شاید جو تراکیب ا ور محاورات اردو میں بطور معیار مقبول ہیں ان کو ترجیح دی جانی چاہیئے۔ میری مراد بعد ازاں کو پس ازاں کہنے سے ہے۔اگر چہ پس ازاں خالص تر ترکیب ہے۔ایک رائے۔
برادرِ بزرگ و گرامیِ من!
خیالات کی ایک رَو آج مسلسل میرے ذہن میں گردش کر رہی تھی جسے اب میں آپ کی خدمت میں بصد نیاز عرض کر رہا ہوں۔ جب انگریزی، ہندی، مراٹھی، اور معلوم نہیں کن کن زبانوں کے الفاظ کی زبانِ اردوئے معلٌیٰ پر یلغار جاری ہے اور اس زبانِ عالی وقار کا جمال روز بہ روز کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے تو در ایں حال میرے فارسی الفاظ و ترکیبات کے اردو میں مجاہدانہ استعمال کو مستحسن بات ماننی چاہیے کہ میرا اس سے قصد صرف اپنی زبان کو دوبارہ اورنگِ علو پر متمکن کرنا ہے۔ ہمارے مستند اور کوثر و تسنیم سے شستہ زبان میں تحریر و تصنیف کرنے والے اردو نویس ادبی اسلاف نے تاریخ کے کسی دور میں بھی فارسی (اور عربی) الفاظ پر در بند نہیں رکھا اور نہ اُنہیں اردو سے جدا ہی مانا اور جس فارسی لفظ کو مناسب سمجھا اور جس وقت بھی مناسب سمجھا اُسے اپنی تحریر کی زیب و زینت بنایا۔ مثلاً غالب اور اقبال نے (خدا ان دونوں اور ان جیسے تمام فارسی دوست مرحومین پر رحمت نازل کرے) متعدد ایسے فارسی الفاظ و تراکیب کا استعمال کیا ہے جو اُن سے قبل کسی نے استعمال نہیں کیے تھے۔ بعد میں وہی نفیس الفاظ ہماری معیاری زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔ اور آج ہم اپنی جس زبان پر ناز کرتے ہیں وہ انہیں جیسے ذی شعور و ذی شان ادباء کی کوششوں کا نتیجہ ہے اور انہیں کی ساختہ ادبی زبان کو آج مثالی تصور کیا جاتا ہے۔
میرے لیے اردو صرف ابلاغ کا ذریعہ ہی نہیں، بلکہ یہ میری شناخت کا ایک جزء اور میرے اسلاف کی مجروح میراث بھی ہے، جسے میں التیام دے کر اپنی آیندہ نسلوں کے سپرد کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ اپنی زبان کی زشتی سے قے، اس کی زبوں حالی پر افسوس، اور اس کی کم مایگی پر آہِ حسرت کرنے کی بجائے زبانِ اردوئے معلٌیٰ کی ملکیت اور اس سے وابستگی پر فخر کر سکیں۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اردو میری انفرادی و ملی شناخت کا بھی جزء ہے لہٰذا ایسی شخصی زبان کی ساخت بھی ہمیشہ میرے پیش نظر رہتی ہے جس میں میری انفرادی و ملی شناخت بخوبی منعکس ہو سکے۔ چونکہ فارسی ہمارے ادبی اسلاف، از جملہ خسرو، بیدل، فیضی، واقف، آرزو، غالب، ذوق، ناسخ، اقبال، شاہ ولی اللہ، انیس، دبیر، ولی، حالی، مولانا محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی وغیرہم کی ادبی و تمدنی و قلبی زبان رہی ہے، اور چونکہ میں خود اس زبانِ شیریں اور اس کے کہنہ ادب کو عزیز از جان رکھتا ہوں، اس لیے میں نے ایک لحظہ بھی فارسی الفاظ و تراکیب کی نسبت بیگانگی کا احساس نہیں کیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب سے لکھنا شروع کیا ہے میں نے فارسی الفاظ سے ہرگز امتناع نہیں کیا اور میں اسی اصول پر عمل پیرا رہا ہوں کہ فارسی زبان کے ہر لفظ کا استعمال اردو میں جائز بلکہ بعض اوقات نیکوتر ہے۔ اردو کے عہدِ طلائی کے ادباء و شعراء کا یہی شیوہ تھا اور میں اُن کے وارث اور شاگرد کے طور پر اسی روش پر کاربند رہتا آیا ہوں۔
میں اگر آج ‘پس ازاں‘ جیسی کوئی ترکیب استعمال کرتا ہوں تو اس امید کے ہمراہ کرتا ہوں کہ ایامِ آتیہ میں یہ معیاری ادبی زبان کا حصہ بن کر اردو کی پُرمایگی و زیبائی کا سبب بنے گی۔
با کمالِ محبت و خلوص و احترام!
والسلام مع الاکرام!