محمد وارث
لائبریرین
اس معمولی علم کی سرحد؟
وہاں تک کہ شاعر پر جو "کلام" غیب سے نازل ہوتا ہے اس کے متعلق اسے علم ہو سکے کہ اس "الہامی کلام" میں کوئی غلطی تو نہیں رہ گئی۔
اس معمولی علم کی سرحد؟
کم از کم اس شعر کی حد تک اسے شاعر کا تجاہلِ عارفانہ کہیں گے۔تو حضرت رومی کے بارے میں کیا فرمائیں گے کہ وہ کہ گئے:
شعر می گویم بہ از آب حیات
من نہ دانم فاعلاتن فاعلات (من نہ خورم گھوسہ و مکا و لات)
محترم جب ایک بات سیدھی سیدھی ہے تو اسے کیوں پیچ و خم دیتے ہیں۔۔ وہ اپنی زبانی فرمارہے ہیں کہ مجھے عروض نہیں آتی آپ ان کے مدافعتی وکیل بن کر کہہ رہے ہیں کہ جناب یہ تجاہل تجاہل عرفانہ ہے۔۔کم از کم اس شعر کی حد تک اسے شاعر کا تجاہلِ عارفانہ کہیں گے۔
اگر عروض نہ آتی ہوتی تو شاعر "من نہ دانم" کے بعد عین اسی بحر کے وہی ارکان نہ درج کرتا جو اس بحر میں اس مقام پر آنے چاہییں یعنی "فاعلاتن فاعلات"۔۔۔ بجائے اس کے وہ "فاعلن مستفعلات"، "فعل فعلن فاعلات" وغیرہ یا کوئی بھی مہملاتن مہملات لگا دیتا لیکن اس نے "فاعلاتن فاعلات" ہی لکھا جو کہ اس بحر میں اس مقام پر اصل ارکان ہوا کرتے ہیں۔محترم جب ایک بات سیدھی سیدھی ہے تو اسے کیوں پیچ و خم دیتے ہیں۔۔ وہ اپنی زبانی فرمارہے ہیں کہ مجھے عروض نہیں آتی آپ ان کے مدافعتی وکیل بن کر کہہ رہے ہیں کہ جناب یہ تجاہل تجاہل عرفانہ ہے۔۔
حاوی اعظم نے اس شعر کو انہیں سے منسوب کیا ہے اپنی کتاب اصلاح اور عروض کے نئے زاویے۔۔ میرے لیے حاوی کا حرف حرف آخر کا درجہ رکھتا ہے۔۔ البتہ آپ چاہیں تو تحقیق کر سکتے ہیں اور اگر کہیں اور ملے تو ہمیں بھی آگاہ کیجے گا۔اگر عروض نہ آتی ہوتی تو شاعر "من نہ دانم" کے بعد عین اسی بحر کے وہی ارکان نہ درج کرتا جو اس بحر میں اس مقام پر آنے چاہییں یعنی "فاعلاتن فاعلات"۔۔۔ بجائے اس کے وہ "فاعلن مستفعلات"، "فعل فعلن فاعلات" وغیرہ یا کوئی بھی مہملاتن مہملات لگا دیتا لیکن اس نے "فاعلاتن فاعلات" ہی لکھا جو کہ اس بحر میں اس مقام پر اصل ارکان ہوا کرتے ہیں۔
یہ شعر تو بہت سنا تھا لیکن میرے علم میں آج تک نہیں تھا کہ کہ رومی کا شعر ہے۔۔۔ کیا ا س امر کی کوئی سند موجود ہے کہ یہ رومی کا شعر ہے؟
بھئی شاعر شاعر ہے فی البدیہ کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔۔۔اگر عروض نہ آتی ہوتی تو شاعر "من نہ دانم" کے بعد عین اسی بحر کے وہی ارکان نہ درج کرتا جو اس بحر میں اس مقام پر آنے چاہییں یعنی "فاعلاتن فاعلات"۔۔۔ بجائے اس کے وہ "فاعلن مستفعلات"، "فعل فعلن فاعلات" وغیرہ یا کوئی بھی مہملاتن مہملات لگا دیتا لیکن اس نے "فاعلاتن فاعلات" ہی لکھا جو کہ اس بحر میں اس مقام پر اصل ارکان ہوا کرتے ہیں۔
یہ شعر تو بہت سنا تھا لیکن میرے علم میں آج تک نہیں تھا کہ کہ رومی کا شعر ہے۔۔۔ کیا ا س امر کی کوئی سند موجود ہے کہ یہ رومی کا شعر ہے؟
اصلاح کرنے کو وارث صاحب موجود ہیں ناں۔۔وہاں تک کہ شاعر پر جو "کلام" غیب سے نازل ہوتا ہے اس کے متعلق اسے علم ہو سکے کہ اس "الہامی کلام" میں کوئی غلطی تو نہیں رہ گئی۔
میں جاہل آدمی ہوں۔۔۔ مجھے حاوی اعظم صاحب کا تو علم نہیں لیکن عرصۂ دراز سے اس شعر کو دو مختلف شکلوں میں پڑھتے آئے ہیںحاوی اعظم نے اس شعر کو انہیں سے منسوب کیا ہے اپنی کتاب اصلاح اور عروض کے نئے زاویے۔۔ میرے لیے حاوی کا حرف حرف آخر کا درجہ رکھتا ہے۔۔ البتہ آپ چاہیں تو تحقیق کر سکتے ہیں اور اگر کہیں اور ملے تو ہمیں بھی آگاہ کیجے گا۔
چلیے پھر ہم دیکھتے ہیں۔۔۔میں جاہل آدمی ہوں۔۔۔ مجھے حاوی اعظم صاحب کا تو علم نہیں لیکن عرصۂ دراز سے اس شعر کو دو مختلف شکلوں میں پڑھتے آئے ہیں
اول اور زیادہ مشہور شکل تو وہی ہے جو آپ نے لکھی یعنی
شعر می گویم بہ از آبِ حیاتمن ندانم فاعلاتن فاعلاتدوسری شکل یہ بھی کچھ کتب میں پڑھنے کو ملتی ہے:من ندانم فاعلاتن فاعلاتلیک گویم شعر چوں قند و نباتاور ان دونوں صورتوں کے شاعر کی بابت مختلف لوگوں کی مختلف آرا ملتی ہیں لیکن اکثر لوگوں کا کہنا وہی ہے جو آپ نے حاوی اعظم سے منسوب کیا یعنی یہ رومی کا شعر ہے اور مثنوی میں درج ہے لیکن ہم نے مثنوی معنوی کھنگال ماری مگر ان دونوں صورتوں میں تو کجا کسی بھی شکل میں اس سے ملتا جلتا شعر نہیں ملا۔۔۔ ہاں رومی کی غزلیات میں ایسا شعر ضرور مل گیا جس میں "فاعلاتن فاعلات" کی اصطلاح موجود ہے:
رو خمش کن قول کم گو بعد از ایں فعل باشچند گوئے فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتلیکن جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس شعر کا مذکورہ شعر سے کوئی علاقہ نہیں۔ رومی کا تمام کلام بشمول مثنوی و غزلیات انٹرنیٹ پر موجود ہے خصوصاً گنجور اور ریرا کی ویب سائٹس بطور حوالہ دیکھی جا سکتی ہیں اور یہ شعر آپ کو کہیں نہیں ملے گا۔