عروض!!

گرچہ سیکھنے سکھانے میں ہمیں کسی قسم کا امتیاز نہیں اور نہ ہم شاعری میں ممتاز ہیں پھر بھی کئی مرتبہ عروض فہمی کی بن بست گلیوں میں قدم فرسائی کی اور بقول یوسفی جتنے تجربہ کار گئے تھے اس سے کئی زیادہ نا تجربہ کار لوٹے۔۔ پھر ہر ناکامی کے بعد ایک نوید سے سنائی دیتی کہ حضرت حجاز آپ بغیر عروض جانے بھی تو ماشااللہ (ان کی عطر کی دکان ہم نے بوہری بازار کے نکڑ پر دیکھی تھی) موزون کلامی فرما ہی لیتے ہیں پھر کیا پڑی ہے یہ علم کو سیکھ کر بے علم کہلانے کی؟؟ پھر اس بات سے ہم یہ بات خود اخذ کر لیتے (ویسے تو ہم خود سے بہت کم کام ہی کر پاتے ہیں) کہ دیگر شعرا کو بھی یہ عروضیات سیکھنے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔ یہ علم تو محض تنقید نگاروں کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایجاد ہوا ہے تا کہ وہ شاعر کے لسانی اور املائی اغلاط نکالنے بلکہ ان میں ڈالنے کے علاوہ بھی کچھ کر سکیں۔۔۔
 
علم عروض جانے بغیر شاعری کیونکر کی جائے، ملاحظہ فرمائیے ہمارے اس مضمون میں۔ واضح رہے کہ اسے اساتذہ سے چھپ کر پڑھنا ہے
محترم تو پھر یہ عروض دانی (دونوں معنی درست ہیں) تو نہ کہلائے گی۔۔ ترنم دانی (یہاں بھی معنی دو ہیں اور دونوں درست) ہو جاوے گی:)
 

الف عین

لائبریرین
قطعی ضروری نہیں ہے عروض سیکھنا۔ میں تو یہی کہتا ہوں کہ طبیعت میں موزونیت چیزے دیگرست، وہ نہ ہو تو عروض کا علم بھی بیکار ہے، محض تقطیع ہی کرتے رہیں گے، شاعری نہیں۔ یعنی آمد کی جگہ محض آورد ہو گی۔ موزونیت کے لئے ضروری ہے کہ ہزاروں لاکھوں اشعار پڑھے جائیں، کلاسیکی بطور خاص۔ کم از کم نیر کی کلیات ہی پڑھ لی جائے، غالب تو میری بھی سمجھ میں نہیں آتے اکثر!!!
 
عروض ایک الگ علم ہے. علم کو سیکھنا ایک الگ اچھی بات ہے.
لیکن عروض کا تعلق شعر کہنے سے نہیں.
خاص کر میں یہ کہونگا کیونکہ میں نے بذات خود عروض کا نام پہلی بار اس محفل پے سنا تھا. اس سے پہلے تو جانتا بھی نہیں تھا کے عروض کیا چیز ہے.
اس کی دلیل یہ ہے کے خلیل بصری کی پیدائیش سے دو سو سال پہلے بھی شعر کہے جاتے تھے.
یہ ایسی ہی بات ہے کہ نیا زمانہ آگیا. اب عورتیں الیکٹرونک کانٹے پے کھانے کا لازمہ تول کر بھی کھانا پکا لیتی ہیں تب بھی اس میں وہ بات نہیں پیدا ہو پاتی جو پہھلے محض اندازے کی بنیاد پے ڈالے گئے نمک اور کالی مرچ میں ہوتی تھی.
:) :) :)
 

محمد وارث

لائبریرین
کسی بھی شاعر کیلیے ماہر علم عروض ہونا قطعا ضروری نہیں لیکن اس کا ورکنگ نالج ہونا از حد ضروری ہے، اسکے بغیر شاعر محتاج ہی رہے گا ہمیشہ دوسروں کا اور وہ لاکھ موزوں طبع سہی کبھی نہ کبھی کوئی غلطی ہو ہی جائے گی۔

لہذا معمولی علم ہونا بہت ضروری ہے۔
 
اسے نہ جاننے والوں کا شاید یہی خیال ہو گا مگر صرف تب تک جب تک وہ جان نہیں لیتے۔ :)

بے شک۔ میرا بھی یہی خیال تھا ۔ پھر جب میں یہاں آیا اور محمد وارث بھائی کو دیکھا تو اک خواہش سی بن گئی کے اب عروض کو گہرائیوں سے سیکھوں۔
لیکن کمبخت قسمت کے کراچی میں نا ہی بحر الفصاحت موجود ہے اور نا ہی چراغِ سخن۔
اور نا ہی لاہور میں کوئی جاننے والا۔ اب بندہ کہاں جائے؟ کیا کرے؟ :cry:
 
اسے نہ جاننے والوں کا شاید یہی خیال ہو گا مگر صرف تب تک جب تک وہ جان نہیں لیتے۔ :)
تو حضرت رومی کے بارے میں کیا فرمائیں گے کہ وہ کہ گئے:
شعر می گویم بہ از آب حیات
من نہ دانم فاعلاتن فاعلات (من نہ خورم گھوسہ و مکا و لات)
 
بے شک۔ میرا بھی یہی خیال تھا ۔ پھر جب میں یہاں آیا اور محمد وارث بھائی کو دیکھا تو اک خواہش سی بن گئی کے اب عروض کو گہرائیوں سے سیکھوں۔
لیکن کمبخت قسمت کے کراچی میں نا ہی بحر الفصاحت موجود ہے اور نا ہی چراغِ سخن۔
اور نا ہی لاہور میں کوئی جاننے والا۔ اب بندہ کہاں جائے؟ کیا کرے؟ :cry:
لاہور کا تو نہیں پر کراچی کا تو ہم جانیں ہیں کہ بہت خبرہ اور نابغہ حضرات موجود ہیں اس شہر میں۔۔۔ آپ کی بررسی پر موقوف ہے۔۔
 
کسی بھی شاعر کیلیے ماہر علم عروض ہونا قطعا ضروری نہیں لیکن اس کا ورکنگ نالج ہونا از حد ضروری ہے، اسکے بغیر شاعر محتاج ہی رہے گا ہمیشہ دوسروں کا اور وہ لاکھ موزوں طبع سہی کبھی نہ کبھی کوئی غلطی ہو ہی جائے گی۔

لہذا معمولی علم ہونا بہت ضروری ہے۔
اس معمولی علم کی سرحد؟
 
قطعی ضروری نہیں ہے عروض سیکھنا۔ میں تو یہی کہتا ہوں کہ طبیعت میں موزونیت چیزے دیگرست، وہ نہ ہو تو عروض کا علم بھی بیکار ہے، محض تقطیع ہی کرتے رہیں گے، شاعری نہیں۔ یعنی آمد کی جگہ محض آورد ہو گی۔ موزونیت کے لئے ضروری ہے کہ ہزاروں لاکھوں اشعار پڑھے جائیں، کلاسیکی بطور خاص۔ کم از کم نیر کی کلیات ہی پڑھ لی جائے، غالب تو میری بھی سمجھ میں نہیں آتے اکثر!!!
استاد محترم آپ سے کاملاً متفق ہوں۔
 
Top