مہوش، امریکہ کے کوئی کرتوت ایسے نہیں ہیں جن کی وکالت کے لیے کوئی لوگ آپ کو آسانی سے مل جائیں۔ کسی ایک فیملی سے آپ کی بات چیت کو عراق پر مستند رائے نہیں تسلیم کیا جا سکتا، یہ زیادہ سے زیادہ حالات کا ایک رخ دکھا سکتا ہے۔ آپ نے اس اہلسنت عراقی فیملی سے امریکہ کے بارے میں تو رائے دریافت کر لی ہے، ذرا ان سے پوچھیں کہ کونسا دور اچھا تھا، امریکہ کے تسلط والا یا پھر صدام کا دور حکومت؟ اس کے بعد میں آپ کو بتاؤں گا کہ میرے عرب دوست اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔
نبیل بھائی، میں مان رہی ہوں کہ آپ کی باتوں میں بہت وزن ہے اور واقعی ایک فیملی کی رائے کو عراق پر مستند رائے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
آجکل عراقی حکومت مہدی ملیشیا کے خلاف ایکشن لے رہی ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ عراقی حکومت اتنی طاقتور ہو کہ ایسے عناصر کا مقابلہ کر سکے اور اسکے بعد اتحادی فوجیں عراق سے انخلاء کر لیں تو ہم بہت حد تک امید رکھ سکتے ہیں کہ یہ عراقی حکومت اپنے نہتے شہریوں کی حفاظت کر سکے گی۔
جہاں تک صدام حسین یا امریکی تسلط والے دور کی بات ہے تو اس مسئلے میں یہ اہلسنت فیملی یقینی طور پر صدام حسین کے دور کی گرویدہ ہے [بلکہ انکا تعلق اُن قبائل سے ہے جو صدام حسین کے وفادار تھے۔ انہی کے مقابلے میں کچھ سنی قبائل صدام حسین کے بہت مخالف بھی رہے ہیں]
بہرحال تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ میری پھپو جب عراق سے زیارات سے واپس آئیں تو انکا کہنا تھا کہ کربلا و نجف میں خال خال ہی ایسے گھر نظر آتے تھے جہاں گولیوں اور ٹینکوں کے گولوں کے نشانات نہ ہوں۔
اس سنی فیملی کی مقابلے میں وسطی و جنوبی عراق کی اگر شیعہ آبادی سے یہ سوال کیا جائے کہ القاعدہ، صدام اور امریکہ ان تینوں مِیں سے سب سے کم نقصان انہیں کس نے پہنچایا ہے تو انکا جواب امریکہ ہو گا۔
//////////////////////////
عراق کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں کی شیعہ آبادی پاکستان کی شیعہ آبادی کی طرح نہیں ہے بلکہ بہت ہی منظم اور مذھبی لوگ ہیں اور "مرجع تقلید" [مثلا آجکل آغا سیستانی] کی ایک آواز پر لبیک کہہ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس بات کا مشاہدہ آپ نے خود کیا ہو گا کہ آغا سیستانی کے ایرانی ہونے کے باوجود انہیں عراقی عوام میں جو درجہ حاصل ہے وہ کسی بھی اور لیڈر کو حاصل نہیں۔
مگر مرجع تقلید کے گرد جمع ہونا صرف آغا سیستانی تک محدود نہیں، بلکہ ان سے قبل ایک مرجع تقلید گذرے ہیں آیت اللہ باقر الصدر کے نام سے اور انہیں عراقی عوام میں جو درجہ حاصل تھا وہ آج سیستانی صاحب کو بھی نہیں۔ مگر صدام حسین نے عراق کو ایسے اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا کہ اگر ایک شخص بھی صدام کے خلاف آواز اٹھاتا تو اُس شخص کے پورے خاندان کو قتل کر دیا جاتا تھا، اور یہی آیت اللہ باقر الصدر کے ساتھ ہوا کہ انہیں اپنی فیملی کے بہت سے ارکان کے ساتھ شہید کر دیا گیا [مقتدرہ الصدر اُس وقت چھوٹا تھا اور بہت خوش قسمت تھا کہ اس قتل و غارت سے بچ گیا]
صدام حسین کے خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ عراق کی یہ شیعہ آبادی انقلاب ایران کے حامی ہونے کے باوجود محاذ پر ایران کے خلاف لڑ رہی ہوتی تھی، اور اسکی وجہ یہ تھی کہ بہت سے ان عراقی شیعوں نے جب جب ایران کے خلاف لڑنے سے انکار کیا تو انکے ساتھ ساتھ انکے پورے پورے خاندانوں تک کو قتل کر دیا گیا۔
ذرا دیکھئیے کہ عراق کی 20 فیصد کرد آبادی شمال میں صدام حسین کے خلاف۔
پھر وسطی و جنوبی عراق کی شیعہ آبادی جو 60 فیصد وہ صدام حسین کے خلاف
مگر صدام کے خوف ہو ہراس کا یہ عالم کہ وہ 20 فیصد آبادی کی زور پر وہ اتنا مضبوط اور ہر مخالفت کو دبانے میں اتنا مضبوط کہ آج امریکہ اس میں کامیاب نہیں جبکہ موجودہ عراقی حکومت بھی امریکہ کی پشت پر موجود ہے۔
تو صدام حسین جو ہر مخالفت کو دبا دینے میں کامیاب ہو جاتا تھا تو اسکی وجہ اُسکی عراقی عوام میں مقبولیت نہیں تھی، بلکہ یہ اُس کا پورے پورے خاندانوں کو قتل کر دینے والے وہ ظالمانہ اقدامات تھے جو آج امریکہ بھی عراق میں نہیں کر رہا ہے۔ یہ طریقے بہت ظالمانہ ہوں تو ہوں، مگر یہ ظلم صدام حسین نے بہت کامیابی سے عراق میں کر کے اپنی حکومت کو مستحکم رکھا۔
صدام دور میں کئی لاکھ شیعہ فوجی نہ چاہتے ہوئے بھی ایران عراق جنگ کی نظر ہوئے، اور اس سے کئی لاکھ زیادہ صدام حسین نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے ملک کے اندر مروائے۔ ۔۔۔۔۔۔ مگر کیا ہے کہ اس قتل عام کا ذکر اُسوقت امریکی میڈیا کرتا تھا، نہ سعودی میڈیا اور نہ پاکستانی میڈیا جو کہ امریکہ و سعودیہ کے زیر اثر تھا۔
////////////////////////////////
جب سوال پوچھا جاتا ہے کہ صدام دور اچھا تھا یا امریکی دور، تو یہ سوال یا اسکا کوئی بھی جواب آپ کو صحیح صورتحال بیان نہیں کرے گا۔
اسکی وجہ یہ ہے آج القاعدہ عراق میں جو عام شہریوں پر خود کش حملے کر کے کئی لاکھ لوگوں کا قتل عام کر چکی ہے تو ہمارے پاکستانی اخبارات میں لکھنے والے دانشور اس سب قتل عام کو القاعدہ کے کھاتے میں ڈالنے کی بجائے امریکہ کے کھاتے میں ہی ڈالے جا رہے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس عراقی عوام جو کہ اپنی صورتحال کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، ان میں اس القاعدہ کے خلاف امریکہ سے اتحاد پیدا ہو رہا ہے اور اس میں صرف شیعہ آبادی ہی نہیں بلکہ بہت سے سنی قبائل بھی شامل ہیں۔
امریکہ نے عراقی شہریوں کا بذات خود کچھ قتل عام نہیں کیا جو کہ صدام حسین نے اپنے دور یا پھر القاعدہ کے انتہا پسند آج کر رہے ہیں۔ لیکن اگر آج ہم ان انتہا پسندوں کی جانب سے ہونے والے تمام تر خون خرابے کو بھی امریکہ کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے رہے تو میری ناقص رائے میں یہ حالات کا صحیح ادراک کرنے میں بہت بڑی غلطی ثابت ہو سکتی ہے۔
تو اگر بطور پاکستانی ہم عراق کی صورتحال کو سمجھنا چاہتے ہیں تو شاید صدام حسین کے صرف وفادار سنی قبائل صدام حسین کے دور کو بہتر سمجھتے ہوں، مگر شمال کی کرد آبادی اور وسطی و جنوبی شیعہ آبادی بلا شبہ امریکہ کو صدام حسین دور سے بہت بہتر سمجھ رہے ہیں اگرچہ کہ انہیں آج القاعدہ کی جانب سے زیادہ جانی نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑ رہا ہو۔ عراقی آبادی کے یہ اکثریتی حصے آج اپنے آپ کو صدام دور سے زیادہ آزاد محسوس کرتے ہیں اور اگرچہ کہ انہیں امریکہ سے بہت سی شکایات ہیں [مثلا یہ کہ امریکہ ماضی میں اپنے ملکی مفادات کے پیش نظر صدام حسین کی حمایت میں دوغلا رویہ دکھلا کر صدام کے ہاتھوں انکے قتل عام پر خاموش رہا ہے] مگر پھر بھی امریکی دور صدام حسین کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے کہ نام کی ہی سہی مگر عراقی عوام کی اپنی نمائندہ حکومت موجود ہے، قانون بہت حد تک آزاد ہے اور خاندانوں کے خاندان قتل نہیں کیے جا رہے ہیں۔
دیکھئیے، امریکہ صرف برائی کا محور نہیں ہے، بلکہ اس میں بہت سے اچھائیاں بھی ہیں۔
/////////////////////////////
عراقی تیل اور امریکی کمپنیوں کا جہاں تک تعلق ہے تو اس سلسلے میں میری پہلے ایک انگلش ڈسکشن فورم میں امریکیوں سے گفتگو ہو چکی ہے۔ اسکے بعد فواد صاحب نے بھی یہ اعداد و شمار پیش کر دیے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ عراق کا "کل تیل" اتنی مالیت کا نہیں ہے کہ جتنا کہ امریکہ عراق میں خرچہ کر چکا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جسے کم از کم میں نظر انداز نہیں کر سکی ہوں۔ اسرائیل کو شمالی کرکوک سے تیل کی سپلائی بھی اتنی اہم نہیں ہے کہ اس کے بغیر اسرائیل میں تیل کا بحران پیدا ہو جائے۔
امریکہ کے عراق پر حملے کے تیل کے علاوہ دوسرے مقاصد ہو سکتے ہیں جنہیں تیل سے زیادہ منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے [کیونکہ ہو یہ رہا ہے کہ انگلش ڈسکشن فورمز اور دیگر سطحوں پر مسلمان صرف تیل تیل کا شور مچائے ہوئے ہیں جبکہ مغربی میڈیا نے مغربی عوام کو یہ اچھے طریقے سے باور کروا دیا ہے کہ امریکہ کے جنگی اخراجات عراق کے کل تیل کی مالیت سے زیادہ ہیں۔ اس صورتحال کے بعد امریکہ کے اصل مقاصد پس پردہ چلے گئے ہیں اور ان پر صحیح طور پر روشنی نہیں پڑ رہی ہے۔
تو ذرا سوچئیے کہ تیل کی کمائی کے علاوہ امریکہ کے کیا مقاصد و عزائم ہو سکتے ہیں۔
کیا امریکہ کرد آبادی کا مسئلہ پیدا کر کے ترکی، شام، ایران اور عراق کو پھنسانا چاہتا ہے؟ یا کرد آبادی کی صورت میں اسرائیل کا ایک اور حامی پیدا کرنا چاہتا ہے، یا علاقے میں اپنی فوجی موجودگی کو پختہ کرنا چاہتا ہے اور عرب ممالک پر رعب قائم رکھنا چاہتا ہے کہ ہم سے اسحلہ خریدو اور ہمیں اپنی طرف رکھو اور ہماری مخالفت نہ کرو، یا پوری دنیا کو میسج دینا چاہتا ہے کہ ہم اکلوتی سپر پاور ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ان مسائل پر اور زیادہ سوچنا ہے قبل اسکے کہ میں کسی نتیجے پر پہنچ سکوں۔ بہرحال مجھے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ تیل ایک بہت چھوٹا سا ضمنی مسئلہ ہو سکتا ہے، مگر اصل نہیں۔ تیل کی دولت لامحدود نہیں ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ تمام مسلم ممالک کا جی ڈی پی اگر ملا بھی لیا جائے تو اکیلے چین کے جی ڈی پی کے برابر نہیں بنتا۔ چنانچہ عراق کے مجموعی تیل کی مالیت امریکی معیشیت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔