ٓ
ملک
الف کے پاس بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کو ریپ قرار دینے کے کچھ دلائل ہیں۔
ملک
ب کے پاس بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کو ریپ تسلیم نہ کرنے کے دلائل ہیں۔
اس لیے دونوں کے دلائل حیثیت میں برابر ہیں، چنانچہ دونوں کو برابر عزت دینی چاہیے۔
کلاسک
False Equivalency کا کیس نظر آ رہا ہے۔
یہ کلاسک
False Equivalency کا کیس بالٓکل نہیں ہے۔
پارٹی الف کے پاس قرآن سے دلائیل ہیں کہ عقد النکاح یعنی نکاح کا کنٹریکٹ کیا جائے، جس کی ٓبنیادی شرائط، مہر کی ادائیگی، اور عورت کو محصنہ بنا کر رکھنا یعنی مرد کی دائمی ذمہ داری عورت کو باعٓزت زنگی فراہم کرنا ہے۔
جب کہ پارٹی ب نے کچھ ایسی کتابوں سے ریفرنس فراہم کیا ہے جن کے لئے کسی بھی نبی نے یا اللہ تعالی نے حکم نہیں دیا کہ ان کتابوں سے قآنون سازی کرو۔
اسی طرح ملازمہ ، کنیز یا زر خرید عورتوں سے بھی زنا بالجبر کرنے کی مکمل ممانعت قرآن حکیم نے فراہم کی۔
زیک نے بہت ہٓی اچھا نکتہ اٹھایا ہے کہ اللہ تعالی کے فرمان ، قرآن حکیم میں لکھا کچھ ہے اور ہو کچھ اور رہا ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کتب نے ایسے رواجوں کو جنمٓ دیا جو نا تو قرآن حکیم سے ثابت ہیں اور نا ہی، کسی منطق پر پورے اترتے ہیں۔ٓٓ
قرآن حکیم نے ، جنگ میں ہاتھ آئی ہوئی شادی شدہ بے آسرا، یعنی یتیم، خواتین کے بارے میں حکم دیا کہ ، ان خواتین سے عقد النکاح (شادی) کی جاسکتی ہے، لیکن محصنہ بنا کر رکھنا ذمہ داری ہے۔ اس اجازت سے یہ بالکل نہیں سمجھا جائے کہ ان کی مرضی کے بغیر ٓان سے شادی کی جاسکتی ہے۔ یہ حکم بھی صاف ہے کہ خواتین کو ان کی مرضی کے جوڑے سے شادی کرنے سے نا روکو۔
ریفرٓنس:
عورت کی مرضی کے بغیر کوئی شادی نہیں ۔ عورتوں کو ان کے زوج (جوڑے ) سے شادی کرنے سے نا روکو۔ٓ
2:232 : اور جب طلاق دے دو تم عورتوں کو پھر پوری کرلیں وہ اپنی عدت تو
مت روکو انہیں اس سے کہ نکاح کرلیں وہ اپنے (سابقہ یا دوسرے) شوہروں سے جبکہ راضی ہوں وہ دونوں باہم (نکاح کرنے پر) جائز طریقے سے اس حکم کے ذریعہ سے نصیت کی جاتی ہے اس کو جو رکھتا ہے تم میں سے ایمان اللہ پر اور روز آخرت پر۔ یہی طریقہ ہے نہایت شائستہ تمہارے لیے اور پاکیزہ۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
عورتوں کے مہر ادا کردو
4:4 - اورٓ، پھر اگر وہ اس (مَہر) میں سے کچھ تمہارے لئے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تب اسے (اپنے لئے) سازگار اور خوشگوار سمجھ کر کھاؤ
بے آسرا،ٓ یتیموں ، کنیزوں یا باندیوں کی شادیاں کردو۔
4:6 ا
ور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حُسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو، اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں (اس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے، اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو، اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہے
عورتوں پر زبردستی قٓبضہ نہیں کرو
4:19 -
اے ایمان والو! تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ، اور انہیں اس غرض سے نہ روک رکھو کہ جو مال تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ (واپس) لے جاؤ سوائے اس کے کہ وہ کھلی بدکاری کی مرتکب ہوں، اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو، پھر اگر تم انہیں نا پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دے
شادی کرو دائمی محصنہ بنا کر رکھنے کے لئے۔ ٓشوہر دار ، قیدی بے آسرا عورتوں سے مہر کے عوض ٓاور رضامندی کے بعدشادی کا کنٹریکٹ کیا جاسکتا ہے،
4:24 - اور حرام ہیں شوہر دار عورتیں مگروہ جو تمہاری ملک میں آجائیں یہ اللہ کا نوشتہ ہے تم پر اور ان کے سوا جو رہیں وہ تمہیں حلال ہیں
کہ اپنے مالوں کے عوض تلاش کرو محصنات بنانے کے کئے ناکہ شہوت رانی کے لئے تو جن عورتوں کو نکاح میں لانا چاہو ان کے بندھے ہوئے مہر انہیں دو، اور قرار داد کے بعد اگر تمہارے آپس میں کچھ رضامندی ہوجاوے تو اس میں گناہ نہیں بیشک اللہ علم و حکمت والا ہے
آزاد عورتوں کی طرح کنیزوں ، باندیوں سے نکاح کرو
4:25
اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کرلے جو تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آجائیں پھر اگر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے
ٓ
اپنی کنیزوں اور باندیوں کی شادیاں کردیا کرو۔
اور (اے پیغمبر!) لوگ آپ سے (یتیم) عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ آپ فرما دیں کہ اللہ تمہیں ان کے بارے میں حکم دیتا ہے اور جو حکم تم کو (پہلے سے) کتابِ مجید میں سنایا جا رہا ہے (وہ بھی) ان یتیم عورتوں ہی کے بارے میں ہے جنہیں تم وہ (حقوق) نہیں دیتے جو ان کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اور چاہتے ہو کہ (ان کا مال قبضے میں لینے کی خاطر) ان کے ساتھ خود نکاح کر لو اور نیز بے بس بچوں کے بارے میں (بھی حکم) ہے کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف پر قائم رہا کرو، اور تم جو بھلائی بھی کروگے تو بیشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے
ان وصاف اور واضح آیات کی روشنی میں
پہلے دیکھئے کہ لفظ استمتع کس کی روٹ متع ہے کن معانی میں استعمال ہوا ہے؟
ان 65 آیات میں جن میں لفظ متع ٓاستعمال ہوا ہے، تمام کے تمام مترجمین نے اس کے معانے فائیدہ اٹھانے کے کئے ہیں۔
اب اس آیت کو دیکھئے جس سے شیطان کے بہکاوے میں آئے ہوئے لوگ "متع" کی دلیل لاتے ہیں۔
4:24 وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم
مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا
اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں
تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے
عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے
ٓیہ وہ آیت ہے جس کے لفظ " اسْتَمْتَعْتُم " سے شیاطین کے پیرو کار عارضی نکاح یعنی "متع" کو جائز قرار دیتے ہی۔ ٓجبکہ یہ آیت واضح طور پر شہوت رانی سے منع کرتی ہے اور عورتوں کو مسافحین (وقتی شہوت رانی کے لئے بیوی) بنانے سے منع کرتی ہے، اور حکم اسی آیت میں موجود ہے کہ ان راضی ٓہوجانے والی عورتوں کو پاک دامن رہتے ہوئے دائمی عذ بخشی جائے یعنی محصنین بنایا جائے۔
اب واپس آتے ہیں زیک کے نکتے کی طرف، تاریخ ہی نہیں موجودہ واقعات گواہ ہیں کہ عملی طور پر ایسآ نہیں ہوتا رہا ہے۔ اس کی وجہ بہت ہی سادہ ہے قرآن حکیم کی حیلوں بہانوں سے تکفیر اور کتب روایات کی شیطانی خیالات، نظریات اور معمولات کو رواج دینے والی کہانیاں۔
ایسا کس طرح ممکن ہے کہ جو قرآن حکیم ، رسول اکرم کی زبان سے ادا ہوا، وہ تو عورتوں کو معاشرے میں عزت بخشتا ہے اور جو معمولات مسلمانوں نے حدیث کے نام پر اپنائے ، اس میں عورت کی بے عزتی، تذلیل، بے وقعتی اور بے حرمتی کو فروغ دیا گیا۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ رسول اکرم کے اقوآل و اعمال ، قرآن حکیم کی تکفیر کرتے ہوں؟؟
2:67 : موسی علیہ السلام کی دعا:
قَالَ أَعُوذُ بِاللّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اللہ کی پناہ مانگتا ہوں (اس سے) کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں
والسلام