الف نظامی
لائبریرین
عزم اور توکّل
از ضیا الامت جسٹس پیر کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ
ماخوذ از خطباتِ ضیاءالامت
ماخوذ از خطباتِ ضیاءالامت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ان اللہ یحب المتوکلین۔
صدق اللہ العظیم۔
اسلام سے قبل عربوں حالت :برادرانِ اسلام ! آپ جانتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کے عرب اس قابل بھی نہ تھے کہ ان کے پڑوس کی حکومتیں مغرب میں روم کی حکومت اور مشرق میں کسریٰ کی حکومت ان کو غلام بنانا بھی پسند کرتیں۔فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ان اللہ یحب المتوکلین۔
صدق اللہ العظیم۔
یہ اتنے بیکار ، اتنے نکمے اور اتنے گرے ہوئے تھے کہ کسی کا آقا بننا یا کسی کا سردار بننا یا کسی کا حاکم بننا تو بہت دور کی بات ہے ، بیرونی حکومتیں اتنا بھی گوارا نہیں کرتی تھیں کہ ان کو اپنا غلام بنائیں۔ اسلیے اتنی دو عظیم مملکتیں ہوتے ہوئے کسی نے اس خطہ پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اپنا زیرنگیں کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کیونکہ وہ اپنے جاہلی نظام اور طبیعت کے اجڈ پن کی وجہ سے اس قابل بھی نہ تھے کہ ان کی شائستہ حکومتوں کے غلام بن سکیں ۔ ان کی حکائیتیں آپ بیسیوں مرتبہ سنتے ہیں، سن چکے ہیں ، پڑھتے ہیں اور پڑھ چکے ہیں۔ لیکن چند سالوں میں سارا نقشہ ہی بدل گیا۔
وہ کون سی چیز تھی جس نے ان کو سارے عالم انسانی کا امام اور پیشوا بنا دیا۔ جہاں وہ جاتے تھے ظلم و جہالت کی تاریکیاں چھٹ جاتی تھیں ۔ علم اور معرفت کے چراغ روشن ہوجاتے تھے۔ اگر غور کیا جائے تو دو چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہمیں نظر نہیں آتی۔
قرآن اور صاحب قرآن:ایک قرآنِ کریم اور دوسرے صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔ یہ دونئی چیزیں تھیں جو ان میں ظہور پذیر ہوئی تھیں۔ ان کے علاوہ کوئی تیسرا فرد ایسا نہیں تھا کہ جس کا ان میں اضافہ ہوا ہو اور اس نے انہیں اس پستی سے اٹھا کر بلندیوں تک پہنچا دیا ہو۔
قرآن کریم کا معجزہ تھا اور صاحبِ قرآن کی نگاہِ فیض کا اثر تھا جس نے بدوں ، ان جاہلوں کو ، ان اجڈوں کو زمانے کا پیشوا اور رہنما بنا دیا اور اسلام کے خلاف جو انہوں نے کوششیں کیں اور لڑائیاں کیں اور جو انہوں نے جنگیں کیں ۔ جس طرح کے وسائل ان کے پاس موجود تھے تمام کے تمام انہوں نے استمعال کیے ۔ لیکن وہ اپنی سکیم میں کامیاب نہ ہوسکے۔
تو بات سوچنے کی یہ ہے کہ وہی قرآن ، جس نے عرب کے جاہل ، گنوار ، اجڈوں کو معرفت کے آسمان کا آفتاب اور مہتاب بنا دیا۔ کیا وجہ ہے کہ آج وہی قرآن ہم پڑھتے ہیں ، آج وہی قرآن ہمارے بچے یاد کرتے ہیں ، آج وہی قرآن ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں چھپتا ہے۔ ہم پڑھتے ہیں ، سنتے ہیں ، لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ اس میں کوئی فرق نہیں آتا ، کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
جہاں تک میں نے غور کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم پہلے تو قرآن کو سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے ۔ صرف آیتیں پڑھ لیتے ہیں اس کا مفہوم کیا ہے؟ اس طرف توجہ نہیں دیتے اور اگر کبھی توجہ دی بھی ہے تو گہرائیوں میں کبھی اترنے کی ہم نے جرات اور ہمت تک نہیں کی۔ جن گہرائیوں میں حقائق و معارف کے وہ گوہر ہائے شہوار موجود ہیں جو صحابہ کرام نے اپنے دل میں بسائے ۔ اسی قرآن کریم کی ایک آیت میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں ۔ اس آیت کا مطالعہ کرنے کے بعد جہاں تک میں اس کی حقیقت سمجھ سکا ہوں میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اگر آپ بھی اس پر غور کریں گے تو یقینا آپ بھی اپنے دل میں تبدیلی اور انقلاب محسوس کریں گے۔
انسان میں بے شمار صلاحیتیں پوشیدہ ہیں:اس انسان میں مولائے کریم نے اتنی صلاحیتیں اور استعدادیں رکھ دی ہیں کہ اگر ان کی صحیح طور نشوونما ہوجائے تو فرشتے بھی اس کی گردِ راہ کو بوسہ دیں ، آپ نے کبھی غور فرمایا ہے کہ بوہڑ کا درخت ، اس کا بیج کتنا چھوٹا ہوتا ہے ۔ سوئی کے ناکے کے برابر اس کا بیج ہوتا ہے۔ اب اس بیج میں اتنا بڑا تنا اور بے شمار شاخیں اور بے شمار پتے اور معلوم نہیں کیا عطا کیا ۔ اللہ تبارک و تعالی نے اس سوئی کے ناکے کے برابر بیج میں جو سرسوں کے بیج سے بھی چھوٹا ہوتا ہے ۔ا تنے بڑے درخت کو جس کا سایہ دو دو "بیگے" زمین کو ڈھانپ لیا کرتا ہے ، بند کر رکھا ہے۔
اگر بیج نہ ہوتا تو کیا وہ بوہڑ کا درخت پیدا ہوسکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ، جب بیج بویا جاتا ہے تو اس سے تنا نکلتا ہے ۔ جڑیں پھوٹتی ہیں ، تنے سے ٹہنیاں پھیلتی ہیں اور ٹہنیوں سے پتے نکلتے ہیں اور اس کا پھیلاو کئی کئی "بیگے" زمین کو اپنے سائے میں لے لیا کرتا ہے۔
یہ سب کچھ کس چیز میں سمٹا ہوا ہے ؟ اس چھوٹے سے بیج میں جو سوئی کے ناکے کے برابر ہوتا ہے تو جس قدرت والے نے اس چھوٹے سے بیج میں ایک اتنے بڑے درخت کو سمو دیا ہے کہ جس کو دیکھ کر ہم یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اتنا بڑا تنا اتنی بڑی شاخیں اور بے شمار پتے اس چھوٹے سے بیج میں سموئے ہوئے ہیں۔ اسی قدرت والے نے اس پیکر خاکی میں بے شمار صلاحیتیں اور استعدادیں ودیعت فرمائی ہیں۔
جس بیج کو صحیح زمین مل گئی ، صحیح پانی مل گیا ، صحیح نگہداشت مل گئی وہ چند سالوں میں پھیل کر اتنا بڑا درخت بن جاتا ہے کہ جس کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔
اسی طرح انسان کو بھی اگر صحیح تربیت مل جائے ، اس کی تعلیم کا صحیح بندو بست ہوجائے ۔ صحیح طور پر اس کی روحانی و وجدانی کیفیات کی نشوونما ہوجائے تو فرشتے بھی اس کے سامنے دم بخود ہوتے ہیں۔ اور اگر انسان کی طبیعت صحیح نہ ہو تو اس کی صلاحیتیں بروئے کار نہیں لائی جاسکتیں۔ ان صلاحیتوں کو کمزور کرنے والی کیا چیز ہے؟ وہ ہے ارادے کی کمزوری ، ارادہ کیا کہ میں پہلے یہ کام کروں گا پھر راستے میں کوئی رکاوٹ اور تکلیف آگئی تو اس کو چھوڑ دیا اور دوسرا کام شروع کردیا۔ پھر وہاں کوئی رکاوٹ آگئی دل برداشتہ ہوگیا ، اس کو بھی ترک کردیا۔ تو اپنا سارا وقت ، اپنی ساری قوتیں اس میں برباد کرکے چلا جاتا ہے۔ زندگی بھی ساری ختم ہوجاتی ہے اور اس کی جھولی میں نتیجے کے طور پر کوئی چیز اسے میسر نہیں آتی۔
تو اللہ تبارک و تعالی نے ہمیں یہاں کامیاب زندگی بسر کرنے کا طریقہ بتایا ہے ۔ آپ اس آیت مبارکہ میں غور کریں ، صحابہ کرام تو اہلِ زبان تھے ، وہ تو زبان کی خوبیوں اور گہرائیوں کو اطھی طرح جانتے ہیں ۔ جب سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پاک زبان اللہ تبارک و تعالی کے پاک کلام کو تلاوت کرتی تھی تو مسلمان ہی نہیں کافروں پر بھی وجد کی کیفیت طاری ہوجایا کرتی تھی اور وہ بھی مجبور ہوکر سجدہ ریز ہوجایا کرتے تھے۔
کلام عربی کی فصاحت و بلاغت اور قرآنی الفاظ میں جو گہرائیاں اور وسعتیں ہیں ، صحابہ کرام تو ان کو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبانِ پاک سے سنا کرتے تھے اور ان پر عمل پیرا ہوجایا کرتے تھے۔ لیکن ہم تساہل سے گزر جاتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم نے ایک قرّآن شریف ختم کرلیا۔ رمضان شریف میں دس قرآن شریف کے ختم کرلیے اور یہ کرلیا ، وہ کرلیا اور جو قرآن کریم کی معدن اور حقیقت ہے اس تک پہنچنے کی ہم بہت کم کوشش کیا کرے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جس نے بھی قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھا ہے وہ ضرور انقلاب سے روشناس ہوا ہے۔