الف نظامی

لائبریرین
عزم اور توکّل
از ضیا الامت جسٹس پیر کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ
ماخوذ از خطباتِ ضیاءالامت​
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ان اللہ یحب المتوکلین۔
صدق اللہ العظیم۔
اسلام سے قبل عربوں حالت :برادرانِ اسلام ! آپ جانتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کے عرب اس قابل بھی نہ تھے کہ ان کے پڑوس کی حکومتیں مغرب میں روم کی حکومت اور مشرق میں کسریٰ کی حکومت ان کو غلام بنانا بھی پسند کرتیں۔
یہ اتنے بیکار ، اتنے نکمے اور اتنے گرے ہوئے تھے کہ کسی کا آقا بننا یا کسی کا سردار بننا یا کسی کا حاکم بننا تو بہت دور کی بات ہے ، بیرونی حکومتیں اتنا بھی گوارا نہیں کرتی تھیں کہ ان کو اپنا غلام بنائیں۔ اسلیے اتنی دو عظیم مملکتیں ہوتے ہوئے کسی نے اس خطہ پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اپنا زیرنگیں کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کیونکہ وہ اپنے جاہلی نظام اور طبیعت کے اجڈ پن کی وجہ سے اس قابل بھی نہ تھے کہ ان کی شائستہ حکومتوں کے غلام بن سکیں ۔ ان کی حکائیتیں آپ بیسیوں مرتبہ سنتے ہیں، سن چکے ہیں ، پڑھتے ہیں اور پڑھ چکے ہیں۔ لیکن چند سالوں میں سارا نقشہ ہی بدل گیا۔
وہ کون سی چیز تھی جس نے ان کو سارے عالم انسانی کا امام اور پیشوا بنا دیا۔ جہاں وہ جاتے تھے ظلم و جہالت کی تاریکیاں چھٹ جاتی تھیں ۔ علم اور معرفت کے چراغ روشن ہوجاتے تھے۔ اگر غور کیا جائے تو دو چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہمیں نظر نہیں آتی۔
قرآن اور صاحب قرآن:ایک قرآنِ کریم اور دوسرے صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔ یہ دونئی چیزیں تھیں جو ان میں ظہور پذیر ہوئی تھیں۔ ان کے علاوہ کوئی تیسرا فرد ایسا نہیں تھا کہ جس کا ان میں اضافہ ہوا ہو اور اس نے انہیں اس پستی سے اٹھا کر بلندیوں تک پہنچا دیا ہو۔
قرآن کریم کا معجزہ تھا اور صاحبِ قرآن کی نگاہِ فیض کا اثر تھا جس نے بدوں ، ان جاہلوں کو ، ان اجڈوں کو زمانے کا پیشوا اور رہنما بنا دیا اور اسلام کے خلاف جو انہوں نے کوششیں کیں اور لڑائیاں کیں اور جو انہوں نے جنگیں کیں ۔ جس طرح کے وسائل ان کے پاس موجود تھے تمام کے تمام انہوں نے استمعال کیے ۔ لیکن وہ اپنی سکیم میں کامیاب نہ ہوسکے۔
تو بات سوچنے کی یہ ہے کہ وہی قرآن ، جس نے عرب کے جاہل ، گنوار ، اجڈوں کو معرفت کے آسمان کا آفتاب اور مہتاب بنا دیا۔ کیا وجہ ہے کہ آج وہی قرآن ہم پڑھتے ہیں ، آج وہی قرآن ہمارے بچے یاد کرتے ہیں ، آج وہی قرآن ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں چھپتا ہے۔ ہم پڑھتے ہیں ، سنتے ہیں ، لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ اس میں کوئی فرق نہیں آتا ، کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
جہاں تک میں نے غور کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم پہلے تو قرآن کو سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے ۔ صرف آیتیں پڑھ لیتے ہیں اس کا مفہوم کیا ہے؟ اس طرف توجہ نہیں دیتے اور اگر کبھی توجہ دی بھی ہے تو گہرائیوں میں کبھی اترنے کی ہم نے جرات اور ہمت تک نہیں کی۔ جن گہرائیوں میں حقائق و معارف کے وہ گوہر ہائے شہوار موجود ہیں جو صحابہ کرام نے اپنے دل میں بسائے ۔ اسی قرآن کریم کی ایک آیت میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں ۔ اس آیت کا مطالعہ کرنے کے بعد جہاں تک میں اس کی حقیقت سمجھ سکا ہوں میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اگر آپ بھی اس پر غور کریں گے تو یقینا آپ بھی اپنے دل میں تبدیلی اور انقلاب محسوس کریں گے۔
انسان میں بے شمار صلاحیتیں پوشیدہ ہیں:اس انسان میں مولائے کریم نے اتنی صلاحیتیں اور استعدادیں رکھ دی ہیں کہ اگر ان کی صحیح طور نشوونما ہوجائے تو فرشتے بھی اس کی گردِ راہ کو بوسہ دیں ، آپ نے کبھی غور فرمایا ہے کہ بوہڑ کا درخت ، اس کا بیج کتنا چھوٹا ہوتا ہے ۔ سوئی کے ناکے کے برابر اس کا بیج ہوتا ہے۔ اب اس بیج میں اتنا بڑا تنا اور بے شمار شاخیں اور بے شمار پتے اور معلوم نہیں کیا عطا کیا ۔ اللہ تبارک و تعالی نے اس سوئی کے ناکے کے برابر بیج میں جو سرسوں کے بیج سے بھی چھوٹا ہوتا ہے ۔ا تنے بڑے درخت کو جس کا سایہ دو دو "بیگے" زمین کو ڈھانپ لیا کرتا ہے ، بند کر رکھا ہے۔
اگر بیج نہ ہوتا تو کیا وہ بوہڑ کا درخت پیدا ہوسکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ، جب بیج بویا جاتا ہے تو اس سے تنا نکلتا ہے ۔ جڑیں پھوٹتی ہیں ، تنے سے ٹہنیاں پھیلتی ہیں اور ٹہنیوں سے پتے نکلتے ہیں اور اس کا پھیلاو کئی کئی "بیگے" زمین کو اپنے سائے میں لے لیا کرتا ہے۔
یہ سب کچھ کس چیز میں سمٹا ہوا ہے ؟ اس چھوٹے سے بیج میں جو سوئی کے ناکے کے برابر ہوتا ہے تو جس قدرت والے نے اس چھوٹے سے بیج میں ایک اتنے بڑے درخت کو سمو دیا ہے کہ جس کو دیکھ کر ہم یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اتنا بڑا تنا اتنی بڑی شاخیں اور بے شمار پتے اس چھوٹے سے بیج میں سموئے ہوئے ہیں۔ اسی قدرت والے نے اس پیکر خاکی میں بے شمار صلاحیتیں اور استعدادیں ودیعت فرمائی ہیں۔
جس بیج کو صحیح زمین مل گئی ، صحیح پانی مل گیا ، صحیح نگہداشت مل گئی وہ چند سالوں میں پھیل کر اتنا بڑا درخت بن جاتا ہے کہ جس کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔
اسی طرح انسان کو بھی اگر صحیح تربیت مل جائے ، اس کی تعلیم کا صحیح بندو بست ہوجائے ۔ صحیح طور پر اس کی روحانی و وجدانی کیفیات کی نشوونما ہوجائے تو فرشتے بھی اس کے سامنے دم بخود ہوتے ہیں۔ اور اگر انسان کی طبیعت صحیح نہ ہو تو اس کی صلاحیتیں بروئے کار نہیں لائی جاسکتیں۔ ان صلاحیتوں کو کمزور کرنے والی کیا چیز ہے؟ وہ ہے ارادے کی کمزوری ، ارادہ کیا کہ میں پہلے یہ کام کروں گا پھر راستے میں کوئی رکاوٹ اور تکلیف آگئی تو اس کو چھوڑ دیا اور دوسرا کام شروع کردیا۔ پھر وہاں کوئی رکاوٹ آگئی دل برداشتہ ہوگیا ، اس کو بھی ترک کردیا۔ تو اپنا سارا وقت ، اپنی ساری قوتیں اس میں برباد کرکے چلا جاتا ہے۔ زندگی بھی ساری ختم ہوجاتی ہے اور اس کی جھولی میں نتیجے کے طور پر کوئی چیز اسے میسر نہیں آتی۔
تو اللہ تبارک و تعالی نے ہمیں یہاں کامیاب زندگی بسر کرنے کا طریقہ بتایا ہے ۔ آپ اس آیت مبارکہ میں غور کریں ، صحابہ کرام تو اہلِ زبان تھے ، وہ تو زبان کی خوبیوں اور گہرائیوں کو اطھی طرح جانتے ہیں ۔ جب سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پاک زبان اللہ تبارک و تعالی کے پاک کلام کو تلاوت کرتی تھی تو مسلمان ہی نہیں کافروں پر بھی وجد کی کیفیت طاری ہوجایا کرتی تھی اور وہ بھی مجبور ہوکر سجدہ ریز ہوجایا کرتے تھے۔
کلام عربی کی فصاحت و بلاغت اور قرآنی الفاظ میں جو گہرائیاں اور وسعتیں ہیں ، صحابہ کرام تو ان کو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبانِ پاک سے سنا کرتے تھے اور ان پر عمل پیرا ہوجایا کرتے تھے۔ لیکن ہم تساہل سے گزر جاتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم نے ایک قرّآن شریف ختم کرلیا۔ رمضان شریف میں دس قرآن شریف کے ختم کرلیے اور یہ کرلیا ، وہ کرلیا اور جو قرآن کریم کی معدن اور حقیقت ہے اس تک پہنچنے کی ہم بہت کم کوشش کیا کرے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جس نے بھی قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھا ہے وہ ضرور انقلاب سے روشناس ہوا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
عزم کا صحیح مفہوم:
"فاذا عزمت"​
تو ہم اس کا ترجمہ یوں کردیتے ہیں کہ جب تو ارادہ کرے ، جب تو نیت کرے۔
عزم کا یہ معنی نہیں ہے عربی میں "عزم" کہتے ہیں کہ کسی چیز کے بارے میں پوری طرح غور کرنا ، سوچ بچار کرنا ، تامل کرنا ، تفکر کرنا ، تدبر کرنا ، اس پر مرتب ہونے والے آثار و نتائج کا پوری طرح جائزہ لینا اور جائزہ لینے کے بعد پھر کسی چیز کے کرنے کا ارادہ کرنا۔
یہ ساری چیزیں ملحوظ رکھنے کے بعد جب کوئی انسان کسی چیز کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو عربی میں "عزم" کہتے ہیں۔ یہ نہیں کہ بس شروع کردیا ، ادھر منہ کرلیا اور دکان کھول لی ،اس کو عزم کہہ دیا گیا۔ کوئی کام شروع کردیا تو اس کو عزم کہہ دیا۔
عزم کہتے ہیں جس چیز کو کرنا چاہتے ہو اس پر پوری طرح غور کرو ، اس پر پوری طرح تدبر کرو ، اس پر مرتب ہونے والے نتائج کا پوری طرح جائزہ لو اور دیکھو کہ وہ نتائج ، محنت جو تم کرنے رہے ہو، ان کا صلہ ہوں گے یا نہیں اور اگر یہ نتائج مرتب ہوں گے تو کیا تم ان کے متحمل ہوسکتے ہو؟ جب تمام چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد انسان کوئی کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے ، کمرِ ہمت باندھتا ہے تو اس کو عربی میں "عزم"
کہتے ہیں۔
تو اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے
"فاذا عزمت"​
اے میرے بندے : جو عقل میں نے تجھے عطا فرمائی ہے ، جو دماغ کا روشن چراغ میں نے تجھے ارزانی فرمایا ہے اس سے پوری طرح کام لینے کے بعد ، اس مسئلہ کے نشیب و فراز کا پوری طرح جائزہ لینے اور اس پر مرتب ہونے والے آثار و تنائج کا پوری طرح تجزیہ کرنے کے بعد جب تم اس کا ارادہ کرلو تو اسے عزم کہیں گے۔
"فاذا عزمت"​
جب تم عزم کرلو ، جب تم پختہ نیت کرلو ، جب تم پختہ ارادہ کرلو تو اس کو "عزم" کہتے ہیں۔ جب تک تم اس کے لیے عزم کی کیفیت پیدا نہیں ہوگی تم اس کو سرانجام نہیں دے سکو گے۔ کون سا کام ایسا ہے جس کے راستے میں رکاوٹیں نہ ہوں؟ کون سا راستہ ایسا ہے جس میں پھول کی پتیاں ہی بکھری ہوں اور کانٹا کوئی نہ ہو؟ کوئی ایسا راستہ بھی نہیں ہے کہ جہاں ہولناک گرداب نہ آئیں ، جہاں طوفان برپا نہ ہوں ، جہاں مخالفوں کے پتھروں کی بارش نہیں ہوتی، زندگی ہے ہی آلام کا نام ، اس کو کہتے ہیں دار المحن، یہ مصیبتوں کا گھر ہے ، یہ آلام کا گھر ہے۔
تو جب تک انسان اتنا پختہ ارادہ نہیں کرتا ، جب تک اپنی سوچ سے اپنی خداداد عقل سے کام لیکر اس کے نتائج پر غور نہیں کرلیتا ، جب تک ہر قسم کے انجام سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار نہیں ہوجاتا اس کے ارادے کو اس وقت تک عزم نہیں کہا جاسکتا۔
تو اللہ تبارک و تعالٰے نے اپنے کلام میں اس کی جگہ "و اذا اردت ، واذا ھویت ، واذا ھممت" کا لفظ استمعال نہیں فرماتا۔ بلکہ فرماتا ہے
"فاذا عزمت" جبکہ تو عزم کرلے​
عزم کس کو کہتے ہیں؟ جوش میں آکر کوئی کام کرنا؟ اس کو عزم نہیں کہتے، کسی کے کہنے سے منزل کی طرف رخ کرکے چل پڑنا ، اس کو عزم نہیں کہتے۔ "عزم" کہتے ہیں سوچ سمجھ کر ، عقل خداداد سے پوری طرح کام لے کر ، اس کے عواقب و نتائج سے پوری طرح آگاہی حاصل کرنے کے بعد کمرِ ہمت باندھ کر اس کی طرف قدم اٹھانا اس کو "عزم" کہتے ہیں۔
تو اللہ تبارک و تعالٰے فرماتے ہیں کہ مومن کی زندگی کمزور ارادوں سےعبارت نہیں ہوتی کہ کوئی چلے ، اس کی طرف چلنا ہے ، اس راستے پر کوئی پہاڑ آگیا ، کوئی گھاٹی آگئی ، کوئی دلدل آگیا ، کوئی کیچڑ آگیا ، کوئی اور طرح کی تکلیف آگئی ، تو کسی اور طرف چل نکلے۔سارا وقت اسی طرح گزر گیا۔ یہ مومن کی زندگی نہیں ہے۔ مومن کی زندگی اس قسم کے کمزور ارادوں سے مبّرا ہوا کرتی ہے۔ مومن جب قدم اٹھاتا ہے تو عزم کرکے قدم اٹھاتا ہے۔ پختہ ارادہ کرکے قدم اٹھاتا ہے ، وہ کسی تکلیف کو خاطر میں نہیں لاتا۔ بلکہ وہ پوری طرح تیاری کرکے ، پوری طرح اپنا عزم مصمم کرنے کے بعد منزل متعین کرتا ہے ، منزل متعین کرنے کے بعد پھر عواقب و نتائج سے بے نیاز ہوکر جب اس کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو اللہ تعالٰے کی مدد اس کےشاملِ حال ہوتی ہے۔ منزل چل کر اس کے قدموں میں حاظر ہوتی ہے۔ تو فرمایا
"فاذا عزمت"​
جب تو عزم کرے، یعنی جب تو کام کرنے کا پختہ ارادہ کرے۔

۔
 

الف نظامی

لائبریرین
انسان کتنا ہی پختہ ارادے والا ہو اور کتنی ہی سوچ بچار رکھتا ہو، انسان کتنا ہی دوررس ذہن کا مالک کیوں نہ ہو، اس کے وسائل محدود ، اس کا علم محدود ، اس کے اسباب محدود ، اس کی ساری چیزیں محدود ہیں۔ یہ پیکر خاکی کائنات کی وسعتوں اور گہرائیوں کا کیونکر مقابلہ کرسکتا ہے؟
وہ ان سے کیونکر عہدہ برآ ہو سکتا ہے؟ تو اس کے لیے ایک اور طریقہ بتایا کہ پہلے عزم کرو ، پختہ ارادہ کرلو ، پختہ نیت باندھ لو اور اس کے بعد کیا کرو؟
"توکل علی اللہ"​
اپنے رب پر بھروسہ کرلو!
سمجھو کہ میں پار اتر جاوں گا۔ اللہ پر بھروسہ کرو کہ وہ میری مدد فرمائے گا۔ جہاں میری طاقتیں جواب دے جائیں گی ، چراغِ عقل بجھ جائے گا، جہاں میرا حوصلہ ہمت ہار دے گا ، وہاں میرا رب میری دستگیری فرمائے گا۔ جہاں تمام وسائل ساتھ چھوڑ جائیں گے ، جہاں تمام دوست آنکھیں پھیر لیں گے ،جہاں مصائب و آلام میرے لیے محاصہ تنگ کر دیں گے۔ اس وقت میرا ایک رب ہے جس کو میں نے اپنا مالک اور خالق تسلیم کیا ہوا ہے ، اس کی نصرت آئے گی اور میری دستگیری کرے گی۔
تو پہلے کیا ہے :"عزم" ، اس کے بعد کیا ہے : "توکّل"۔
عزم کے بعد جب انسان اپنے رب پر توکل کرتا ہے تو اللہ تعالٰے کی مدد اپنے بندے کی دستگیری کرتی ہے ، اپنے بندے کا ہاتھ پکڑتی ہے اور منزل کو اس کے قریب کردیتی ہے۔
فرمایا "فاذا عزمت فتوکل علی اللہ"
جب تم پختہ ارادہ کرلو ، جب تم عزم صمیم کرلو "عزم" کا معنی میں نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ سوچ کے بعد تدبر ، غور اور فکر کرنے کے بعد جب تم کسی نتیجے پر پہنچ کر کام کے لئے کمرِ ہمت باندھتے ہو تو اس کو کیا کہتے ہیں؟ عربی زبان میں "عزم" کہتے ہیں۔ شعر ہے
اراداے باندھتا ہوں ،جوڑتا ہوں ، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے​
اسی دلدل میں ساری عمر برباد کردینا یہ مومن کا شیوہ نہیں ہوا کرتا۔ وہ پہلے سوچتا ہے ، اس پر غور وفکر کرتا ہے اس پر مرتب ہونے والے آثار و تنائج اور انجام کو پوری طرح دیکھتا ہے ، دیکھنے کے بعد ان کے حق ہونے کا اور ان کے مفید ہونے کا جب اس کو یقین ہوتا ہے تو پھر وہ کسی تکلیف کو ، کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتا۔
تو اللہ تبارک و تعالٰے فرماتے ہیں اے میرے بندے عزم تو نے کیا ہے ، پختہ ارادہ تو نے کیا ہے ، تم خواہ کتنے ہی پکے ارادے کرلو ، ان گردش ایام کا، ان حادثاتِ زمانہ کا تم تنہا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ آو میری قوتوں پر اعتماد کرو۔ جہاں تمہارے قدم تھک جائیں گے وہاں میری ممد ، تمہاری دستگیری فرماے گی اور راستے کی مشکلیں خود بکود آسان ہوجائیں گی۔
"ان اللہ یحب المتوکلین"​
فرمایا کہ ہم توکل کرنے والوں سے پیار کرتے ہیں
سبحان اللہ! ہم ان سے محبت کرتے ہیں وہ ہمارے محبوب ہوا کرتے ہیں تو توکّل کا یہ معنی نہیں کہ عزم کئے بغیر کہیں کہ ہم توکّل کرتے ہیں۔ پہلے عزم کرو اس کے بعد توکّل کرو۔ جب توکّل صحیح ہوجائے گا ، اللہ تبارک و تعالٰے کی مدد تمہارے شاملِ حال ہوجائے گی، وہ تمہاری دستگیری بھی کرے گا ، وہ تمہاری رہنمائی بھی کرے گا وہ تمہارے راستے کی مشکلات اور رکاوٹوں کو دور فرما دے گا۔
یہ قرآن کریم کے کلمات تھے ، عربی شعرا نے بھی اس مضمون کو بیان کیا ہے ، بڑی عمدگی سے بیان کیا ہے لیکن
چہ نسبت خاک را بعالم پاک​
کہاں قرآن پاک کا اعجاز اور اس کا اسلوبِ بیاں!
عربی شعرا نے بھی اس کو بیان فرمایا ہے ، اس میں بھی بڑی قوت ہے ، اس میں بھی بڑی جامعیت ہے۔ لیکن قرآن کریم کے اسلوب میں اور عرب کے فصیح و بلیغ شاعروں کے بیان میں زمین و آسمان سے بھی زیادہ فرق ہے۔ ایک شاعر کہتا ہے
اذا ھم القی عزمۃ بین عینیہ
و نکب عن جمیع العواقب جانبا​
کہ جب وہ ارادہ کرتا ہے تو عزم کو اپنی نگاہوں کا مرکز بنا لیتا ہے۔ نہ اس کے عزم کی دائیں طرف دیکھتا ہے ، نہ بائیں طرف دیکھتا ہے، نہ اوپر دیکھتا ہے ، نہ نیچے دیکھتا ہے ، ان پر نظریں جمائے رکھتا ہے۔
و نکب عن ذکر العواقب جانبا​
جو راستے کی مشکلات ہیں ، جو تکلیفیں ہیں ، جن امتحانوں سے اسے دوچار ہونا ہے ان کی پروا نہیں کرتا ، وہ اپنی منزل کی محبت میں اس طرح وارفتہ ہوتا ہے کہ ان مشکلوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف قدم بڑھاتا چلا جاتا ہے۔
بڑا ہی اچھا شعر ہے ، بڑا ہی اعلی قسم کا شعر ہے ، لیکن کہاں قرآن کا حسنِ بیاں اور کہاں ان شاعروں کی فصاحت و بلاغت کا معیار؟
تو اللہ تبارک و تعالٰی فرماتے ہیں
"فاذا عزمت فتوکل علی اللہ"​
جب پختہ ارادہ کرلو تو تنہا تم خواہ کچھ بھہ و ، رستمِ زمانہ ہو ، خواہ وقت کے ارسطو ہو ، اپنے زمانے کے سکندر ہو ، کچھ بھی تم بنتے رہو ۔ جب تک میری طرف سے تمہاری دستگیری نہیں ہوگی تو تم منزل نہیں حاصل کرسکو گے۔ اس لئے اللہ تبارک و تعالٰی نے حقیقت و جامعیت کے ساتھ اپنے بندوں کو یہ پیغام سنایا
"فاذا عزمت فتوکل علی اللہ"​
خواہ تم طالبِ علم ہو ، خواہ تم تاجر ہو ، خواہ تم زمیندار ہو ، خواہ تم سپاہی ہو ، خواہ تم فاتح ہو ، خواہ زندگی کے کسی شعبے میں بھی اپنی کوششوں کو صرف کرنے والے ہو ، تو جب تک ان دوچیزوں کو اپنا زادِ راہ نہیں بناتے ، نہ کامیابی ہوگی اور نہ ہی تمہیں سرخروئی کا تاج پہنایا جائے گا۔ انہی کو کامیابی نصیب ہوتی ہے اور انہی کے سر پر سرخروئی کا تاج سجایا جاتا ہے جن میں ایک عزم کی صفت پائی جاتی ہے اور دوسری طرف اللہ تبارک و تعالٰے پر توکّل کی صفت پائی جاتی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ساری زندگی ، صحابہ کرام کی ساری زندگیاں ، کامل مسلمانوں کی ساری زندگیاں ان ہی دو باتوں سے عبارت تھیں، عزم اور توکّل۔ جہاں عزم ہے اور توکّل ہے وہاں کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ پیکرِ عزم تھے:
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال شریف کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تخت خلافت پر مسلمانوں نے متمکن کیا اور فورا ہی چند دنوں میں ارتداد کا فتنہ زور سے اٹھا کر ہر قبیلے میں نبی اور رسول پیدا ہونے لگا۔ مرد تو مرد رہے ، عورتوں نے بھی دعوی شروع کردیا کہ ہم بھی نبیہ ہیں ، ہم پر بھی وحی نازل ہوتی ہے ، ہمیں بھی نبوت پر فائز کیا گیا ہے، ایک جھگڑا آگیا ، ایک آندھی چل گئی ، جس کو دیکھو وہ اپنے قبیلے کے لئے نبوت کا دعوی کر رہا ہے۔ بہت ساری دنیا کو اپنے پیچھے چلائے ہوئے ہے۔ تو جب یہ اطلاعات مدینہ منورہ پہنچیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجلش مشاورت طلب کی ، جلیل القدر صحابہ کومشورے کے لئے بلایا۔
بعض لوگوں نے زکٰوۃ دینے سے انکار کردیا کہ ہم زکٰوۃ نہیں دیتے۔ آپ نے مشورہ لیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ حالات یہ ہیں ، بعض صحابہ کرام کی رائے یہ تھی کہ جو منکرین زکٰوۃ نہیں دیتے وہ کلمہ تو پڑھتے ہیں ، نماز تو پڑھتے ہیں، حج تو کرتے ہیں، اگر ہم ان سے اس وقت جنگ کریں گے تو حالات بڑے نازک ہیں کیونکہ ہر قبیلے سے ایک نبی پیدا ہوگیا ہے۔ یہ چند لوگ بھی ہمارے مخالف ہو جائیں گے ۔ سارا عرب ہمارے مخالف اٹھ کھڑا ہوگا۔ ہم تو تباہ و برباد ہوکر رہ جائیں گے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ پہلے ان نبوت کے جھوٹے دعوے دارون کے ساتھ مقابلہ کیا جائے ، ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ ان سے فارغ ہونے کے بعد منکرین زکٰوۃ کے ساتھ دو دو ہاتھ کریں گے۔ یہ تو دوسرے صحابہ کرام کی رائے تھی ۔ خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کیا رائے تھی ۔۔۔؟
وہ صدیق جس کو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے مصلے پر کھڑا کیا تھا۔
"مرو بابی بکر فلیصلی بالناس"​
حکم دو ابوبکر کو وہ میرے مصلے پر کھڑے ہوکر لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سترہ نمازیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات مبارکی میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مصلے پر کھڑے ہو کر لوگوں کو پڑھائیں۔ آپ امام بنے اور سارے مسلمانوں نے آپ کے مقتدی بن کر آپ کے پیچھے نمازیں ادا کیں۔
تو جس کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی امت کی امامت کے لیے چنا تھا، اس صدیق نے کیا جواب دیا۔
آپ نے فرمایا کہ تم یہ کہتے ہو کہ دشمن کی طاقت بہت زیادہے ، ہماری تعداد بہت کم ہے اور اگر ہم نے ان کے ساتھ جنگ کی تو دشمن ہم پر ہلہ بول دے گا اور مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔
اے میرے دوستو!
کان کھول کر سن لو وہ رسی کہ جس کے ساتھ اونٹ کے پاوں باندھے جاتے ہیں اور یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ تک وہ زکٰوۃ کے طور پر ادا کرتے تھے اور اب اگر وہ بھی دینے سے انکار کریں گے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اکیلا بھی ان کے ساتھ جنگ کرے گا۔ مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میری لاش جنگل کے چیتے اور بھیڑیے باہر گھسیٹ کر لے جائیں اور نوچ کر پارہ پارہ کردیں۔ اپنے ساتھ تو میں یہ سلوک برداشت کرسکتا ہوں لیکن محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دین کو ٹکڑے ٹکڑے نہیں کرسکتا۔
آج حج کا انکار کردیں گے ، کل نماز کا انکار کردیں گے تم یہی کہو گے کہ کلمہ پڑھتے ہیں۔ جو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں ایک عقال دیتا تھا، ایک رسی دیتا تھا جس سے اونٹ کا گھٹنا باندھا جاتا تھا اگر کوئی وہ بھی دینے سے انکار کرے گا تو تم میرا ساتھ نہیں دو گے تو پھر ابوبک اکیلا اس کا مقابلہ کرے گا۔ میں یہ تو برداشت کرسکتا ہوں کہ جنگل سے بھیڑے ، چیتے آئیں اور ابوبکر کی لاش کو گھسیٹتے پھریں اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں لیکن ابوبکر جب تک زندہ ہے وہ دینِ محمدی کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔
فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ، ان اللہ یحب المتوکلین۔​
اسی عزم کا نتیجہ تھا ، اسی توکّل کا نتیجہ تھا کہ وہ سارے فتنے جو آپ کے مختصر سے دور میں پیدا ہوئے ، ختم ہوگئے۔ آپ صرف دو سال ، چار مہینے اور چند دن تختِ خلافت پر متمکن رہے۔ اس قلیل سی مدت میں جو آنکھ جھپکتے ہوئے گزر جاتی ہے ، اس مردِ خدا نے جس کو "عزم" کا سبق بھی اس کے مرشدِ کامل نے اسے یاد کرایا تھا، اس مردِ کامل نے دو سال ،چند مہینے اور چند دن کی قلیل مدت میں جتنے فتنے تھے ، سب مٹا کر رکھ دیے۔ نہ کوئی جھوٹا نبی باقی رہا ، نہ کوئی زکٰوۃ کا انکار کرنے والا باقی رہا ، جہاں جہاں اسلام کا پرچم لہرا رہا تھا وہاں سارے کے سارے صدقِ دل سے نظامِ مصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو قبول کر رہے تھے اور اس پر عمل کر رہے تھے۔ یہ کس کا نتیجہ تھا۔۔۔؟
"فاذا عزمت فتوکل علی اللہ"​
جب انسان عزم کرے تو اپنے رب پر توکّل بھی کرے ، جب عزم بھی ہو اور اپنے رب پر توکّل بھی ہو تو کائنات کی ہر چیز اس کے آگے سرجھکا دیتی ہے ۔ یہ چھوٹی چھوٹی آیتیں ہیں جو صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنیں ، صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سنیں ، فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سنیں ، سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سنیں ، کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام نے سنیں اور ان کے دل میں نقش ہوگئیں۔ انہی کی بنیادوں پر وہ کائنات کو فتح کرتے چلے گئے۔ جہاں جہاں تک ان کے قدم پہنچے ، وہاں وہاں اسلام پہنچا۔ جہاں جہاں یہ نورِ ہدایت جگمگایا ، وہاں وہاں توحید کا پرچم لہرایا۔ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی ، اسلام ہمیں خوابوں میں زندگی بسر کرنے کے لیے لوریاں نہیں دیتا ۔ وہ تو ہمیں جگاتا ہے ، وہ تو ہمیں حقائق سے آگاہ کرتا ہے ، وہ تو ہمیں ان کلیات و جزیات اور قواعد و ضوابط سے آگاہ کرتا ہے ، جن پر کہ انسان کی کامیابی کا دارومدار اور انحصار ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
تو آپ بھی اپنی زندگی میں ان دو چیزوں کو داخل کیجیے ، پہلے خوب غور کیجیے کہ جس منزل کے لئے آپ احرام باندھ رہے ہیں کیا وہ منزل اس قابل ہے کہ جس کے لیے آپ جان جوکھوں میں ڈال سکیں؟ کیا وہ منزل اس قابل ہے کہ آپ ہر چیلنج کو قبول کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں۔ اگر آپ غور و فکر کے بعد اس کا فیصلہ کرلیں کہ یہ منزل اس قابل ہے۔
سبحان اللہ!
طارق بن زیاد اور توکّل:
طارق بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ جب اندلس کے کنارے پہنچے اور کشتیاں جلا دیں تو انہوں نے ایک شعر کہا۔ میں آپ کی خدمت میں وہ شعر عرض کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:
و لسنا نبالی کیف سالت نفوسنا
اذا نحن ادرکنا الذی کان اجررا​
ہمارا جو مقصد ہے وہ ہمیں مل جاے اس مقصد کو پانے کے لئے اگر خون کے دریا دریا بہہ جائیں تو ہم اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ۔ مقصد ملنا چاہیے منزل تک رسائی ہونی چاہیے۔
وہ چیز جو اس قابل ہوتی ہے کہ اسے ایک بندہ مومن حاصل کرے اور اسے حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو طرح طرح کے جور و جفا کا ہدف بنائے۔ اگر ہم اس منزل کو پالیں تو ہمیں اس بات کی قطعا پرواہ نہیں ہے کہ کتنے جوان قربان ہوے ، کتنی رنگ رنگیلی جوانیاں قربان ہوئیں ، کتنے بچے یتیم ہوئے ، ہم اس بات کی پرواہ نہیں کرتے ۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے دین کا جھنڈا بلند رہے ، محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لائے ہوئے نظام کا پرچم لہراتا رہے ، اس کے لئے ہمیں اگر اپنے خون کے دریا بھی بہانے پڑیں تو ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے ، یہی ہمارے لئے سعادت ہے۔
یہی وہ عزم ثابت تھا ، یہی وہ توکل علی اللہ کی صفت تھی ، جس نے طارق بن زیاد کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کیا اور آٹھ سو سال تک مسلمانوں کا ہلالی پرچم دنیا میں لہراتا رہا اور اس کو اپنی برکتوں سے مالا مال کرتا رہا۔ اللہ تبارک و تعالٰی ہمیں بھی قرآنی تعلیمات کو سمجھنے اور ان کو دل میں جگہ دینے کی اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اختتام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

تلمیذ

لائبریرین
راجا صاحب!

انتہائی قابل داد کاوش ہے جو آپ نے جناب کرم شاہ صاحب کے فرمودات یہاں پوسٹ کرکے کی ہے۔اللہ تعالےٰ آپٓکو اسکی جزا دیں۔

فی الحقیقت کارزار حیات کے کسی جوکھم میں پڑنے کے بعد ہم بے بس انسانوں کے لئے اس قادر مطلق پر توکّل ہی واحد سہارا ہو سکتا ہے، جو ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ ایک سے زائد مرتبہ مجھے خود اسکا ذاتی طور پر تجربہ ہے، حالانکہ میں خود کو اس ذات با برکات کا ایک مذنب ترین اور عاجز ترین بندہ سمجھتا ہوں۔

احباب سے التماس ہے کہ یہ فقط کتابی باتیں نہیں ہیں، کسی بھی وقت آپ خود ان پر عمل کرکے دیکھ سکتے ہیں، شرط فقط اخلاص قلب کی ہے۔ توکل واقعی ایک بہترین راہ ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
تلمیذ نے کہا:
راجا صاحب!

انتہائی قابل داد کاوش ہے جو آپ نے جناب کرم شاہ صاحب کے فرمودات یہاں پوسٹ کرکے کی ہے۔اللہ تعالےٰ آپٓکو اسکی جزا دیں۔
تلمیذ ، پسندیدگی کا بہت شکریہ۔
تلمیذ نے کہا:
فی الحقیقت کارزار حیات کے کسی جوکھم میں پڑنے کے بعد ہم بے بس انسانوں کے لئے اس قادر مطلق پر توکّل ہی واحد سہارا ہو سکتا ہے، جو ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ ایک سے زائد مرتبہ مجھے خود اسکا ذاتی طور پر تجربہ ہے، حالانکہ میں خود کو اس ذات با برکات کا ایک مذنب ترین اور عاجز ترین بندہ سمجھتا ہوں۔
احباب سے التماس ہے کہ یہ فقط کتابی باتیں نہیں ہیں، کسی بھی وقت آپ خود ان پر عمل کرکے دیکھ سکتے ہیں، شرط فقط اخلاص قلب کی ہے۔ توکل واقعی ایک بہترین راہ ہے۔
بجا فرمایا ، عزم کے بعد توکل انسان کے لیے بہترین زادِ راہ ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
راجہ صاحب ، اگر آپ جسٹس صاحب کی تفسیر "ضیا القران" اور سیرت "ضیا النبی" برقی شکل میں تبدیل کرنے کی کوئی تدبیر کر سکیں۔۔۔۔ تو یہ امت کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔

تفسیر پر بہت سی کتب میسر ہیں۔۔۔ اسی طرح سیرت پر بہت سی کتب میسیر ہیں۔۔۔۔ مگر پھر بھی ضیا القران اور ضیاء النبی کو وہ خصوصیات حاصل ہیں جو مجھے دیگر بہت سے کتب میں ناپید نظر آتی ہیں۔
مثلا کچھ کتب میں ہمیں بہت سا مواد ملتا ہے، مگر وہ عزم، تڑپ اور انسپائریشن نہیں مل رہی ہوتی جو مجھے جسٹس صاحب کی کتب پڑھ کر محسوس ہو رہی ہوتی ہے۔ پتا نہیں کیسے جسٹس صاحب کے دل کا سارا درد اُن کے قلم میں منتقل ہو جاتا تھا۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ کتب خصوصی طور پر اُس نوجوان نسل کے لیے جو میڈیا کی وجہ سے مغرب سے جلد مانوس ہونے والی ہے۔ یہ خصوصیت بھی دیگر سیرت و تفسیر کی کتب میں فی الحال ناپید ہیں۔

مختصراً، اگر مجھ سے کوئی میری پہلی چوائس پوچھے۔۔۔ تو اس میدان میں یہ دو کتب نوجوان نسل کے حوالے سے پہلے نمبر پر آئیں گی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مہوش علی نے کہا:
راجہ صاحب ، اگر آپ جسٹس صاحب کی تفسیر "ضیا القران" اور سیرت "ضیا النبی" برقی شکل میں تبدیل کرنے کی کوئی تدبیر کر سکیں۔۔۔۔ تو یہ امت کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔
مہوش علی ، ادارہ ضیاالقرآن سے رابطہ کرکے دیکھتا ہوں کہ کیا وہ تفیسر ضیاالقرآن اور ضیاالنبی کو برقیانے اور انٹرنیٹ پر رکھنے پر رضامند ہیں یا نہیں۔

مہوش علی نے کہا:
تفسیر پر بہت سی کتب میسر ہیں۔۔۔ اسی طرح سیرت پر بہت سی کتب میسیر ہیں۔۔۔۔ مگر پھر بھی ضیا القران اور ضیاء النبی کو وہ خصوصیات حاصل ہیں جو مجھے دیگر بہت سے کتب میں ناپید نظر آتی ہیں۔
مثلا کچھ کتب میں ہمیں بہت سا مواد ملتا ہے، مگر وہ عزم، تڑپ اور انسپائریشن نہیں مل رہی ہوتی جو مجھے جسٹس صاحب کی کتب پڑھ کر محسوس ہو رہی ہوتی ہے۔ پتا نہیں کیسے جسٹس صاحب کے دل کا سارا درد اُن کے قلم میں منتقل ہو جاتا تھا۔
ان کے سوزِ اندروں اور تحقیق دونوں کی جھلک ان کے کام میں دکھائی دیتی ہے۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ رحمۃ اللہ علیہ علامہ اقبال کے شیدائیوں میں سے تھے اور ان کے پیغام کے داعی ۔ ان کی زندگی اقبال کے شاہین کا عملی نمونہ ہے۔ وہ “نہ کہہ اور کر کے دکھا“ پر یقین رکھتے تھے۔ مزید کیا کہوں اب تو قحط الرجال کا دور ہے۔
محاسنِ ضیا النبی:
http://www.urduweb.org/mehfil/viewtopic.php?t=750
 

مہوش علی

لائبریرین
راجا نعیم نے کہا:
مہوش علی نے کہا:
راجہ صاحب ، اگر آپ جسٹس صاحب کی تفسیر "ضیا القران" اور سیرت "ضیا النبی" برقی شکل میں تبدیل کرنے کی کوئی تدبیر کر سکیں۔۔۔۔ تو یہ امت کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔
مہوش علی ، ادارہ ضیاالقرآن سے رابطہ کرکے دیکھتا ہوں کہ کیا وہ تفیسر ضیاالقرآن اور ضیاالنبی کو برقیانے اور انٹرنیٹ پر رکھنے پر رضامند ہیں یا نہیں۔

مہوش علی نے کہا:
تفسیر پر بہت سی کتب میسر ہیں۔۔۔ اسی طرح سیرت پر بہت سی کتب میسیر ہیں۔۔۔۔ مگر پھر بھی ضیا القران اور ضیاء النبی کو وہ خصوصیات حاصل ہیں جو مجھے دیگر بہت سے کتب میں ناپید نظر آتی ہیں۔
مثلا کچھ کتب میں ہمیں بہت سا مواد ملتا ہے، مگر وہ عزم، تڑپ اور انسپائریشن نہیں مل رہی ہوتی جو مجھے جسٹس صاحب کی کتب پڑھ کر محسوس ہو رہی ہوتی ہے۔ پتا نہیں کیسے جسٹس صاحب کے دل کا سارا درد اُن کے قلم میں منتقل ہو جاتا تھا۔
ان کے سوزِ اندروں اور تحقیق دونوں کی جھلک ان کے کام میں دکھائی دیتی ہے۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ رحمۃ اللہ علیہ علامہ اقبال کے شیدائیوں میں سے تھے اور ان کے پیغام کے داعی ۔ ان کی زندگی اقبال کے شاہین کا عملی نمونہ ہے۔ وہ “نہ کہہ اور کر کے دکھا“ پر یقین رکھتے تھے۔ مزید کیا کہوں اب تو قحط الرجال کا دور ہے۔

بجا فرما رہے ہیں آپ راجہ صاحب۔ واقعی کچھ قحط الرجال کی صورتحال نظر آتی ہے۔
میں تو یورپ میں پلی بڑھی ہوئی ہوں، مگر جب میں پاکستان میں موجود اپنے کزنز اور اپنی ہم عمر لوگوں کو دیکھتی ہوں تو پتا چلتا ہے کہ وہ اقبال کو نام سے تو جانتے ہیں، مگر کبھی پڑھا نہیں ہے۔
حیرت ہے کہ پاکستان میں رہنے والی نئی نسل کا یہ حال ہے۔

میں جسٹس صاحب کو زیادہ نہیں پڑھ سکی کیونکہ قحط الرجال کے ساتھ ساتھ قحط الکتب کا بھی سامنا ہے۔ جب ہم پاکستان گئے تھے، اُسی وقت اُن کی تحریریں ایک جگہ سے میسر آئیں تھیں۔

جسٹس صاحب کی تفسیر "ضیاء القران" اور "ضیاء النبی" دونوں جدید ہیں اور شاید انپیج میں ٹائپ کی گئی ہیں۔ اگر یہ انپیج فائلیں مل سکیں تو کمال ہو جائے گا۔

اور جو میں کہہ رہی تھی کہ "ضیا القران" نامی یہ تفسیر نوجوان طبقے کے لیے بہت مفید ہے، اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ اس معاملے میں مودودی صاحب کی "تفہیم القران" سے مؤخر ہے اور جسٹس صاحب کو خود تفہیم بہت پسند تھی اور انہوں نے بہت سا مفید مواد تفہیم سے لیا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مہوش علی نے کہا:
میں جسٹس صاحب کو زیادہ نہیں پڑھ سکی کیونکہ قحط الرجال کے ساتھ ساتھ قحط الکتب کا بھی سامنا ہے۔ جب ہم پاکستان گئے تھے، اُسی وقت اُن کی تحریریں ایک جگہ سے میسر آئیں تھیں۔
پاکستان میں جسٹس پیر محمد کرم شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی تمام کتب باآسانی مل جاتی ہیں۔
مہوش علی نے کہا:
جسٹس صاحب کی تفسیر "ضیاء القران" اور "ضیاء النبی" دونوں جدید ہیں اور شاید انپیج میں ٹائپ کی گئی ہیں۔ اگر یہ انپیج فائلیں مل سکیں تو کمال ہو جائے گا۔
ضیا القرآن تو کتابت شدہ ہے جبکہ شاید ضیاءالنبی انپیج میں لکھی گئی ہو۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

بہت اچھے ، بہت خوب واقعی پڑھنے کے لائق تحریرہے اورسوچنے کاکافی کچھ موادہے اس میں ۔ اللہ تعالی آپ کوجزادے(آمین ثم آمین)


والسلام
جاویداقبال
 
Top