخصوص ابتدائے اسلام کے تو بیشتر ائمہ اسی غلامی سے نکلے ہیں۔
(۳)غلاموں کےحق کے بارے میں اسلامی کی منضبط تعلیمات ہیں؟ قرآن میں،حدیث میں اورفقہ اسلامی میں غلاموں کے آقا کے ذمہ جوحقوق ہیں، وہ تفصیل سے بیان ہوئے ہیں کیاآپ جہاں ہیں، وہاں غلاموں کے حقوق کابھی کوئی تصور تھا؟
(۴) غلاموں کو اسلام میں آزاد کرنے کی ہرموقع سے ترغیب دی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام میں غلاموں کو آزاد کرنے کے اتنے زیادہ واقعات ہیں کہ ان کو شمار کرنابھی مشکل ہے۔
(۵) اسلام میں غلام بنانے کی کہیں ہدایت نہیں دی گئی ہے، صرف جواز ہے، اور وہ بھی صرف ایک صورت میں کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنایاجائے یاان کے ساتھ جوعورتیں ہوں ان کو بھی باندی بنایاجائے،اس کے علاوہ غلام بنانے کی اورکوئی شکل نہیں ہےاوریہ بھی اس لئے ہے کہ اس وقت کے حالات کا تقاضایہی تھا،اس پر بھی غلاموں سے حسن سلوک کی تاکید سے احادیث بھری پڑی ہیں، آنحضرت کا انتقال ہورہاتھا، جان کنی کے عالم میں بھی صرف یہی فرمایاکہ نماز اورغلاموں کو خیال کرو ، کیااس کی کوئی مثال دوسری جگہوں پر ہے؟
یہ تحریر بہت عجلت میں لکھی گئی ہے، انشاء اللہ تفصیلی تحریر بعد میں بشرط حیات وصحت
 

زیک

مسافر
قرآن کا موقف تو لونڈیوں کے متعلق انتہائی واضح ہے۔
‎وَلَا تُكۡرِهُوۡا فَتَيٰتِكُمۡ عَلَى الۡبِغَآءِ اِنۡ اَرَدۡنَ تَحَصُّنًا لِّ۔تَبۡتَغُوۡا عَرَضَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا‌ؕ وَمَنۡ يُّكۡرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنۡۢ بَعۡدِ اِكۡرَاهِهِنَّ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏
(سوره نور )
" اور اپنی لونڈیوں کو اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں تو دنیاوی زندگی کے فوائد حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرنا۔ اور جو ان کو مجبور کرے گا تو ان (بیچاریوں) کے مجبور کئے جانے کے بعد خدا بخشنے والا مہربان ہے۔"

وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّامَلَکَتْ اَیْمَا نُکُمْ مِّنْ فَتَیٰ۔تِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ
(النساء،)
’’اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان لونڈیوں سے نکاح کر لے جو تمہاری ملکیت میں ہیں۔‘‘

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت طیبہ سے تو ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جہاں بغیر نکاح کیے انہوں نے کسی جنگی قیدی عورت یا لونڈی سے کوئی جسمانی تعلق قائم کیا ہو یا بالجبر نکاح ہی کیا ہو۔
جس دین میں جنگ کے دوران بھی دشمن کی عبادت گاہوں، ان کے بچوں، بوڑھوں، کمزوروں، جانوروں، یہاں تک کہ درختوں اور فصلوں کو بھی کسی قسم کا نقصان نہ پہنچانے کی تلقین کی گئی ہو، وہاں مجبور قیدی عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی اجازت بعید از تصور ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسلامی تاریخ اور روایات کے بیان میں کہیں کہیں عرب معاشرت کو دین سے الگ کرنے کا کوئی خاص تکلف نہیں برتا گیا۔
اسلام میں جہاد کے مقاصد انتہائی اعلٰی و ارفع ہیں۔ جہاد کی فرضیت تو فتنہ و فساد کے خاتمے، ظلم و ستم کے قلع قمع اور عدل و انصاف کے بول بالا کے لیے ہے نہ کہ جیت اور طاقت کے زعم میں مفتوح اقوام کے کمزور طبقے کو یرغمال بنا لینا اور ان کی خواتین کا جنسی استحصال کرنا۔
ان بے گناہ قیدی عورتوں کا معاملہ تو ایک طرف رہا، حتٰی کہ وہ کفار جو میدان جنگ میں کھلم کھلا مسلمانوں کے ساتھ لڑے اور بعد میں گرفتار ہو ئے، اللہ تعالٰی نے تو ان کے ساتھ بھی نرمی کا معاملہ اختیارکرنے کا حکم دیا ہے۔
فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ذَلِكَ ( سورہ محمد)
"پھر اس کے بعد یا تو احسان کر کے چھوڑ دینا ہے یا فدیہ لے کر رہا کر دینا۔ یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔''

عام طور پر اس آیت کو بنیاد بنا کر لونڈیوں سے جسمانی تعلق کو جائز سمجھا جاتا ہے۔
‎إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ

مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ کا ترجمہ اگر داہنے ہاتھ کی ملکیت ہی ہے تو کیا یہ ضروری ہے اس سے مراد فقط لونڈی ہی ہو۔ اگر بالفرض لونڈی ہی ہے تو آزاد عورت کے مقابلے میں وہ بھی کسی نہ کسی قانون، قاعدے یا ایگریمنٹ کے تحت ہی زوجیت میں آئے گی۔ یہاں جبر کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔
قرآن میں کہیں بھی غلاموں اور لونڈیوں سے کسی بھی معاملے میں زور زبردستی کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ذیل کی آیت سے اس کی ایک مثال دیکھیے۔
وَلۡيَسۡتَعۡفِفِ الَّذِيۡنَ لَا يَجِدُوۡنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغۡنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ‌ؕ وَالَّذِيۡنَ يَبۡتَغُوۡنَ الۡ۔كِتٰبَ مِمَّا مَلَ۔كَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ فَكَاتِبُوۡهُمۡ اِنۡ عَلِمۡتُمۡ فِيۡهِمۡ خَيۡرًا‌‌ۖ وَّاٰتُوۡهُمۡ مِّنۡ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِىۡۤ اٰتٰٮكُمۡ‌ؕ
“اور جن کو نکاح کا مقدور نہ ہو وہ پاک دامنی کو اختیار کئے رہیں یہاں تک کہ خدا ان کو اپنے فضل سے غنی کردے۔ اور جو تمہاری ملکیت میں ہیں، تم سے مکاتبت چاہیں اگر تم ان میں (صلاحیت اور) نیکی پاؤ تو ان سے مکاتبت کرلو۔ اور خدا نے جو مال تم کو بخشا ہے اس میں سے ان کو بھی دو۔” (سورہ نور )
عربی زبان جاننے والے احباب سے میرا سوال ہے کہ عربی میں کیا “ أَوْ” کا ترجمہ بہر صورت “یا” ہی ہوگا یا اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔
یعنی اس آیت إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ کی روشنی میں “ مگر تمہاری بیویاں 'یا' وہ جو تمہارے داہنے ہاتھ کی ملکیت ہیں “
یا پھر
"مگر تمہاری بیویاں 'جو' (یا کوئی اور معانی ) تمہارے داہنے ہاتھ کی ملکیت ہیں"
بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ یہ آیت ازدواجی تعلقات کو کسی جائز قانونی دائرے میں لانے سے متعلق ہے۔ اگر موجودہ دور کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ مغرب میں بغیر نکاح یا میرج کانٹریکٹ کے لوگ برسوں ایک دوسرے کے ساتھ ریلیشن شپ میں رہتے ہیں۔ اور اس بات کا سب کو علم بھی ہوتا ہے۔ ان سے اولاد بھی پیدا ہوتی ہے۔ بظاہر ان کی حیثیت جنسی جوڑے (couple) یا زوج کی ہی ہوتی ہے لیکن یہ ان کے داہنے ہاتھ کی ملکیت یعنی which they rightfully possess کی قانونی کیٹیگری میں نہیں آتی ۔ یعنی خدا کے نزدیک یہ بھی لازم ہے کہ صرف درست اور جائز طریقے سے ہی ازدواجی بندھن میں بندھا جائے۔ ویسے بھی اگر میں غلط نہیں ہوں تو اس آیت میں صرف تانیث کےصیغہ کی طرف تخصیص نہیں ہے۔ spouses کے متعلق ایک عمومی بیان ہے۔ واللہ اعلم
آپکا استدلال اچھا ہے اور جدید۔ لیکن یہ مسلمانوں اور اسلام کی تیرہ سو سال کی روایات، فقہ اور تاریخ سے متصادم ہے۔ مستقبل کے لیے یہ توجیہہ اچھی ہے لیکن ماضی سے نبردآزما ہونا بھی لازم ہے
 

زیک

مسافر
لونڈیوں سے حق استمتاع ایک ضمنی بحث ہے، اصل مسئلہ غلامی کا ہے، آپ غلامی کے بارے میں اپنے خیالات واضح کیجئے کہ اس دور مین غلاموں کے ساتھ کیاکرناچاہئے تھا؟(۱)چاہے مخالفین ہمیں غلام بنالیں لیکن ہم اپنے مفتوحوں کو واپس آزاد کرکے بھیج دیتے۔(۲) سبھی کو قتل کردیتے کہ خس کم جہاں پاک(۳) کسی دوردراز جزیرے یا ویران جنگل میں چھوڑدیتے کہ اب جیسے ہواپنی زندگی بسرکرو،مرو یاجیئو،(۴)قید کردیتے اورسبھی کے خوراک ،پوشاک اوردیگرضروریات کا بوجھ حکومتی خزانہ پر ڈالتے(۵)یاپھر جنگ میں حصہ لینے والے سپاہیوں پر مفتوحین کو بانٹ دیتے کہ وہ ان کواپنے ساتھ رکھیں،ان سے خدمت لیں اوران کی ضروریات کی تکمیل کریں۔
واضح رہے کہ غلامی پر اعتراض کرنے والے عمومارومن ایمپائر ،امریکہ اوربرطانیہ یاپھر یوروپ مین غلامی کی رویات اور غلاموں سے وحشیانہ سلوک کو مد نظررکھتے ہیں اورپھر اسی نکتہ نظر سے اسلام میں غلامی کی روایات کاجائزہ لیتے ہیں، حالانکہ دونوں میں اتناہی فرق ہے جتناکہ زمین وآسمان میں۔
(۱) کیا رومن یاپھر امریکہ ویوروپ کے غلاموں کو اتنی آزادی ملی کہ وہ اپنی بادشاہت قائم کرسکیں، بادشاہ بن سکیں، اس کے بالمقابل اسلامی تاریخ دیکھیئے،آپ کوغلاموں کے خاندان سے کئی بادشاہ نظرآئیں گے،چاہے وہ ہندوستان مین خاندان غلاماں ہو،یاپھر مصر کے ممالیک
(۲)کیاپھر مغرب میں کوئی مثال ہے کہ غلاموں کو علم حاصل کرنے کی پوری آزادی دی گئی ہو اور وہ پھر علم میں اپنے فاتحین کے پیشوا بن گئے ہوں،اسلامی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے،بالخصوص ابتدائے اسلام کے تو بیشتر ائمہ اسی غلامی سے نکلے ہیں۔
(۳)غلاموں کےحق کے بارے میں اسلامی کی منضبط تعلیمات ہیں؟ قرآن میں،حدیث میں اورفقہ اسلامی میں غلاموں کے آقا کے ذمہ جوحقوق ہیں، وہ تفصیل سے بیان ہوئے ہیں کیاآپ جہاں ہیں، وہاں غلاموں کے حقوق کابھی کوئی تصور تھا؟
(۴) غلاموں کو اسلام میں آزاد کرنے کی ہرموقع سے ترغیب دی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام میں غلاموں کو آزاد کرنے کے اتنے زیادہ واقعات ہیں کہ ان کو شمار کرنابھی مشکل ہے۔
(۵) اسلام میں غلام بنانے کی کہیں ہدایت نہیں دی گئی ہے، صرف جواز ہے، اور وہ بھی صرف ایک صورت میں کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنایاجائے یاان کے ساتھ جوعورتیں ہوں ان کو بھی باندی بنایاجائے،اس کے علاوہ غلام بنانے کی اورکوئی شکل نہیں ہےاوریہ بھی اس لئے ہے کہ اس وقت کے حالات کا تقاضایہی تھا،اس پر بھی غلاموں سے حسن سلوک کی تاکید سے احادیث بھری پڑی ہیں، آنحضرت کا انتقال ہورہاتھا، جان کنی کے عالم میں بھی صرف یہی فرمایاکہ نماز اورغلاموں کو خیال کرو ، کیااس کی کوئی مثال دوسری جگہوں پر ہے؟
یہ تحریر بہت عجلت میں لکھی گئی ہے، انشاء اللہ تفصیلی تحریر بعد میں بشرط حیات وصحت
رومن غلامی کا عربوں اور مسلمانوں والی غلامی سے اتنا فرق نہیں جیسا آپ بنا رہے ہیں۔ امریکی غلامی اس سلسلے میں تقریباً منفرد حیثیت رکھتی ہے۔

آپ کا تمام مراسلہ apologia پر مشتمل ہے اور کہیں آپ نے غلامی کو برا نہیں کہا
 

ابن جمال

محفلین
رومن غلامی کا عربوں اور مسلمانوں والی غلامی سے اتنا فرق نہیں جیسا آپ بنا رہے ہیں۔ امریکی غلامی اس سلسلے میں تقریباً منفرد حیثیت رکھتی ہے۔
آپ کا تمام مراسلہ apologia پر مشتمل ہے اور کہیں آپ نے غلامی کو برا نہیں کہا
اگرمیری ذکرکردہ کوئی بات غلط ہے تواسے دلیل کے ساتھ غلط قراردیں، میں تسلیم کرلوں گا، آپ رومن امپائر یااس کو توسیع دے کرعیسائیت میں غلاموں کے حقوق پر حوالہ جات کے ساتھ تحریر لکھئے ،میں اسلام میں غلاموں کے حقوق پریااس کو توسیع دے کر اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ں غلاموں کے حقوق لکھتاہوں، قارئین پر اسی سے فرق واضح ہوجائے گاکہ دونوں میں کیااورکتنافرق ہے؟
غلامی کو اچھانہ میں نے کہاہے اورنہ کسی اورنے کہاہے،ہاں ایک دور میں غلامی کا رواج تھا، اس کے دورحالات اورظروف اس کے متقاضی تھے،لہذا وہ اس عہد میں ہوا، لیکن اب اس عہد میں اس عہد کے رواجوں پر تنقید کرناہی لازم ٹھہراتو پھرمعلوم اورنامعلوم تاریخ سبھی پرسنگ ملامت برساناپڑے گا،جب کہ اس کا نہ کوئی فائدہ ہےا ورنہ کوئی ضرورت،بلکہ یہ صرف بے وقت کی شہنائی اورراگنی ہوگی۔
دوسرے آپ نے اس کابھی جواب نہیں دیاکہ اس عہد میں مفتوحین کے ساتھ کیاکرناچاہئے تھا، میں نے پانچ چھ شقیں ذکر کی تھیں، اس کو آپ نے سرے سے نظرانداز کردیا،جب کہ اس کے جواب پر ہی غلامی کے مسئلہ کی حقیقت مزید واضح ہونی تھی۔
اگریہ بحث غلامی کی کلیئر ہوجائے توپھر آگے چل کر ہم باندی سے حق استمتاع پر بھی بات کریں گے۔
 

ابن جمال

محفلین
ریپ کہیئے کہ یہ انجوائمنٹ نہیں بلکہ بالجبر ہے
لگتاہے کہ آپ نے کافی دیر بعد لغت سے رجوع کرکے استمتاع کے معنی سمجھے ہیں، مبارک ہو!
ظاہر سی بات ہے کہ میں آپ کے نقطۂ نظر کا پابند نہیں،اوراس کا عکس بھی درست ہے یعنی آپ میری رائے کے پابند نہیں، آپ اگر باندی سے استمتاع کو ریپ سمجھتے ہیں تویہ آپ کا نکتہ نظرہے، میرانہیں ،آج کے دور میں تو بہت سے ملکوں میں بھی بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کو ریپ سمجھاجاتاہے؟ظاہرسی بات ہے کہ ان ملکوں کےقانون سازوں اور معزز جج حضرات کے پاس بھی ’’قانونی‘‘دلائل ہوں گے؛ لیکن بہت سے ممالک وہ بھی ہیں، جہاں اسے ریپ تسلیم نہیں کیاجاتا، ہمیں ان کے نکتہ نظرکوبھی ’’عزت‘‘دینی چاہئے،اعتدال یاروشن خیالی کے نام پر ایک طرفہ نکتہ نظرپر اصرار پر بسااوقات’’شدت پسندی‘‘کی ہی دوسری شکل ہوتی ہے۔
 

زیک

مسافر
لگتاہے کہ آپ نے کافی دیر بعد لغت سے رجوع کرکے استمتاع کے معنی سمجھے ہیں، مبارک ہو!
ظاہر سی بات ہے کہ میں آپ کے نقطۂ نظر کا پابند نہیں،اوراس کا عکس بھی درست ہے یعنی آپ میری رائے کے پابند نہیں، آپ اگر باندی سے استمتاع کو ریپ سمجھتے ہیں تویہ آپ کا نکتہ نظرہے، میرانہیں ،آج کے دور میں تو بہت سے ملکوں میں بھی بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کو ریپ سمجھاجاتاہے؟ظاہرسی بات ہے کہ ان ملکوں کےقانون سازوں اور معزز جج حضرات کے پاس بھی ’’قانونی‘‘دلائل ہوں گے؛ لیکن بہت سے ممالک وہ بھی ہیں، جہاں اسے ریپ تسلیم نہیں کیاجاتا، ہمیں ان کے نکتہ نظرکوبھی ’’عزت‘‘دینی چاہئے،اعتدال یاروشن خیالی کے نام پر ایک طرفہ نکتہ نظرپر اصرار پر بسااوقات’’شدت پسندی‘‘کی ہی دوسری شکل ہوتی ہے۔
چلیں اب لونڈیوں سے زنا بالجبر کو برا کہنا بھی شدت پسندی ہو گئی
 
Top