عزیر خدا کے بیٹے؟

علی وقار

محفلین
اس میں کیا شک کہ بسا اوقات افراد یا گروہ مذہبی پیشواؤں کو خدا بنا لیتے ہیں اور کسی اور مقام پر قرآن میں اس کا تذکرہ بھی ہے۔ ممکن ہے کہ اس زمانے میں عرب میں مقیم یہودیوں کے کسی گروہ نے حضرت عذیر علیہ السلام کے متعلق یہ عقیدہ اختیار کر رکھا ہو کیونکہ یہ بات تو سامنے کی ہے کہ یہودیوں کا بالعموم یہ عقیدہ نہ ہے اور ان کے مذہبی لٹریچر میں بھی بظاہر ایسا کچھ نہیں۔
 

علی وقار

محفلین
4Q246 میں مذکور "خدا کا بیٹا"یا Son of God یہودیت کے اندر ایک قابل احترام شخصیت کی طرف اشارہ کرتا ہے تو، اس سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ یہودیوں کا، یا ان کے کسی گروہ کا کسی ربانی یا خدائی صفات کی حامل شخصیت پر یقین موجود رہا ہے اور یہ فی زمانہ ان کے اس استدلال کی نفی کرتا ہے کہ ایسا کوئی تصور ان کے ہاں موجود ہی نہ تھا یا ناپید تھا۔ یہودی نصوص میں "خدا کا بیٹا" کی اصطلاح کا استعمال، یہاں تک کہ اگر ان میں براہ راست عزیر علیہ السلام کا حوالہ نہ دیا جائے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بعض یہودی گروہوں نے ازمنہء قدیم میں خدا کے بیٹے ہونے کے تصورات کو اپنا رکھا تھا۔ امکان غالب ہے کہ کم از کم بعض یہودی گروہ مذکورہ بالا عقیدہ رکھتے ہوں گے، چاہے تمام یہودی کمیونٹیز میں اسے قبول نہ کیا گیا ہو۔ یہ امر بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے کہ قرآن پاک کے نزول کے وقت بھی یہودی عالم قرآنی تعلیمات پر جا بجا اعتراضات کرتے تھے، مگر اس خاص معاملے پر ان کی طرف سے زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی اعتراض نہ کیا گیا، جس سے بالواسطہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں یہودی گروہوں میں سے بعض کا یہ عقیدہ ہو سکتا تھا۔
 
آخری تدوین:
Top