طارق شاہ
محفلین
غزل
عزیزحامد مدنی
صلیب و دار کے قصّے رقم ہوتے ہی رہتے ہیں
قلم کی جنبشوں پر سر قلم ہوتے ہی رہتے ہیں
یہ شاخِ گلُ ہے، آئینِ نمو سے آپ واقف ہے
سمجھتی ہے، کہ موسم کے ستم ہوتے ہی رہتے ہیں
کبھی تیری، کبھی دستِ جنوں کی بات چلتی ہے
یہ افسانے تو زُلفِ خم بہ خم ہوتے ہی رہتے ہیں
توّجہ اُن کی! اب اے ساکنانِ شہر، تم پر ہے
ہم ایسوں پر، بہت اُن کے کرم ہوتے ہی رہتے ہیں
تِرے بندِ قبا سے رشتۂ انفاسِ دوراں تک
کچھ عقدے ناخنوں کو بھی بہم ہوتے ہی رہتے ہیں
ہجومِ لالہ ونسریں ہو یا لب ہائے شیریں ہو!
مِری موجِ نفس سے تازہ دم ہوتے ہی رہتے ہیں
مِرا چاکِ گریباں چاکِ دل سے مِلنے والا ہے
مگر یہ حادثے بھی بیش وکم ہوتے ہی رہتے ہیں
عزیزحامد مدنی