عرب اسلامک امریکن کانفرنس اور پاکستان

تاریخ: 31 مئی، 2017
29vc5fl.jpg

عرب اسلامک امریکن کانفرنس اور پاکستان
تحریر: سید انور محمود
وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ پاکستان کے عوام بھی پڑوسی ملک ایران کے اعتدال پسند صدر ڈاکٹرحسن روحانی کو 2017 کے انتخابات میں دوسری مرتبہ ایران کا صدر منتخب ہونے پر ان کو دلی طور مبارکباد دیتے ہیں۔شروع سے ہی پاکستان اور ایران کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں، ایران وہ پہلا ملک ہے جس نے اقوام متحدہ میں سب پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اورمحمد رضا شاہ پہلوی شاہ ایران وہ پہلے غیر ملکی سربراہ تھے جنہوں نے 1950 میں پاکستان کا دورہ کیا۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات پہلے جیسے نہیں ہیں، ایران سمجھتا ہے کہ پاکستان کا جھکاو سعودی عرب کی جانب ہے جس کی وجہ پاکستان کی ’اسلامی فوجی اتحاد‘سے قربت اور پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا اس فوجی اتحاد کا سربراہ بننا ہے۔ شاہ ایران کے زمانے میں ایران ایک مسلم شیعہ ملک تھا اور سعودی عرب ایک مسلم وہابی ملک تھا، 1979 میں ایران میں خمینی انقلاب کے بعد بھی ایران ایک شیعہ ملک ہی رہا اور سعودی عرب ایک وہابی ملک، مذہبی طور پر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، ایرانی حج کرنے سعودی عرب جاتے ہیں اور سعودی شیعہ زیارتیں کرنے، عراق اور ایران جاتے ہیں۔

ایران میں انقلاب خمینی کے بعد شاہ کے زمانے کا وہ ایران جو منی امریکہ کہلاتا تھا اب وہ’’مرگ بر امریکہ‘‘ (امریکہ مردہ باد) کےنعروں سے گونجتا ہے۔ ریاض میں امریکی صدرڈونلڈٹرمپ نے عرب اسلامک امریکن کانفرنس اپنی تقریر میں اس نعرہ کا خاص طور پر ذکر کیا تھا۔امریکہ ایک نظام کے تحت چلتا ہے چاہے اس کا صدر کوئی بھی ہوا اور وہ انتخابات میں کچھ بھی کہہ کر صدر بنا ہو۔ اس کو وہی کچھ کرنا ہوتا ہے جس سے امریکہ کو سیاسی اور معاشی فائدہ ہو۔ سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کو چینی پسند نہیں تھے لیکن امریکہ کی سیاسی ضرورت اسے چین لے گئی،موجودہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ اپنی پوری انتخابی مہم میں مسلمانوں اور مسلم دنیا کے خلاف بولتا رہا لیکن اپنی ساری باتیں بھول کر امریکی صدر کی حیثیت سے وہ سب سے پہلے سعودی عرب کے دورئے پر پہنچا، وجہ امریکہ کا سیاسی اور معاشی فاہدہ تھا۔ ٹرمپ اب بھی مسلمانوں کے اتنا ہی خلاف ہے جتنا سعودی عرب آنے سے پہلے تھا اور یہ ہی وجہ ہے کہ گذشتہ 20 سال سے وائٹ ہاوس میں ہونے والی افطار پارٹی اس سال نہیں ہوگی۔لیکن سعودی عرب جانا اس کے ملک کا مفاد تھا۔

اب یہ بات ڈھکی چھپی بلکل نہیں رہی کہ دسمبر2015 میں سعودی عرب نے جس ’اسلامی فوجی اتحاد‘ کی شروعات کی تھی اس کاہدایت کار امریکہ ہے جس نے مسلمان ملکوں کے آپس کے اختلاف کو بڑھا یا اور اس میں موجود فرقہ واریت کا پورا پورا فائدہ اٹھاکر مسلم ممالک کو ایک دوسرئے کے سامنے فرقے کی بنیاد پر کھڑا کردیا۔ امریکی مشورئے سے سعودی عرب نےاپنی قیادت میں اسلامی ممالک کا ایک’اسلامی فوجی اتحاد‘ تشکیل دینے کا اعلان کیا، سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نےاس اتحاد پر اپنی بھرپور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے "سنی اتحاد" کا نام دیا تھا اور یہ حقیقت بھی ہے کہ آج تک اس اتحاد کا کوئی شعیہ ملک ممبر نہیں ہے۔ پاکستان کوسعودی حکام کی طرف سے برابر یہ کہا جاتا رہا کہ اس اتحاد کا مقصد دہشتگردی کا خاتمہ ہے یہ اتحادان تمام دہشتگرد تنظیموں کے خلاف لڑئے گا جو دہشتگردی میں ملوث ہیں ان میں ’داعش‘ سرفہرست ہے۔ دہشتگرد تنظیم داعش امریکہ کی بنائی ہوئی تربیت سے لیس ایسی تنظیم ہےجس کا مقصد پوری دنیا میں امریکی مفادات کے لیے دہشتگردی پھیلانا ہے۔گذشتہ سال امریکی انتخابات سے قبل سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے دنیابھر کے میڈیاکے سامنے اوراپنی کتاب میں بھی یہ تسلیم کیاکہ داعش امریکہ کی ہی پیداوار ہے۔جنوری 2016 سے سعودی عرب کی یہ کوشش رہی کہ ’اسلامی فوجی اتحاد‘ کی سربراہی پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کریں اور پاکستان اس فوجی اتحاد کا حصہ بنے۔ جنرل راحیل شریف نے تو ’اسلامی فوجی اتحاد‘ کی قیادت سنبھال لی ہے لیکن ابھی پاکستان مکمل طور پر اس کا حصہ نہیں بنا ہے، جس کی بڑی وجہ پاکستانی عوام کی اس فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت ہے، بغیر کسی مذہبی تفریق کے تقریباً تمام پاکستانیوں کی یہ رائے ہے کہ ہم صرف دہشتگردوں سے لڑینگے کسی ملک سے نہیں۔


سعودی عرب نے اپنے اصل مقصد کو اسلامی دنیا اور دنیا کے سامنے پیش کرنے کےلیے 20 اور21 مئی 2017کو ریاض میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں عرب اسلامک امریکن کانفرنس اور دوسرئے پروگراموں کا انعقاد کیا جس کا دولہا بھی ڈونلڈ ٹرمپ ہی تھا۔40 سے زیادہ ملکوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی لیکن ریاض کو کچھ اسطرح سجایا گیا جیسے یہ کانفرنس صرف امریکہ اور سعودی عرب کی ہورہی تھے۔ دونوں ممالک کے جھنڈوں اور سربراہوں کی تصویروں پر ’’ٹو گیدر وی پری ویل‘‘ لکھا ہوا تھا، اس دوران سعودی ٹی وی مسلسل ٹرمپ کے عشق میں ڈوبا رہا۔ٹرمپ دو مقصد لیکر سعودی عرب آیا تھا، پہلا مقصد یہ تھا کہ امریکہ ہے تو اسلحہ کا بیوپاری لہذا ٹرمپ نے امریکی دفاعی ساز و سامان کےلیے سعودی عرب سے 110بلین ڈالر کے معاہدے کیے، اگلے سال یہ رقم بڑھ کر 380بلین ڈالر تک ہوسکتی ہے۔ جبکہ دوسرا مقصد سیاسی تھا جس میں امریکہ اور سعودی عرب کے مخالفوں کو دھمکانا تھا جس میں ایران سرفہرست تھا۔ اس موقعہ پر ڈونلڈ ٹرمپ نے عرب اسلامک امریکن کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے ایران پر بہت زیادہ تنقید کی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران اس خطے میں دہشتگردوں کو پناہ دیتا ہے اور اس خطے میں ہونے والی دہشتگردی کا زمہ دار ایران ہے۔ٹرمپ نے تمام مسلم سربراہوں کو کہا کہ وہ ایران کو اکیلا کردیں۔ ٹرمپ سے پہلے سعودی عرب کے شاہ سلمان نے بھی خطے میں برائیوں کی جڑ ایران کو ہی قرار دیا۔ سعودی شاہ اور امریکی صدر کی تقریر میں پاکستان کا دور دور ذکر نہیں تھا جبکہ پاکستان اس کانفرنس کا ایک بہت ہی اہم رکن تھا۔ امریکی صدر نے پاکستان کا نام تو لیا نہیں لیکن وہ بھارت اور اسرائیل کی مظلومیت کا رونا نہیں بھولا۔ وہاں موجود پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو جس طرح نظر انداز کیا اس کو ہر پاکستانی نے بری طرح محسوس کیا ہے اورسعودی عرب کے اس غیر سفارتی حرکت کو پاکستان کی ہتک محسوس کیا۔ جہاں تک امریکی صدر کے سلوک کا تعلق ہے وہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہے، امریکہ صرف اپنے مفاد سے غرض رکھتا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ اب تو جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکیل نے بھی امریکا کو ناقابل اعتماد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یورپ کو اب اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف حکومت کی خارجہ پالیسی یہ ہی رہے گی کہ ملک بے عزت ہوتا رہے، وہ ملک کی خارجہ پالیسی کو کیوں نہیں بہتر کرنا چاہتے ؟ وہ ملک کو ذاتی پسند اور ناپسند پر چلارہے ہیں، وہ کیوں نہیں ایک مستقل وزیر خارجہ کا تقرر کرتے؟۔ 88 سالہ ایک بزرگ سرتاج عزیز جو اب شاید اپنی بھی ٹھیک طرح دیکھ بھال نہیں کرپاتے ہونگے وہ مشیر خارجہ کی حیثیت سے ملک کی خارجہ پالیسی چلارہے ہیں۔دو دن جو کچھ ریاض میں وزیر اعظم کے ساتھ ہوا پاکستانی وزارت خاجہ بھی اس کی زمہ دار ہے،پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے مناسب رابطوں کا فقدان اور سعودی حکام سے معاملات میں سرد مہری کے باعث ایسا ہوا ہے،اور اس کی ایک بڑی وجہ ایک مستقل، مستعداور قابل وزیر خارجہ کی عدم موجودگی ہے ۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان پر یہ بات پہلے دن سے ہی واضح تھی کہ ’اسلامی فوجی اتحاد‘ ایک ایران مخالف اتحاد ہے‘‘۔مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سیاست دان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ سعودی عرب کے خلاف کھل کر کچھ بولے، لیکن ریاض کانفرنس پاکستان کی سیاسی پالیسی کےبرعکس تھی۔ہم ایران کو ناراض نہیں کر سکتے، سب جانتے ہیں کہ ہمارئے پڑوس میں بھارت اور افغانستان پہلے ہی پاکستان کے خلاف ہیں ایسے میں ایران کا پاکستان سے ناراض ہونا پاکستان کےلیے مشکلات کا سبب ہوگا۔

عرب اسلامک امریکن کانفرنس کے بعد پاکستان کہاں کھڑا ہے ، پاکستان کی وزارت خارجہ کےلیے سب سے اہم سوال ہے۔ اس کانفرنس کے بعد اب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ اتحاد ایران کے خلاف ہے، اس کا مقصد داعش یا کسی اوردہشتگرد تنظیم کو ختم کرنا نہیں ہے۔جبکہ پاکستان کے اپنے دو پڑوسی ملکوں افغانستان اور بھارت سے پہلے ہی کشیدہ حالات چل رہے ہیں، ایسے میں ایران کو بھی ناراض کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہوگی۔ وزیر اعظم نواز شریف کو چاہیے کہ وہ پہلے ایران جاکر ایرانی صدر ڈاکٹرحسن روحانی کو دوبارہ صدر منتخب ہونے پر ان کو مبارک دیں اور اس بات کی یقین دھانی بھی کروایں کہ پاکستان ایران کے ساتھ اپنے تعلقات دو برادر مسلم ممالک کی طرح رکھنا چاہتا ہے، جبکہ انہیں سعودی حکومت کو بھی یہ سمجھانا ہوگا کہ پاکستان کا ایران کے خلاف سعودی عرب کا ساتھ دینا مشکل ہے، پاکستان سعودی حکومت کویہ بھی یقین دلائے کہ پاکستان سعودی عرب میں کسی بھی قسم کی دہشتگردی میں اس کے ساتھ ہے،لیکن پاکستانی فوج کےلیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے پڑوسی ایران یاکسی اورملک کے خلاف لڑئے۔ نواز شریف حکومت کو ایسی منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ پاکستان دونوں ملکوں کے ایک اچھے دوست کی طرح سعودی عرب اور ایران کی کشیدگی کو ختم کرانے کے لیےایک ثالثی کا کردار ادا کرئے۔جہاں تک سابق جنرل راحیل شریف کا معاملہ ہے ان کو حکومت پاکستان نے صرف این او سی دیاہے، اسلامی فوجی اتحادمیں شمولیت اور اس کی سربراہی قبول کرنا راحیل شریف کا اپنا ذاتی فیصلہ ہے، ہاں عام پاکستانی یہ چاہتا ہے کہ وہ اس اتحاد سے علیدہ ہوجایں۔
 

Fawad -

محفلین

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​

ايک جانب تو کالم نويس يہ دعوی کر رہے ہيں کہ امريکی حکومت اس اسلامی اتحاد کے ليے ذمہ دار ہے جو سعودی حکومت کی قيادت ميں داعش کی مکروہ سوچ کو ختم کرنے کے ليے تشکيل ديا گيا ہے۔ تاہم کالم نگار کے مطابق اس کا اصل مقصد مسلم امہ کے اتحاد کو نقصان پہنچانا ہے۔ پھر اسی کالم ميں يہ دعوی بھی کيا جا رہا ہے کہ امريکی حکومت داعش کے فتنے کو مسلم دنيا ميں متعارف کروانے کے ليے بھی ذمہ دار ہے تا کہ مبينہ طور پر اسلام اور مسلمانوں کے تشخص کو نقصان پہنچايا جا سکے۔​

منطقی اعتبار سے ديکھيں تو اس کالم ميں جو دلائل پيش کيے گئے ہيں ان ميں اگر کوئ بھی صداقت ہوتی تو پھر ہم کيونکر يہ چاہيں گے کہ سعودی حکومت ديگر شراکت داروں اور فريقين کے ساتھ مل کر اس دہشت گرد تنظيم کے خلاف اتحاد بنائے جو کالم نويس کی دانست ميں نا صرف يہ کہ ہمارے ہی ايماء پر کام کر رہی ہے بلکہ امريکی حکومت سے خفيہ طور پر مدد اور تعاون بھی حاصل کر رہی ہے۔

اس قسم کی متضاد تاويليں اور دلائل محض پيش کی جانے والی کہانيوں کی غير منطقی نوعيت کو اجاگر کرتے ہيں۔

جہاں تک اس لغو الزام کا تعلق ہے کہ امريکہ کسی بھی طور داعش جيسی کالعدم عالمی دہشت گرد تنظيم کو تحفظ فراہم کر رہی ہے يا پس پردہ اس تنظيم کی مدد کر رہی ہے تو اس ضمن ميں ايک نظر ان وسائل پر ڈاليں جو امريکی حکومت اس دہشت گرد تنظيم کے محفوظ ٹھکانوں کو غير فعال کرنے کے ليے روزانہ وقف کر رہی ہے۔

Special Report: Inherent Resolve

ميں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کس منطق کے تحت بعض رائے دہندگان درجنوں اسلامی ممالک اور ان کی حکومتوں کی جانب سے ليے گئے ايک ايسے اجتماعی فيصلے کے ليے امريکہ کو مورد الزام قرار دے رہے ہيں جو خود ان ممالک کے اپنے شہريوں کی حفاظت، طرز زندگی کو برقرار رکھنے اور خود اپنی ہی املاک، وسائل اور عمارات کے تحفظ کے ليے ليا گيا ہے۔ يہ تمام ممالک خطے ميں امريکی ايجنڈوں کے حصول کے ليے کيونکر اپنے وسائل، اثاثے، افرادی قوت اور فوجی سازوسامان کھپانے کے ليے رضامند ہو جائيں گے؟

حقيقت تو يہ ہے کہ امريکہ، سعودی عرب اور ديگر اسلامی ممالک سميت دنيا کا کوئ بھی ملک نا تو دہشت گردی کے معاملے سے لاتعلق رہ سکتا ہے اور نہ ہی جفرافيائ محل وقوع، مذہبی وابستگيوں اور سياسی نظريات کی بنياد پر اس معاملے ميں لاپروائ کا متحمل ہو سکتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​
 
Top