عراق میں نکاحِ متعہ: ’کتنی بار شادی ہوئی اب صحیح تعداد بھی یاد نہیں‘

محمد سعد

محفلین
آج کے دور میں تو بہت سے ملکوں میں بھی بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کو ریپ سمجھاجاتاہے؟ظاہرسی بات ہے کہ ان ملکوں کےقانون سازوں اور معزز جج حضرات کے پاس بھی ’’قانونی‘‘دلائل ہوں گے؛ لیکن بہت سے ممالک وہ بھی ہیں، جہاں اسے ریپ تسلیم نہیں کیاجاتا، ہمیں ان کے نکتہ نظرکوبھی ’’عزت‘‘دینی چاہئے
ملک الف کے پاس بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کو ریپ قرار دینے کے کچھ دلائل ہیں۔
ملک ب کے پاس بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کو ریپ تسلیم نہ کرنے کے دلائل ہیں۔
اس لیے دونوں کے دلائل حیثیت میں برابر ہیں، چنانچہ دونوں کو برابر عزت دینی چاہیے۔
کلاسک False Equivalency کا کیس نظر آ رہا ہے۔
 

زیک

مسافر
آج کے دور میں تو بہت سے ملکوں میں بھی بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کو ریپ سمجھاجاتاہے؟ظاہرسی بات ہے کہ ان ملکوں کےقانون سازوں اور معزز جج حضرات کے پاس بھی ’’قانونی‘‘دلائل ہوں گے؛ لیکن بہت سے ممالک وہ بھی ہیں، جہاں اسے ریپ تسلیم نہیں کیاجاتا، ہمیں ان کے نکتہ نظرکوبھی ’’عزت‘‘دینی چاہئے،اعتدال یاروشن خیالی کے نام پر ایک طرفہ نکتہ نظرپر اصرار پر بسااوقات’’شدت پسندی‘‘کی ہی دوسری شکل ہوتی ہے۔
بیوی کے معاملے میں تو آپ یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ نکاح میں اس کی مرضی شامل تھی لیکن لونڈی کی زندگی میں تو consent کی رمق بھی شامل نہیں۔
 

ابن جمال

محفلین
ملک الف کے پاس بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کو ریپ قرار دینے کے کچھ دلائل ہیں۔
ملک ب کے پاس بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کو ریپ تسلیم نہ کرنے کے دلائل ہیں۔
اس لیے دونوں کے دلائل حیثیت میں برابر ہیں، چنانچہ دونوں کو برابر عزت دینی چاہیے۔
کلاسک False Equivalency کا کیس نظر آ رہا ہے۔
منطق کی زبان میں کہیں تو آپ نے مقدمہ صحیح قائم کیاہے لیکن نتیجہ غلط نکالاہے، ملک الف اورب کے پاس اگردلائل ہیں تواس سے یہ کہاں لازم آیاکہ دونوں کے دلائل برابر ہیں، ہم سبھی جانتے ہیں کہ کافر کیلئے اپنے کفر پر بھی کچھ دلائل ہیں، ایک دہریہ اورملحد کے پاس بھی اپنے نظریہ کیلئے کچھ دلائل ہوتے ہیں لیکن کیاوہ اللہ کے وجود اور ایمان کے دلائل کے برابر اورحیثیت کے ہیں، آپ نے جونتیجہ نکالاہے،اسے دیکھ کر عربی کی ایک مثال یاد آتی ہے، تاویل القول بمالایرضی بہ قائلہ کہ کسی بات سے وہ نتیجہ نکالنا جوکہنے والے کے منشا اورمراد کے خلاف ہو۔
 

ابن جمال

محفلین
بیوی کے معاملے میں تو آپ یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ نکاح میں اس کی مرضی شامل تھی لیکن لونڈی کی زندگی میں تو consent کی رمق بھی شامل نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جن بنیاد اوردلائل پر آپ باندی سے استمتاع کو غلط کہتے ہیں بعینہ انہی بنیادوں پر بیوی سے جبری استمتاع کو بھی ریپ کہاجاتاہے اورجن ملکوں نے اس صورت میں جرم وسزا کا قانون بنایاہے، ان کے دلائل بعینہ وہی ہیں جو باندی سے اس کی مرضی کے بغیر استمتاع کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔
میں نے پہلے بھی کہاہے کہ یہ ایک ضمنی بحث ہے اصل بحث غلامی کی ہے،اس پر بات ہوگی تو یہ باندی سے استمتاع والا مسئلہ بھی انشاء اللہ حل ہوجائے گا۔
 

زیک

مسافر
حقیقت یہ ہے کہ جن بنیاد اوردلائل پر آپ باندی سے استمتاع کو غلط کہتے ہیں بعینہ انہی بنیادوں پر بیوی سے جبری استمتاع کو بھی ریپ کہاجاتاہے اورجن ملکوں نے اس صورت میں جرم وسزا کا قانون بنایاہے، ان کے دلائل بعینہ وہی ہیں جو باندی سے اس کی مرضی کے بغیر استمتاع کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔
آپ خوب انجوائے کریں پھر

میں نے پہلے بھی کہاہے کہ یہ ایک ضمنی بحث ہے اصل بحث غلامی کی ہے،اس پر بات ہوگی تو یہ باندی سے استمتاع والا مسئلہ بھی انشاء اللہ حل ہوجائے گا۔
چلیں ماضی کے ریپسٹس کا ذکر چھوڑتے ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ اگر مستقبل میں کوئی مسلمان لیڈر یا حکمران غلام رکھنا شروع کر دیتا ہے تو وہ غلط ہو گا یا صحیح؟ کیا وہ بھی لونڈیوں کو ریپ کر سکتا ہے؟ کیا غلامی کو آئندہ کے لئے حرام قرار دیا جا سکتا ہے؟
 

محمد سعد

محفلین
منطق کی زبان میں کہیں تو آپ نے مقدمہ صحیح قائم کیاہے لیکن نتیجہ غلط نکالاہے، ملک الف اورب کے پاس اگردلائل ہیں تواس سے یہ کہاں لازم آیاکہ دونوں کے دلائل برابر ہیں، ہم سبھی جانتے ہیں کہ کافر کیلئے اپنے کفر پر بھی کچھ دلائل ہیں، ایک دہریہ اورملحد کے پاس بھی اپنے نظریہ کیلئے کچھ دلائل ہوتے ہیں لیکن کیاوہ اللہ کے وجود اور ایمان کے دلائل کے برابر اورحیثیت کے ہیں، آپ نے جونتیجہ نکالاہے،اسے دیکھ کر عربی کی ایک مثال یاد آتی ہے، تاویل القول بمالایرضی بہ قائلہ کہ کسی بات سے وہ نتیجہ نکالنا جوکہنے والے کے منشا اورمراد کے خلاف ہو۔
حضرت، میں نے تو آپ ہی کے ان الفاظ کا "ترجمہ" کرنے کی کوشش کی تھی۔
آج کے دور میں تو بہت سے ملکوں میں بھی بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کو ریپ سمجھاجاتاہے؟ظاہرسی بات ہے کہ ان ملکوں کےقانون سازوں اور معزز جج حضرات کے پاس بھی ’’قانونی‘‘دلائل ہوں گے؛ لیکن بہت سے ممالک وہ بھی ہیں، جہاں اسے ریپ تسلیم نہیں کیاجاتا، ہمیں ان کے نکتہ نظرکوبھی ’’عزت‘‘دینی چاہئے
اور اس جانب توجہ دلائی تھی کہ اس کا سٹرکچر کچھ اس طرح کا بنتا ہے جو کہ false equivalency کا کیس بن جاتا ہے۔
ملک الف کے پاس بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کو ریپ قرار دینے کے کچھ دلائل ہیں۔
ملک ب کے پاس بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کو ریپ تسلیم نہ کرنے کے دلائل ہیں۔
اس لیے دونوں کے دلائل حیثیت میں برابر ہیں، چنانچہ دونوں کو برابر عزت دینی چاہیے۔
کلاسک False Equivalency کا کیس نظر آ رہا ہے۔
اگر آپ کی بات سمجھنے میں مجھ سے غلطی ہوئی ہو تو معذرت چاہتا ہوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
چلیں ماضی کے ریپسٹس کا ذکر چھوڑتے ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ اگر مستقبل میں کوئی مسلمان لیڈر یا حکمران غلام رکھنا شروع کر دیتا ہے تو وہ غلط ہو گا یا صحیح؟ کیا وہ بھی لونڈیوں کو ریپ کر سکتا ہے؟ کیا غلامی کو آئندہ کے لئے حرام قرار دیا جا سکتا ہے؟
مستقبل؟ یہی سب کچھ تو ابھی کچھ سال قبل ہوا ہے۔
I was an Isis sex slave. I tell my story because it is the best weapon I have | Nadia Murad
 
ٓ
ملک الف کے پاس بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کو ریپ قرار دینے کے کچھ دلائل ہیں۔
ملک ب کے پاس بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کو ریپ تسلیم نہ کرنے کے دلائل ہیں۔
اس لیے دونوں کے دلائل حیثیت میں برابر ہیں، چنانچہ دونوں کو برابر عزت دینی چاہیے۔
کلاسک False Equivalency کا کیس نظر آ رہا ہے۔

یہ کلاسک False Equivalency کا کیس بالٓکل نہیں ہے۔
پارٹی الف کے پاس قرآن سے دلائیل ہیں کہ عقد النکاح یعنی نکاح کا کنٹریکٹ کیا جائے، جس کی ٓبنیادی شرائط، مہر کی ادائیگی، اور عورت کو محصنہ بنا کر رکھنا یعنی مرد کی دائمی ذمہ داری عورت کو باعٓزت زنگی فراہم کرنا ہے۔

جب کہ پارٹی ب نے کچھ ایسی کتابوں سے ریفرنس فراہم کیا ہے جن کے لئے کسی بھی نبی نے یا اللہ تعالی نے حکم نہیں دیا کہ ان کتابوں سے قآنون سازی کرو۔

اسی طرح ملازمہ ، کنیز یا زر خرید عورتوں سے بھی زنا بالجبر کرنے کی مکمل ممانعت قرآن حکیم نے فراہم کی۔

زیک نے بہت ہٓی اچھا نکتہ اٹھایا ہے کہ اللہ تعالی کے فرمان ، قرآن حکیم میں لکھا کچھ ہے اور ہو کچھ اور رہا ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کتب نے ایسے رواجوں کو جنمٓ دیا جو نا تو قرآن حکیم سے ثابت ہیں اور نا ہی، کسی منطق پر پورے اترتے ہیں۔ٓٓ

قرآن حکیم نے ، جنگ میں ہاتھ آئی ہوئی شادی شدہ بے آسرا، یعنی یتیم، خواتین کے بارے میں حکم دیا کہ ، ان خواتین سے عقد النکاح (شادی) کی جاسکتی ہے، لیکن محصنہ بنا کر رکھنا ذمہ داری ہے۔ اس اجازت سے یہ بالکل نہیں سمجھا جائے کہ ان کی مرضی کے بغیر ٓان سے شادی کی جاسکتی ہے۔ یہ حکم بھی صاف ہے کہ خواتین کو ان کی مرضی کے جوڑے سے شادی کرنے سے نا روکو۔


ریفرٓنس:
عورت کی مرضی کے بغیر کوئی شادی نہیں ۔ عورتوں کو ان کے زوج (جوڑے ) سے شادی کرنے سے نا روکو۔ٓ
2:232 : اور جب طلاق دے دو تم عورتوں کو پھر پوری کرلیں وہ اپنی عدت تو مت روکو انہیں اس سے کہ نکاح کرلیں وہ اپنے (سابقہ یا دوسرے) شوہروں سے جبکہ راضی ہوں وہ دونوں باہم (نکاح کرنے پر) جائز طریقے سے اس حکم کے ذریعہ سے نصیت کی جاتی ہے اس کو جو رکھتا ہے تم میں سے ایمان اللہ پر اور روز آخرت پر۔ یہی طریقہ ہے نہایت شائستہ تمہارے لیے اور پاکیزہ۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

عورتوں کے مہر ادا کردو
4:4 - اورٓ، پھر اگر وہ اس (مَہر) میں سے کچھ تمہارے لئے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تب اسے (اپنے لئے) سازگار اور خوشگوار سمجھ کر کھاؤ

بے آسرا،ٓ یتیموں ، کنیزوں یا باندیوں کی شادیاں کردو۔
4:6 اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حُسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو، اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں (اس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے، اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو، اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہے


عورتوں پر زبردستی قٓبضہ نہیں کرو
4:19 - اے ایمان والو! تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ، اور انہیں اس غرض سے نہ روک رکھو کہ جو مال تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ (واپس) لے جاؤ سوائے اس کے کہ وہ کھلی بدکاری کی مرتکب ہوں، اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو، پھر اگر تم انہیں نا پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دے

شادی کرو دائمی محصنہ بنا کر رکھنے کے لئے۔ ٓشوہر دار ، قیدی بے آسرا عورتوں سے مہر کے عوض ٓاور رضامندی کے بعدشادی کا کنٹریکٹ کیا جاسکتا ہے،
4:24 - اور حرام ہیں شوہر دار عورتیں مگروہ جو تمہاری ملک میں آجائیں یہ اللہ کا نوشتہ ہے تم پر اور ان کے سوا جو رہیں وہ تمہیں حلال ہیں کہ اپنے مالوں کے عوض تلاش کرو محصنات بنانے کے کئے ناکہ شہوت رانی کے لئے تو جن عورتوں کو نکاح میں لانا چاہو ان کے بندھے ہوئے مہر انہیں دو، اور قرار داد کے بعد اگر تمہارے آپس میں کچھ رضامندی ہوجاوے تو اس میں گناہ نہیں بیشک اللہ علم و حکمت والا ہے

آزاد عورتوں کی طرح کنیزوں ، باندیوں سے نکاح کرو
4:25 اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کرلے جو تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آجائیں پھر اگر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے
ٓ
اپنی کنیزوں اور باندیوں کی شادیاں کردیا کرو۔
اور (اے پیغمبر!) لوگ آپ سے (یتیم) عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ آپ فرما دیں کہ اللہ تمہیں ان کے بارے میں حکم دیتا ہے اور جو حکم تم کو (پہلے سے) کتابِ مجید میں سنایا جا رہا ہے (وہ بھی) ان یتیم عورتوں ہی کے بارے میں ہے جنہیں تم وہ (حقوق) نہیں دیتے جو ان کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اور چاہتے ہو کہ (ان کا مال قبضے میں لینے کی خاطر) ان کے ساتھ خود نکاح کر لو اور نیز بے بس بچوں کے بارے میں (بھی حکم) ہے کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف پر قائم رہا کرو، اور تم جو بھلائی بھی کروگے تو بیشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے

ان وصاف اور واضح آیات کی روشنی میں پہلے دیکھئے کہ لفظ استمتع کس کی روٹ متع ہے کن معانی میں استعمال ہوا ہے؟

ان 65 آیات میں جن میں لفظ متع ٓاستعمال ہوا ہے، تمام کے تمام مترجمین نے اس کے معانے فائیدہ اٹھانے کے کئے ہیں۔

اب اس آیت کو دیکھئے جس سے شیطان کے بہکاوے میں آئے ہوئے لوگ "متع" کی دلیل لاتے ہیں۔
4:24 وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے

ٓیہ وہ آیت ہے جس کے لفظ " اسْتَمْتَعْتُم " سے شیاطین کے پیرو کار عارضی نکاح یعنی "متع" کو جائز قرار دیتے ہی۔ ٓجبکہ یہ آیت واضح طور پر شہوت رانی سے منع کرتی ہے اور عورتوں کو مسافحین (وقتی شہوت رانی کے لئے بیوی) بنانے سے منع کرتی ہے، اور حکم اسی آیت میں موجود ہے کہ ان راضی ٓہوجانے والی عورتوں کو پاک دامن رہتے ہوئے دائمی عذ بخشی جائے یعنی محصنین بنایا جائے۔


اب واپس آتے ہیں زیک کے نکتے کی طرف، تاریخ ہی نہیں موجودہ واقعات گواہ ہیں کہ عملی طور پر ایسآ نہیں ہوتا رہا ہے۔ اس کی وجہ بہت ہی سادہ ہے قرآن حکیم کی حیلوں بہانوں سے تکفیر اور کتب روایات کی شیطانی خیالات، نظریات اور معمولات کو رواج دینے والی کہانیاں۔

ایسا کس طرح ممکن ہے کہ جو قرآن حکیم ، رسول اکرم کی زبان سے ادا ہوا، وہ تو عورتوں کو معاشرے میں عزت بخشتا ہے اور جو معمولات مسلمانوں نے حدیث کے نام پر اپنائے ، اس میں عورت کی بے عزتی، تذلیل، بے وقعتی اور بے حرمتی کو فروغ دیا گیا۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ رسول اکرم کے اقوآل و اعمال ، قرآن حکیم کی تکفیر کرتے ہوں؟؟

2:67 : موسی علیہ السلام کی دعا: قَالَ أَعُوذُ بِاللّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ

موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اللہ کی پناہ مانگتا ہوں (اس سے) کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں

والسلام
 

سین خے

محفلین

اس طرح کی خبروں کی جانب ہمارے یہاں کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے۔

اگر غلامی کے سلسلے میں زیادہ تر علماء اور فقہاء کے دلائل پڑھے جائیں تو وہ غلامی کے حق میں ہی دیتے نظر آتے ہیں۔ کچھ ہیں جو خلاف دیتے ہیں پر وہ کم ہیں۔ اس پر پچھلے سال محفل پر کافی طویل گفتگو چلی تھی۔

مسئلہ سارا یہ ہے کہ پہلے اگر غلامی جائز رکھی گئی تھی اور اس کے لئے جو بھی مجبوریاں تھیں تو اب تو وہ نہیں رہی ہیں۔ اس لئے کھلے الفاظ میں غلامی کی مذمت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنا چاہئے۔

یہ ایک پیپر کچھ دنوں پہلے ملا تھا۔ سوچا تھا کہ غلامی پر جو لڑیاں تھیں ان میں سے ہی کسی میں شئیر کر دوں گی۔ پر اب یہاں پر بات چل پڑی ہے تو یہیں کئے دے رہی ہوں۔

Does Islam permit sex with slaves

مصنف جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں استاد ہیں۔
 

ابن جمال

محفلین
آپ خوب انجوائے کریں پھر


چلیں ماضی کے ریپسٹس کا ذکر چھوڑتے ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ اگر مستقبل میں کوئی مسلمان لیڈر یا حکمران غلام رکھنا شروع کر دیتا ہے تو وہ غلط ہو گا یا صحیح؟ کیا وہ بھی لونڈیوں کو ریپ کر سکتا ہے؟ کیا غلامی کو آئندہ کے لئے حرام قرار دیا جا سکتا ہے؟
مستقبل کاچونکہ ماضی سےگہرا ربط اوررشتہ ہوتاہے لہذا اگرہم غلامی پر بات کریں توماضی اورمستقبل دونوں کا جھگڑا نمٹ جائے گا۔
 
جو مرضی ہو جائے یہ اسلامی بھائی غلامی کے خلاف ایک لفظ نہیں بولیں گے
میں آپ سے سو فی صد متفق ہوں۔ قرآن حکیم کسی طور بھی غلامی کی ترویج نہیں کرتا ، کیا کوئی برٓادر محترم قرآن حکیٓم سے وہ آیات پیش کرسکتے ہیں جو غلامی کو رواج دیتی ہوں۔ قرآن حکیم غلامی کا تذکرہ ضرور کرتا ہے لیکن واضح حکم دیتا ہے کہ کس طرح غلامی کو ختم کیا جائے۔

اللہ کا فرمان قرآن حکیم ، ٓغلامی سے نجات بہترین طریقے سے دیتا ہے۔ کہ
1- غلام مردوں سے شادی کرلو، مساوات ۔
2:221 - اور تم مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح مت کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور بیشک مسلمان لونڈی (آزاد) مشرک عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلی ہی لگے، اور (مسلمان عورتوں کا) مشرک مردوں سے بھی نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور یقیناً مشرک مرد سے مؤمن غلام بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلا ہی لگے، وہ (کافر اور مشرک) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، اور اﷲ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور اپنی آیتیں لوگوں کے لئے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں


ٓغلام کو بلا شرط آزاد کر دیجئے اور ان کو ٓکچھ نا کچھ ادا بھی کیجئے۔
24:33 اور چاہیے کہ پاک دامن رہیں وہ جو نکاح کی توفیق نہیں رکھتے یہاں تک کہ الله انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے اور تمہارے غلاموں میں سے جو لوگ مال دے کر آزادی کی تحریر چاہیں تو انہیں لکھ دو بشرطیکہ ان میں بہتری کے آثار پاؤ اور انہیں الله کے مال میں سے دو جو اس نے تمہیں دیا ہے اور تمہاری لونڈیاں جو پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدہ کی غرض سے زنا پر مجبور نہ کرو اور جو انہیں مجبور کرے گا تو الله ان کے مجبور ہونے کے بعد بخشنے والا مہربان ہے


والسلام
 

محمد سعد

محفلین
یہ کلاسک False Equivalency کا کیس بالٓکل نہیں ہے۔
شاید میں اپنی بات واضح نہیں کر سکا۔ میں جس جملے کا اقتباس لے رہا ہوں، اس کے حوالے سے کہہ رہا ہوں کہ محض اس لیے کہ دو معاشرے کسی سوچ کے تحت اپنے اپنے دلائل پر پہنچے ہیں، ان دلائل کو برابر "عزت" دینا فالس ایکویلنسی یعنی ایک غلط مساوات ہے۔
عین ممکن ہے کہ جس جملے کا میں نے اقتباس لیا، لکھنے والے کا اصل مطلب کچھ اور ہو، جیسا کہ ان کے بعد کے مراسلے سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ بھی دونوں کو برابر نہیں سمجھتے۔
آپ کے تبصرے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ دونوں کو برابر وزن نہیں دیا جا سکتا۔
 

ابن جمال

محفلین
جو مرضی ہو جائے یہ اسلامی بھائی غلامی کے خلاف ایک لفظ نہیں بولیں گے
غلامی پر بحث کرنے سے آپ کو کیادقت ہے، یہ سمجھنا میرے لئے بہت دشوار ہے، اگرآپ غلامی کی ایک شق باندی سے استمتاع پر سوال کھڑے کریں گے تو ظاہرسی بات ہے جو اس بحث کی جڑ ہے یعنی غلامی ،اس پر بھی بات کرنا ضروری ہوجاتاہے۔
غلامی کے خلاف بولنے سے آپ کی مراد کیاہے وہ بھی المعنی فی بطن الشاعر کی طرح ہے،کیاہم نفس غلامی کوبراکہیں(اورظاہرسی بات ہے کہ میں نے قبل ازیں کہیں ایسانہیں کہاکہ میں غلامی کی تائید کرتاہوں، بلکہ میں نے اس کو ایک زمانی ضرورت اورتقاضابتایااوریہ بھی کہی اسلام کا بھی منشایہی ہے کہ غلامی ختم ہو، یہی وجہ ہے کہ اس نے متعدد پیرایے میں غلاموںکو آزاد کرنے کی ترغیب دی ، زکوٰۃ کا ایک مد ہی غلاموںکو اپنی غلامی سے چھٹکارہ کیلئے رقم کے حصول میں مدد کاہے)، یاپھر اسلام نے جوغلامی کو ایک آخری آپشن کے طورپر اجازت دی ہے،اس کو براکہیں، یاپھر سیرت سوانح سے جومعلوم پڑتاہے کہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غلام تھے، نعوذباللہ اس کو براکہیں اورسمجھیں یاپھر صحابہ وتابعین کے پاس بھی غلام ہوتے تھے، اس پر ان پر تبرا کریں اوران کو برابھلاکہیں، آپ غلامی کے خلاف بولنے کی شق واضح کردیں کہ آپ کی مراد کیاہے؟ تب ہی سامنے والا کچھ عرض کرسکتاہے،ورنہ تومیں نے شروع سے یہی کہاہے کہ غلامی پر بحث کرتے ہیں، آپ یوروپ وامریکہ اوررومن ایمپائر کے دور میں جو غلاموں کی حالت اور ان کے حقوق تھے، انکو واضح کریں اورمیں عہد اسلامی میں غلامی کی حالت اورحقوق واضح کرتاہوں،لیکن اس پر بھی تاحال خاموشی ہے۔
 
Top