عربی زبان و ادب سے متعلق سوالات

حسان خان

لائبریرین
عربی زبان کا دستوری قاعدہ پڑھا تھا کہ جو الفاظ مفعول ہوتے ہیں وہ حالتِ نصب میں ہوتے ہیں یعنی اُن کے اختتام پر زبر آتا ہے۔ مثلاً: رأیت الاستاذَ وغیرہ۔۔۔ پھر مندرجہ ذیل جملے میں 'السماوات' پر زیر کیوں ہے، جبکہ یہ بھی 'الارض' کی طرح مفعول ہی ہے؟
فِي البَدءِ خَلَقَ اللهُ السَّماواتِ وَالأرْضَ.

محمود احمد غزنوی سید عاطف علی محمد اسامہ سَرسَری
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عربی زبان کا دستوری قاعدہ پڑھا تھا کہ جو الفاظ مفعول ہوتے ہیں وہ حالتِ نصب میں ہوتے ہیں یعنی اُن کے اختتام پر زبر آتا ہے۔ مثلاً: رأیت الاستاذَ وغیرہ۔۔۔ پھر مندرجہ ذیل جملے میں 'السماوات' پر زیر کیوں ہے، جبکہ یہ بھی 'الارض' کی طرح مفعول ہی ہے؟
فِي البَدءِ خَلَقَ اللهُ السَّماواتِ وَالأرْضَ.

محمود احمد غزنوی سید عاطف علی محمد اسامہ سَرسَری
آپ نے عمومی قاعدہ تو درست لکھا ہے لیکن سماوات ۔ سماء کی جمع مؤنث سالم ہے۔ان کے منصوب ہونے کی شکل عام مفعولات سے مختلف ہوتی ہے (یہاں یہی کسرہ منصوب ہے)۔ اس کی اور بہت مثالیں ملتی ہیں۔
(نیز عربی زبان میں بہت سے قواعد کے کچھ مستثنیات ہونے ہیں جنہیں اہل زبان کے تابع ماننا پڑتا ہے اور یہی ان کا قاعدہ ہو جاتا ہے۔)
ایک لنک دیکھیں۔جمع مؤنث سالم کی نصبی حالت بیان کی گئی ہے۔
http://www.schoolarabia.net/arabic/gam3_mo2anath/gam5.htm
 
عربی زبان کا دستوری قاعدہ پڑھا تھا کہ جو الفاظ مفعول ہوتے ہیں وہ حالتِ نصب میں ہوتے ہیں یعنی اُن کے اختتام پر زبر آتا ہے۔ مثلاً: رأیت الاستاذَ وغیرہ۔۔۔ پھر مندرجہ ذیل جملے میں 'السماوات' پر زیر کیوں ہے، جبکہ یہ بھی 'الارض' کی طرح مفعول ہی ہے؟
فِي البَدءِ خَلَقَ اللهُ السَّماواتِ وَالأرْضَ.

محمود احمد غزنوی سید عاطف علی محمد اسامہ سَرسَری
حالتِ نصبی چھ طرح سے ہوتی ہے:
  1. آخری حرف پر فتحہ (یہ صورت پانچ قسم کے اسماء کی ہے (1)مفرد منصرف صحیح جیسے زیداً ، بکراً (2)مفرد منصرف قائم مقام صحیح جیسے دلواً ، ظبیًا (3)جمع مکسر منصرف جیسے رجالاً ، علوماً (4)غیر منصرف جیسے عمرَ ، اسامۃَ (5)اسم منقوص جیسے قاضیًا ، داعیًا)
  2. آخری حرف کے نیچے کسرہ (یہ صورت جمع مؤنث سالم کی ہے ، جیسے مسلمات ، مؤمنات ، سمٰوات)
  3. یائے ساکنہ ماقبل مکسور (یہ صورت صرف چھ الفاظ کی ہے وہ بھی کچھ شرائط کے ساتھ ، وہ چھ الفاظ یہ ہیں: اب ، اخ ، حم ، ہن ، فم ، ذو)
  4. یائے ساکنہ ، ماقبل مفتوح ، مابعد نون مکسورہ غیر لازمہ (یہ صورت تین طرح کے اسماء کی ہے (1)تثنیہ جیسے رجلینِ ، امرأتین (2)کلیہما اور کلتیہما (3)اثنین اور اثنتین)
  5. یائے ساکنہ ، ماقبل مکسور ، مابعد نون مفتوحہ غیر لازمہ (یہ صورت تین طرح کے اسماء کی ہے (1)جمع مذکر سالم جیسے مسلمین (2)اولوا جیسے اولی الابصار (3)عشرین ، ثلاثین اور ان جیسی باقی دہائیاں)
  6. فتحۂ تقدیریہ (یہ صورت دو طرح کے اسماء کی ہے (1)اسم مقصور جیسے موسیٰ ، عیسیٰ (2)غیر جمع مذکر سالم مضاف بیائے متکلمہ جیسے غلامی ، ابی)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آپ نے عمومی قاعدہ تو درست لکھا ہے لیکن سماوات ۔ سماء کی جمع مؤنث سالم ہے۔ان کے منصوب ہونے کی شکل عام مفعولات سے مختلف ہوتی ہے (یہاں یہی کسرہ منصوب ہے)۔ اس کی اور بہت مثالیں ملتی ہیں۔
(نیز عربی زبان میں بہت سے قواعد کے کچھ مستثنیات ہونے ہیں جنہیں اہل زبان کے تابع ماننا پڑتا ہے اور یہی ان کا قاعدہ ہو جاتا ہے۔)
ایک لنک دیکھیں۔جمع مؤنث سالم کی نصبی حالت بیان کی گئی ہے۔
http://www.schoolarabia.net/arabic/gam3_mo2anath/gam5.htm

حالتِ نصبی چھ طرح سے ہوتی ہے:
  1. آخری حرف پر فتحہ (یہ صورت پانچ قسم کے اسماء کی ہے (1)مفرد منصرف صحیح جیسے زیداً ، بکراً (2)مفرد منصرف قائم مقام صحیح جیسے دلواً ، ظبیًا (3)جمع مکسر منصرف جیسے رجالاً ، علوماً (4)غیر منصرف جیسے عمرَ ، اسامۃَ (5)اسم منقوص جیسے قاضیًا ، داعیًا)
  2. آخری حرف کے نیچے کسرہ (یہ صورت جمع مؤنث سالم کی ہے ، جیسے مسلمات ، مؤمنات ، سمٰوات)
  3. یائے ساکنہ ماقبل مکسور (یہ صورت صرف چھ الفاظ کی ہے وہ بھی کچھ شرائط کے ساتھ ، وہ چھ الفاظ یہ ہیں: اب ، اخ ، حم ، ہن ، فم ، ذو)
  4. یائے ساکنہ ، ماقبل مفتوح ، مابعد نون مکسورہ غیر لازمہ (یہ صورت تین طرح کے اسماء کی ہے (1)تثنیہ جیسے رجلینِ ، امرأتین (2)کلیہما اور کلتیہما (3)اثنین اور اثنتین)
  5. یائے ساکنہ ، ماقبل مکسور ، مابعد نون مفتوحہ غیر لازمہ (یہ صورت تین طرح کے اسماء کی ہے (1)جمع مذکر سالم جیسے مسلمین (2)اولوا جیسے اولی الابصار (3)عشرین ، ثلاثین اور ان جیسی باقی دہائیاں)
  6. فتحۂ تقدیریہ (یہ صورت دو طرح کے اسماء کی ہے (1)اسم مقصور جیسے موسیٰ ، عیسیٰ (2)غیر جمع مذکر سالم مضاف بیائے متکلمہ جیسے غلامی ، ابی)

بہت شکریہ :)
 

حسان خان

لائبریرین
میں نے ایک درسی کتاب کے ابتدائی اسباق کی انگریزی سے عربی میں ترجمہ کرنے کی مشقیں حل کی ہیں۔ از راہِ کرم ان پر ایک نگاہ ڈال لیجیے اور اگر جملوں کی ساخت، الفاظ یا اختتامی اعراب کی کوئی غلطی نظر آئے تو اُس سے آگاہ فرما دیجیے۔
محمود احمد غزنوی سید عاطف علی محمد اسامہ سَرسَری
-------------------

The College is big. The College is in the city. The College has many rooms. The rooms are big. The College has a library. The library is big. There are many books in the library.
الكليةُ کبیرةٌ. الكليةُ في المدینةِ. للكليةِ عددٌ مِن غُرَفٍ. الغرفُ کبيرةٌ. للکليةِ مكتبةٌ. المكتبةُ کبيرةٌ. للمكتبةِ عددٌ مِن کتبٍ.

The school has a playground. The playground is big. The school has a room for teachers. The room is big and beautiful.
للمدرسةِ ميدانٌ. الميدانُ واسعٌ. للمدرسةِ غُرفةٌ للأساتذةِ. الغرفةُ کبيرةٌ و جميلةٌ.

He is a teacher. He is a teacher in a school. She is a teacher. She is a teacher in a school. They are students. Are you also in the school? No, I am in the post office. Is he a worker in the school? Yes, he is a worker in this school. Are you also in this school? No, we are in an office.
هو معلمٌ. هو معلمٌ في مدرسةٍ. هي معلمةٌ. هي معلمةٌ في مدرسةٍ. هُم طلابٌ. هل انتَ ایضاً في المدرسةِ؟ لا، انا في المكتب البريدِ. هل هو عاملٌ في المدرسةِ؟ نعم، هو عاملٌ في هذِهِ المدرسةِ. هل انتم ایضاً في هذه المدرسةِ؟ لا، نحنُ في مكتبٍ.

He is Sameer. He has a family. His family is small. She is Rani. She is his wife. He is Nafe. He is his son. She is Sameera. She is his daughter. Their house is big and beautiful. Who are you? I am Shyam. I am their cook. Who is she? She is Romila. She is their maidservant. Where is your house? Our house is in Munirka.
هو سمير. لهُ اُسرَةٌ. أسرتهُ صغيرةٌ. هي راني. هي زوجتُهُ. هو نافع. هو أبنهُ. هي سميره. هي إبنته. بيتهم کبیرٌ و جميلٌ. من أنتَ؟ أنا شیام. أنا طباخهم. من هي؟ هي روميلا. هي خادمتُهم. أينَ بیتُکُم؟ بيتُنا في منيرکا.

This is a watch and that is a church. This is a temple and that is a mosque. This is a notebook and that is a book. This is a house and that is a hut. This is a radio and that is a television.
هذه ساعةٌ و تلك کنيسةٌ. هذا معبدٌ و ذلك مسجدٌ. هذه كرّاسةٌ و ذلك كتابٌ. هذا بيتٌ و ذلك كوخٌ. هذا مذياعٌ و هذا تلفزیونُ.

That is a boy. He is my brother. His name is Ashok.
ذلك ولدٌ. هو أخي. إسمه اشوك.
That girl is my sister. Her name is Usha.
تلك بنتٌ أختي. اسمها اوشا.
He is Mr. Nabeel. He is an engineer.
هو السّیدُ نبيلٌ. هو مهندسٌ.
His name is Mr. Adil. His pen is new.
إسمه السّیدُ عادلٌ. قلمهُ جدیدٌ.
Her name is Mrs. Lalima. She is a teacher.
إسمها السّیدةُ لاليما. هي معلمةٌ.
What is her name? Is she your wife?
ما اسمها؟ هل هي زوجتُكَ؟
She is Miss Fatima. She is my sister.
هي الآنسةُ فاطمةُ. هي أختي.
Her name is Sunaina. She is my daughter.
إسمها سنينا. هي أبنتي.
Mr. Hari is a clerk in my office.
السيدُ هري کاتبٌ في مكتبي.
Is he your driver? What is his name?
أهو سائقُكَ؟ ما اسمهُ؟
 

حسان خان

لائبریرین
نَجَحَ عُلَمَاءُ مُتَخَصِّصُونَ فِي الشُّعُوبِ الْأَصْلِيَّةِ فِي الْوُصُولِ إِلَى مِنْطَقَةٍ نَائِيَةٍ فِي حَوْضِ الْأَمَازُون تَسْكُنُهَا قَبِيلَةٌ بِدَائِيَّةٌ لَمْ يَسْبِقْ لَهَا التَّوَاصُلُ مَعَ الْعَالَمِ الْخَارِجِيِّ.
-----------

اردو زبان میں تواصل اور اتصال دونوں کا ایک ہی مطلب ہے۔ کیا عربی میں بھی ان دونوں الفاظ کا ایک ہی مطلب ہے یا پھر عربی میں یہ دونوں الفاظ ذرا مختلف مفہوموں کے لیے استعمال ہوتے ہیں؟ اور اگر دونوں ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو کیا مذکورہ بالا جملے میں 'لم یسبق لہا التواصل' کی جگہ پر 'لم یسبق لہا الاتصال' استعمال کیا جا سکتا ہے؟
محمود احمد غزنوی سید عاطف علی محمد اسامہ سَرسَری
 
نَجَحَ عُلَمَاءُ مُتَخَصِّصُونَ فِي الشُّعُوبِ الْأَصْلِيَّةِ فِي الْوُصُولِ إِلَى مِنْطَقَةٍ نَائِيَةٍ فِي حَوْضِ الْأَمَازُون تَسْكُنُهَا قَبِيلَةٌ بِدَائِيَّةٌ لَمْ يَسْبِقْ لَهَا التَّوَاصُلُ مَعَ الْعَالَمِ الْخَارِجِيِّ.
اردو زبان میں تواصل اور اتصال دونوں کا ایک ہی مطلب ہے۔ کیا عربی میں بھی ان دونوں الفاظ کا ایک ہی مطلب ہے یا پھر عربی میں یہ دونوں الفاظ ذرا مختلف مفہوموں کے لیے استعمال ہوتے ہیں؟ اور اگر دونوں ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو کیا مذکورہ بالا جملے میں 'لم یسبق لہا التواصل' کی جگہ پر 'لم یسبق لہا الاتصال' استعمال کیا جا سکتا ہے؟
محمد اسامہ سَرسَری
اتصال اور تواصل دونوں اسم ہیں ، اول باب افتعال اور ثانی باب تفاعل کا مصدر ہے ، ان دونوں میں اردو میں بھی فرق ہے اور عربی میں بھی۔

اردو میں:
اتصال: ملاپ ، میل ، قرب ، نزدیکی ، کسی کام کا لگاتار ہونا ، وغیرہ
تواصل: ایک دوسرے سے ملنا۔

عربی میں:
اتصال: رابطہ کرنا ، کنکشن ، ملاقات کرنا ، جڑنا مربوط ہونا ، خدمت میں رہنا ، کسی قبیلے سے وابستہ ہونا اور اس سے اپنی نسبت کرنا ، رشتہ۔
تواصل: ایک دوسرے سے تعلق رکھنا ، باہم ملنا ، باہم جوڑ لگنا۔

مذکورہ بالا جملے میں تواصل اور اتصال دونوں آسکتے ہیں ، البتہ چونکہ مقصود عدم رابطہ من جانب واحد ہے نہ کہ طرفین سے اس لیے اتصال زیادہ بہتر ہے ، مگر تواصل لانا بھی اس لیے درست ہے کہ عدم رابطہ من جانب واحد سے من جانبین بھی لازم آرہا ہے۔

ایک اور لفظ ہے مواصلۃ یہ جائز اور ناجائز ہر قسم کے تعلق کے لیے آتا ہے ، ہجرت کی ضد ہے ، جبکہ تواصل تصارم(باہم قطع تعلق کرنا) کی ضد ہے ، اس پس منظر میں بھی آپ کی عبارت میں لفظ "اتصال" زیادہ مناسب لگ رہا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اتصال جدید معنی میں ٹیلیفون کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ یہاں ۔تواصل ہی بہتر ہے۔اور امیزن جنگل کے قبائلیوں کے بیرونی دنیا سے "انٹر ایکشن" کے معنی میں لیا گیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مندرجہ ذیل جملے کو فصحیٰ/معیاری عربی میں کیسے کہیں گے؟
لو كان ده ذنبي ماتوب عنه
(اگر میرا گناہ یہ ہے تو میں اس سے توبہ نہیں کروں گا۔)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مندرجہ ذیل جملے کو فصحیٰ/معیاری عربی میں کیسے کہیں گے؟
لو كان ده ذنبي ماتوب عنه
(اگر میرا گناہ یہ ہے تو میں اس سے توبہ نہیں کروں گا۔)
حسان خان ۔ یہاں جو "دہ" ہے وہ دراصل "ذا" ہے جو ھذا کا متبادل ہے۔اسی طرح "دی" ھٰذہِ کا منطوق متبادل ہے ۔اور ماتوب دراصل ما اتوبُ ہے۔ جس کا الف بھی کہنے میں نہ آئے مگر سمجھ لیا جاتا ہے ۔
 
لوكان هذا ذنبي ماأتوب عنه
"لو" سے ترجمہ یوں ہوگا: "اگر یہ میرا گناہ ہوتا" ، جبکہ شک کے لیے "إن" آتا ہے۔
نیز "میرا گناہ یہ ہے" کا تقاضا ہے کہ "ذنبی" کو "ھذا" پر مقدم رکھا جائے۔
ان کے علاوہ "مأاتوب عنه" میں دو باتیں مزید قابل غور ہیں:
1۔ فعل مضارع پر حرف نفی عام حالات میں "لا" آتا ہے، جیسے: "لا أقسم بیوم القیامة" ، "لا أقول لکم عندی خزائن اللہ ولا أعلم الغیب ولا أقول لکم إنی ملك" جبکہ "ما" نافیہ فعل ماضی پر داخل ہوتا ہے۔ جیسے: "ما جعل اللہ لکم علیهم سبیلا"۔
2۔ التوبة (کسی گناہ سے رجوع کرنا) کا صلہ "من" مستعمل ہے نہ کہ "عن" ، جیسے: اللهم إنی أتوب إلیك منها لا أرجع إلیها أبدا"

خلاصہ یہ کہ فصیح عربی اس جملے کی یہ ہونی چاہیے:
(اگر میرا گناہ یہ ہے تو میں اس سے توبہ نہیں کروں گا۔)
"إن کان ذنبی هٰذا لا أتوب منه"
یا پھر
"إن کان ذنبی ھٰذا ما تُبتُ منه"

(وضاحت: "إن" شرط اور جزا کو ماضی کا صیغہ ہونے کے باجود حال یا استقبال کے معنی میں کردیتا ہے۔)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
۔۔۔وَاَستَغفِرُکَ لِمَا لا اَعلم بِہ تُبتُ عَنہُ۔۔۔
یہ چھٹا کلمہ بچپن میں " ردِّکفر "کے نام سے یاد کرا یا جاتا ہے۔اس میں توبہ کے ساتھ عن ہے۔کیا یہ ثابت ہے ؟
 

حسان خان

لائبریرین
"لو" سے ترجمہ یوں ہوگا: "اگر یہ میرا گناہ ہوتا" ، جبکہ شک کے لیے "إن" آتا ہے۔
نیز "میرا گناہ یہ ہے" کا تقاضا ہے کہ "ذنبی" کو "ھذا" پر مقدم رکھا جائے۔
ان کے علاوہ "مأاتوب عنه" میں دو باتیں مزید قابل غور ہیں:
1۔ فعل مضارع پر حرف نفی عام حالات میں "لا" آتا ہے، جیسے: "لا أقسم بیوم القیامة" ، "لا أقول لکم عندی خزائن اللہ ولا أعلم الغیب ولا أقول لکم إنی ملك" جبکہ "ما" نافیہ فعل ماضی پر داخل ہوتا ہے۔ جیسے: "ما جعل اللہ لکم علیهم سبیلا"۔
2۔ التوبة (کسی گناہ سے رجوع کرنا) کا صلہ "من" مستعمل ہے نہ کہ "عن" ، جیسے: اللهم إنی أتوب إلیك منها لا أرجع إلیها أبدا"

خلاصہ یہ کہ فصیح عربی اس جملے کی یہ ہونی چاہیے:
(اگر میرا گناہ یہ ہے تو میں اس سے توبہ نہیں کروں گا۔)
"إن کان ذنبی هٰذا لا أتوب منه"
یا پھر
"إن کان ذنبی ھٰذا ما تُبتُ منه"

(وضاحت: "إن" شرط اور جزا کو ماضی کا صیغہ ہونے کے باجود حال یا استقبال کے معنی میں کردیتا ہے۔)
حسان خان ۔ یہاں جو "دہ" ہے وہ دراصل "ذا" ہے جو ھذا کا متبادل ہے۔اسی طرح "دی" ھٰذہِ کا منطوق متبادل ہے ۔اور ماتوب دراصل ما اتوبُ ہے۔ جس کا الف بھی کہنے میں نہ آئے مگر سمجھ لیا جاتا ہے ۔

تفصیلی اور مفید جواب کے لیے بے حد شکریہ جناب محمد اسامہ سَرسَری ۔
برادر سید عاطف علی بہت شکریہ۔ بس یہ بھی بتا دیجیے کہ منطوق سے کیا مراد ہے؟
-------------------

وَجَدَ بَاحِثُونَ أنَّ مُخَّ الطِّفْلِ يَسْتَجِيبُ لِلْأَصْوَاتِ الْمَعْهُودَةِ لَدَيْهِ مِثْلَ صَوْتِ أُمِّهِ، بِشَكْلٍ يَخْتَلِفُ عَنِ اسْتِجَابَتِهِ لِأصْوَاتِ لُغَةٍ أجْنَبِيَّةٍ.

اس جملے میں استعمال شدہ لفظ 'لدیہ' کے لفظی مطلب اور استعمال کے طریقے سے آگاہ کر دیجیے۔ کیا یہ 'لہُ' کا مترادف ہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
منطوق سے مرادکسی لفظ کی " بولی جانے والی حالت "بول ہے۔ جیسے لفظ جمال کو گمال بولا جانا۔
لدیہ در اصل لدی (منطوق ۔لدا) ہے اور ہ اس کے ساتھ متصل ضمیر ہے۔لدی کے معنی ہیں ۔پاس۔(مثلاً میرے پاس ۔لدیَّ ۔ اسکے پاس لدیہِ۔ان کے پاس۔ لدیھم ۔تیرے پاس۔ لدیک۔ لدینا ہمارے پاس۔وغیرہ۔
کیا یہ 'لہُ' کا مترادف ہے
ل کے ساتھ بھی لہ میں ضمیر متصل ہے ۔ اس کے معنی ۔ اس کا یا اس کے لیے۔
"کے لیے" بھی ہوتا ہے اور" ملکیت" بھی ظاہر کرتا ہے۔چناں چہ لدی کو لہ کا بعنیہ مترادف تو نہیں کہہ سکتے البتہ سیاق و سباق کےلحاظ سے کچھ قریب کہا جاسکتا ہے ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تفصیلی اور مفید جواب کے لیے بے حد شکریہ جناب محمد اسامہ سَرسَری ۔
وَجَدَ بَاحِثُونَ أنَّ مُخَّ الطِّفْلِ يَسْتَجِيبُ لِلْأَصْوَاتِ الْمَعْهُودَةِ لَدَيْهِ مِثْلَ صَوْتِ أُمِّهِ، بِشَكْلٍ يَخْتَلِفُ عَنِ اسْتِجَابَتِهِ لِأصْوَاتِ لُغَةٍ أجْنَبِيَّةٍ.
اس جملے میں استعمال شدہ لفظ 'لدیہ' کے لفظی مطلب اور استعمال کے طریقے سے آگاہ کر دیجیے۔ کیا یہ 'لہُ' کا مترادف ہے؟
یہاں لدیہ ۔ میں جو ضمیر "ہ "ِ کی شکل میں اٹیچڈ ہے وہ دراصل بچے کے دماغ کے لیے استعمال کی گئی ہے۔اور اس سے مراد یہ ہے کہ بچے کے ذہن کے پاس (یعنی ذہن میں محفوظ) میں جو آوازیں ہوتی ہیں ۔وہ ان پر ریسپونڈ کر تا ہے۔مثلاً اس کی ماں کی آواز ۔
 

حسان خان

لائبریرین
546635_433718336670051_1844014244_n.jpg

وَنَحْنُ نُحِبُّ الحَيَاةَ إذَا مَا اسْتَطَعْنَا إِلَيْهَا سَبِيلاَ

================
اس مصرعے کو پڑھ کر چند سوالات میرے ذہن میں ابھرے ہیں۔ لطفاً ان کے جوابات دے کر میری تشفی کر دیجیے:
۱) اذا کے بعد 'ما' کا یہاں کیا مطلب اور کیا دستوری وظیفہ ہے؟
۲) استطعنا کا مادۂ مفرد کیا ہے؟
۳) الیہا سبیلا کا مطلب کیا '(زندگی) کی طرف راستہ' ہو گا؟
۴) سبیلا حالتِ نصب میں کیوں ہے؟

سید عاطف علی محمد اسامہ سَرسَری
 
آخری تدوین:
Top