عرب کے کفارکی خوشی کی انتہا

x boy

محفلین
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے صاحبزادے کا جب انتقال ہوا تو عرب کے کفار بہت خوش ہوئے ، خونی رشتوں کی عرب میں بہت اہمیت تھی مگر ابو لہب تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہوا کرتا تھا ، جب یہ تکلیف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آئی تو اسکی تو جیسے عید ہوگئی۔ صبح ہوئ تو وہ گھر گھر یہ خبر پہنچانے لگا (ابتر محمد اللیلتہ) آج رات محمد کی جڑ کٹ گئی اوروہ لا ولد ہوگئے (نعوذ باللہ )
اس کے بعد مکہ کے ایک سردار عاص بن وائل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ابتر کا لفظ خاص کردیا جب بھی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتا تو وہ فورا"منہ بنا کر کہتا کہ ان کی کیا بات کرتے ہو وہ تو ابتر (جڑ کٹے ) آدمی ہیں (نعوذ باللہ ) اس نے اس ابتر والی بات کو خوب پھیلایا یہ بات دو دھاری تلوار کی طرح تھی اس سے انکا مقصد یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے صاحبزادوں کے انتقال کا غم ستاتا رہے اور دوسرا یہ کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم سے کٹ کر اس درخت کی مانند ہوگئے ہیں جس کی جڑیں کٹ گئی ہوں اور وہ گرنے ہی والا ہو ( استغفراللہ )
عاص بن وائل طنزا"کہتا یہ بے نسل رہ گئے انکا کوئی نام لیوا نہیں انکا نام مٹ جائے گا ، مسلمان جدھر سے گزرتے تو کفار ابتر ابتر کہہ کر انکا مذاق اڑاتے، جس سے مسلمانوں کو بہت تکلیف ہوتی ،
اللہ تعالی نے لفظ ابتر کے مقابلے میں سورۃ کوثر کو نازل فرمایا ،
اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے تمہیں کوثر عطا کیا پس تم اپنے رب کی نماز پڑھو اور قربانی کرو ، بے شک تہمارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے
جب یہ سورۃ نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخالفین کے سامنے پڑھی تو وہ اس کے ادبی حسن سے مبہوت رہ گئے لیکن انہیں لفظ کوثر کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا ، چنانچہ وہ لفظ ابتر کو بھول گئے اور لفظ کوثر کے پیچھے پڑ گئے کہ اسکا کیا مطلب ہے ،
لوگ ایک دوسرے کو پوچھنے لگے کہ یہ کوثر کیا ہے، لوگ ماہرین کلام کے آگے پیچھے پھرنے لگے ہر بازار ، ہر گلی ، ہر کوچہ ، ہر محفل میں بس ایک ہی لفظ کی تکرار رہ گئی ، لفظ ابتر کے مقابلے میں لفظ کوثر کا صوتی حسن بہت زیادہ ہے حتیٰ کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں سے رجوع کیا اور لفظ کوثر کا مطلب پوچھا ، اس طرح لفظ کوثر نے مخالفین کے پروپیگنڈے کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے ، وہ مخالفین جو ابتر ابتر کہتے پھرتے تھے ان پر ایک زبردست ضرب لگائی کہ تم مخالف ہی جڑ کٹے ہو ، اللہ نے اپنی نبی کو تو خیر کثیر ، اللہ کا دین اور حوض کوثر عطا کیا ، اولاد کس کی باقی رہی ہے یہ تو سب مٹ جانے والے ہیں ،
اس وقت رواج تھا کہ خانہ کعبہ کے دروازے پر چیلنج کے طور پر کسی شعر یا کلام کو آویزاں کر دیا جاتا کہ اس کے مقابلے میں کوئی شعر یا کلام ہے تو لاؤ ۔ اگر کوئی لے آتا تو پہلے والا اتار کر دوسرا آویزاں کر دیا جاتا ،
مسلمانوں نے بھی سورۃ کوثر کے اعجاز و اثر کو دیکھ کر خانہ کعبہ کے دروازے پر آویزاں کر دیا ، اس چیلنج کا جواب دینے کے لیے بہت جوش وخروش پیدا ہوا اور اس کے بدلے کوئی کلام لانے پر خوب زور لگایا گیا مگر بے سود ، آخر عاجز آ کر کہنے لگے کہ یہ انسان کا قول نہیں ہے
دیکھا آپ نے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن کا کیسے منہ توڑا ، اور انکو ذلیل کیا
انشاء اللہ آج بھی یہ دشمن اور چیلنج کرنے والے منہ کی کھائیں گے اور ذلیل ہونگے ، بے نام ونشان ہو کر رہ جائیں گے اور انکی آنے والی نسلیں انکا انجام دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگائیں گی
قرآن پاک میں ہے ، اور ہم نے تیرے لیے تیرے ذکر کو بلند کر دیا ، تو آپ ذکر قیامت تک بلند رہے گا انشاء اللہ
 

x boy

محفلین
بہت شکریہ ۔۔۔ ۔!

اگر یہ تحریر کسی کتاب سے ہے تو اس کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔
جزاک اللہ بھائی
یہ میرے ایک دوست کی تحریر ہے وہ جو بھی لکھتا ہے ہم اس میں سے پڑھ لیتے ہیں بات عقل کو لگتی ہے تو شئر کرتا ہوں
الحمدللہ یہ بات بھی عقل کو لگی ۔ ۔
 

شمشاد

لائبریرین
برادر اپنے دوست کا بھی تعارف کروا دیں۔ کیا وہ لکھنے پر authority سمجھے جاتے ہیں؟

عقیدت اپنی جگہ لیکن ضروری تو نہیں جو تحریر آپ کی عقل کو لگے دوسروں کی بھی عقل کو لگے۔
 

عمر سیف

محفلین
تفسیر ابن کثیر ۔۔سورۃ کوثر ۔۔
701.jpg

702.jpg

703.jpg

704.jpg
 

ابن رضا

لائبریرین
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے صاحبزادے کا جب انتقال ہوا تو عرب کے کفار بہت خوش ہوئے ، خونی رشتوں کی عرب میں بہت اہمیت تھی مگر ابو لہب تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہوا کرتا تھا ، جب یہ تکلیف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آئی تو اسکی تو جیسے عید ہوگئی۔ صبح ہوئ تو وہ گھر گھر یہ خبر پہنچانے لگا (ابتر محمد اللیلتہ) آج رات محمد کی جڑ کٹ گئی اوروہ لا ولد ہوگئے (نعوذ باللہ )
اس کے بعد مکہ کے ایک سردار عاص بن وائل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ابتر کا لفظ خاص کردیا جب بھی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتا تو وہ فورا"منہ بنا کر کہتا کہ ان کی کیا بات کرتے ہو وہ تو ابتر (جڑ کٹے ) آدمی ہیں (نعوذ باللہ ) اس نے اس ابتر والی بات کو خوب پھیلایا یہ بات دو دھاری تلوار کی طرح تھی اس سے انکا مقصد یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے صاحبزادوں کے انتقال کا غم ستاتا رہے اور دوسرا یہ کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم سے کٹ کر اس درخت کی مانند ہوگئے ہیں جس کی جڑیں کٹ گئی ہوں اور وہ گرنے ہی والا ہو ( استغفراللہ )
عاص بن وائل طنزا"کہتا یہ بے نسل رہ گئے انکا کوئی نام لیوا نہیں انکا نام مٹ جائے گا ، مسلمان جدھر سے گزرتے تو کفار ابتر ابتر کہہ کر انکا مذاق اڑاتے، جس سے مسلمانوں کو بہت تکلیف ہوتی ،
اللہ تعالی نے لفظ ابتر کے مقابلے میں سورۃ کوثر کو نازل فرمایا ،
اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے تمہیں کوثر عطا کیا پس تم اپنے رب کی نماز پڑھو اور قربانی کرو ، بے شک تہمارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے
جب یہ سورۃ نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخالفین کے سامنے پڑھی تو وہ اس کے ادبی حسن سے مبہوت رہ گئے لیکن انہیں لفظ کوثر کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا ، چنانچہ وہ لفظ ابتر کو بھول گئے اور لفظ کوثر کے پیچھے پڑ گئے کہ اسکا کیا مطلب ہے ،
لوگ ایک دوسرے کو پوچھنے لگے کہ یہ کوثر کیا ہے، لوگ ماہرین کلام کے آگے پیچھے پھرنے لگے ہر بازار ، ہر گلی ، ہر کوچہ ، ہر محفل میں بس ایک ہی لفظ کی تکرار رہ گئی ، لفظ ابتر کے مقابلے میں لفظ کوثر کا صوتی حسن بہت زیادہ ہے حتیٰ کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں سے رجوع کیا اور لفظ کوثر کا مطلب پوچھا ، اس طرح لفظ کوثر نے مخالفین کے پروپیگنڈے کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے ، وہ مخالفین جو ابتر ابتر کہتے پھرتے تھے ان پر ایک زبردست ضرب لگائی کہ تم مخالف ہی جڑ کٹے ہو ، اللہ نے اپنی نبی کو تو خیر کثیر ، اللہ کا دین اور حوض کوثر عطا کیا ، اولاد کس کی باقی رہی ہے یہ تو سب مٹ جانے والے ہیں ،
اس وقت رواج تھا کہ خانہ کعبہ کے دروازے پر چیلنج کے طور پر کسی شعر یا کلام کو آویزاں کر دیا جاتا کہ اس کے مقابلے میں کوئی شعر یا کلام ہے تو لاؤ ۔ اگر کوئی لے آتا تو پہلے والا اتار کر دوسرا آویزاں کر دیا جاتا ،
مسلمانوں نے بھی سورۃ کوثر کے اعجاز و اثر کو دیکھ کر خانہ کعبہ کے دروازے پر آویزاں کر دیا ، اس چیلنج کا جواب دینے کے لیے بہت جوش وخروش پیدا ہوا اور اس کے بدلے کوئی کلام لانے پر خوب زور لگایا گیا مگر بے سود ، آخر عاجز آ کر کہنے لگے کہ یہ انسان کا قول نہیں ہے
دیکھا آپ نے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن کا کیسے منہ توڑا ، اور انکو ذلیل کیا
انشاء اللہ آج بھی یہ دشمن اور چیلنج کرنے والے منہ کی کھائیں گے اور ذلیل ہونگے ، بے نام ونشان ہو کر رہ جائیں گے اور انکی آنے والی نسلیں انکا انجام دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگائیں گی
قرآن پاک میں ہے ، اور ہم نے تیرے لیے تیرے ذکر کو بلند کر دیا ، تو آپ ذکر قیامت تک بلند رہے گا انشاء اللہ

اس نوشت کا جواب علامہ صاحب نے کچھ یوں دیا ہے کہ

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
تم خوار ہوئے تارکِ قراں ہو کر
 

شمشاد

لائبریرین
تفسیر ابن کثیر ۔۔سورۃ کوثر ۔۔
701.jpg

702.jpg

703.jpg

704.jpg
جزاک اللہ خیر عمر بھائی۔

صفحہ نمبر 704، جو آپ کے تصویری مراسلے کا آخری صفحہ ہے، اس کے آخری پہرے کی پہلی سطر میں غلطی ہے۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے کا انتقال ہوا ۔۔۔۔۔۔۔
اس میں "کے صاحبزادے" کے الفاظ نہیں ہیں۔
 

عمر سیف

محفلین
جزاک اللہ خیر عمر بھائی۔

صفحہ نمبر 704، جو آپ کے تصویری مراسلے کا آخری صفحہ ہے، اس کے آخری پہرے کی پہلی سطر میں غلطی ہے۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے کا انتقال ہوا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
اس میں "کے صاحبزادے" کے الفاظ نہیں ہیں۔
میں آپ کی بات سے متفق ہوں ۔یقیناً یہ غلطی ہے ۔
 
Top