غزل ۔ اعتماد صدیقی ( حیدرآباد دکن)
تمنا اس سے ملنے کی نہ گھر جانے کی خواہش تھی
مجھے کب باغ سے یوں بے ثمر جانے کی خواہش تھی
خدا جانے کہاں کا آب و دانہ ہے مقدر میں
مجھے طیبہ کی گلیوں میں ہی مر جانے کی خواہش تھی
اسی کو ساحلوں کی ریت نے آسودگی بخشی
جسے گہرے سمندر میں اتر جانے کی خواہش تھی
سفر میں عافیت کے راستے موجود تھے کتنے
مجھی کو دشت وصحرا سے گزر جانے کی خواہش تھی
دیا یہ چاہتا تھا اس کی جانب بھی توجہ ہو
ہوا کے لشکروں کو دربہ در جانے کی خواہش تھی
وہ کیسی آگ تھی جھلسا گئی زیرِ شجر مجھ کو
ذرا سی دیر سائے میں ٹھیر جانے کی خواہش تھی
ابھی تک اعتماد آیا نہیں جینے کا ڈھب تم کو
وہیں سے لوٹ آئے ہو جدھر جانے کی خواہش تھی