عشرہ رحمت میں حصول رحمت کے اسباب۔

سیما علی

لائبریرین
84aU9zn.jpg


مدرسہ الصالحات ،اندھیری ویسٹ ممبئی ۴۰۰۰۶۱
قرآن حکیم میں اکثر مقامات پر رحمت کا ذکر آیا ہے، جس کے معنیٰ کسی پر رحم کرنا، ترس کھانا اور مہربانی کرنا ہیں۔ اﷲ کے ننانوے ناموں میں الرحمن اور الرحیم بھی شامل ہیں، جس کے معنیٰ بہت رحم کرنے والا اور نہایت مہربان کے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ساری مخلوق کو پیدا کیا، وہ بہت رحمت والا ہے، اس نے اپنے آپ پر رحمت کو لازم کر لیا ہے ، نیز اپنے پاس کتاب میں بھی یہ لکھا ہے ''میری رحمت میرے غضب سے زیادہ ہے''۔اللہ تعالی کی رحمت کے آثار مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی نے لوگوں پر رحم کرتے ہوئے انبیاء اور رسولوں کو بھیجا ، اسی طرح لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے کتابیں بھی نازل فرمائیں، رحمت کے آثار میں مسلمانوں کا ایک دوسرے پر رحم و شفقت کرنا بھی شامل ہے ۔ معاشرتی تعلقات کی بنیاد بھی رحمت پر ہوتی ہی جیسے والدین اور اولاد میں اور میاں بیوی میں رحمت ہوتی ہے۔ اور رحمت کے آثا ر میں سے رمضان المبارک کا پہلا عشرہ بھی ہے ،ان سب سے بڑھ کر یہ کہ قیامت کہ دن اللہ تعالی اپنی رحمت ہی سے اہل ایمان کو جنت میں داخل کرے گا۔
رمضان المبارک کا مہینہ سایہ فگن ہو چکا ہے،اور ہم اس کے پہلے عشرہ رحمت سے بہرہ ور ہو رہے ہیں ، یوں تورمضان المبارک کا پورا مہینہ ہی رحمت و برکت ، مغفرت اور جہنم سےخلاصی سے عبارت ہے، لیکن نبی اکرم ﷺ نے ہر عشرہ کی الگ الگ خصوصیت بیان فرماکر ہم گنہگاروں پر احسان عظیم کیا ہے ،آپ ﷺکا ارشاد ہے:رمضان کا پہلا عشرہ رحمت ،دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے چھٹکارے کا ہے(رواہ صحیح ابن خزیمہ۱۷۸۵) ۔
لیکن کسی چیز کی موجودگی یا اس کے نزول کے باوجودفائدہ اٹھانے کے لیے اس کو حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے ، رحمت خداوندی کا معاملہ بھی بالکل اسی طرح ہے ، لاپرواہی وغفلت اور بے نیازی کے ساتھ اس کاحصول ممکن ہی نہیں، بلکہ ہم رحمت خدواندی کو حاصل ہی نہیں کرسکتے ۔ اللہ کی رحمت غافل و لاپرواہ کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتی ،سورۃ الانعام میں ہے ''وربک الغنی ذوالرحمۃ ''(سورۃ الانعام ۱۳۳)، ''فقل ربکم ذورحمۃ واسعۃ ''(سورۃ الانعام :۱۴۷)اللہ تعالیٰ کی ذات بےنیاز و کشادہ رحمت والی ہے او ر ہم سراپا محتاج ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں :''ما یفتح اللہ للناس من رحمۃ فلا ممسک لھا وما یمسک فلا مرسل لہ من بعدہ وھو العزیز الحکیم'' (سورۃ الفاطر:۲)جس رحمت کو اللہ لوگوں کے لیے کھول دے ،کوئی نہیں ہے جو اسے روک سکے ،اور جسے وہ روک لے ،تو کوئی نہیں ہے جو اس کے بعد اسے چھڑاسکے ،اور وہی ہے جو اقتدار کا بھی مالک ہے ،حکمت کا بھی مالک ہے ۔
خلاصہ یہ کہ ہمیں عشرہ رحمت میں بھی حصول رحمت کی کوشش کرنی ہوگی ۔
رحمت کے حصول کے اسباب مختلف ہیں ، جن میں سر فہرست تقوی، نرمی ، تدبر کے ساتھ قرآن کی تلاوت ، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت شامل ہیں، لوگوں کےساتھ احسان کا معاملہ کرنا ، آپس میں صلح کروانا، صبر ، کثرت استغفار،نھی عن المنکر و امر بالمعروف اور حصول رحمت کی دعا بھی رحمت کے حصول کے اسباب ہیں۔
ذیل میں قرآن وحدیث سے حصول رحمت کے اسباب کو بغرض فائدہ درج کیا جاتا ہے ۔
(۱)رحمت الہی کے حصول کا ایک سبب تقوی ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:''اتَّقُوا مَا بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ''(يٰس:۴۵) بچو اس (عذاب) سے جو تمھارے سامنے ہے اور جو تمھارے پیچھے ہے، تاکہ تم پر رحم کیاجائے۔(۲)رحمت الہی کے حصول کا دوسرا سبب نرمی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو بیچتے خریدتے اور تقاضا کرتے وقت نرمی اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرے۔(۳) رحمتِ الٰہی کے حصول کا تیسرا سبب تلاوت قرآن ، اس پر غور کرنا اور اسے سننا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:''وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ''(الأعراف:۲۰۴) اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور چپ رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔اسی طرح فرمایا: ''وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ''(الأنعام: ۱۵۵)اور یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، بڑی برکت والی ہے، پس اس کی پیروی کرو اور ڈرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ (۴) اسی طرح اللہ کی رحمت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ لوگوں پر احسان کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:''إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ''(الأعراف۵۶) بے شک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔ایک اور جگہ فرمایا:''نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ''(يوسف: ۵۶) ہم اپنی رحمت جس کو چاہتے ہیں پہنچا دیتے ہیں اور ہم نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔(۵) اللہ کی رحمت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ لوگوں کی آپس میں صلح کروانا ہے ۔اللہ تعالی نے فرمایا:''إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ''(الحجرات: ۱۰)مومن تو بھائی ہی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔(۶) رحمت الٰہی کے حصول کا ایک سبب اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:''وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ''(آل عمران:۱۳۲) اور اللہ اور رسول کا حکم مانو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔(۷) اسی طرح صبر بھی رحمت کےحصول کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:''الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ''(البقرة: ۱۵۶،۱۵۷)وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے، تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔(۸) اسی طرح رحمت کا ایک سبب امر بالمعروف اور نھی عن المنکر ہے ،جس کا ذکر اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرمایا ہے:
''وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ''(التوبة:۷۱)اور مومن مرد اور مومن عورتیں، ان کے بعض بعض کے دوست ہیں، وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا ۔(۹) کثرت سے استغفار کرنا بھی رحمت الٰہی کے حصول کا ایک سبب ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:''لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ''(النمل: ۴۶)تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔(۱۰)اللہ تعالیٰ سےرحمت نازل کرنے کی دعا بھی حصول رحمت کا سبب ہے ۔ جیسے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا:''وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ''(الأعراف: ۱۵۱) موسیٰ نے تب دعا کی : 'پروردگار!
مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما۔ تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔اور سلیمان (علیہ السلام) نے بھی دعا کی :''وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ''(النمل: ۱۹)اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما ۔اسی طرح اصحاب کہف نے بھی دعا کی تھی:''رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا''(الكهف: ۱۰) اے ہمارے پروردگار! اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا فرما اور اس معاملہ میں ہماری رہنمائی فرما۔
عشرہ رحمت میں ہمیں بھی چاہئے کہ حصول رحمت کی دعا ،''رب اغفر وارحم وانت خیر الراحمین ''(سورۃ المؤمنون۔۱۱۸)کثرت کے ساتھ مانگتے رہیں۔
مرتب: قاضی مفتی محمد ریاض ارمان القاسمی
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت جب رمضان کی پہلی رات آتی ہےاللہ عزوجل نظررحمت فرماتا ہےجس پر اللہ پاک نظر رحمت فرمائےاس کو کبھی بھی عذاب نہیں ہوگا۔(اَلتَّرغیب والتَّرہیب ج2ص56حدیث7، دارالکتب العلمیہ،) اس مہینہ میں جو کوئی بھی گناہ کرتا ہے وہ اپنے نفس امارہ کی شرارت سے کرتا ہے نہ کہ شیطان کے بہکانے سے۔(مراٰۃ ،ج:3،ص:134)

٭حضرت سَیِّدُنا عبدُاللّٰہ ابن عباس ر َضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ رحمت عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ معظم ہے : ’’جب رَمضان شریف کی پہلی رات آتی ہے تو عرش عظیم کے نیچے سے مَثِیْرہ نامی ہوا چلتی ہے جوجنت کے درختوں کے پتو ں کو ہلاتی ہے، اِس ہوا کے چلنے سے ایسی دِلکش آواز بلند ہوتی ہے کہ اِس سے بہتر آواز آج تک کسی نے نہیں سنی۔اِس آواز کوسن کربڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ظاہر ہوتی ہیں یہاں تک کہ جنت کے بلند محلات پر کھڑی ہوجاتی ہیں اور کہتی ہیں :’’ہے کوئی جو ہم کو اللہ تَعَالٰی سے مانگ لے کہ ہمارا نکاح اُس سے ہو؟‘‘ پھر وہ حوریں داروغۂ جنت (حضرت)رِ ضوان (عَلَیْہِوَالسَّلَام) سے پوچھتی ہیں : ’’آج یہ کیسی رات ہے؟‘‘ (حضرت) رِ ضوان (عَلَیْہِ السَّلَام) جواباً تَلْبِیَہ (یعنی لبَّیْک) کہتے ہیں ، پھر کہتے ہیں :’’یہ ماہِ رَمضان کی پہلی رات ہے، جنت کے دروازےاُمّتِ مُحمّد عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے روزے داروں کے لئے کھول دئیے گئے ہیں ۔ ‘‘(اَلتَّرغیب والتَّرہیب، ج 2 ،ص60، حدیث 23)
٭ بلعموم پورا ہی سال اوربلخصوص رمضان شریف میں ہمیں اس مقولہ کا مصداق بنا رہنا چاہیے’’ رِضائے مولیٰ ازہَمہ اَولیٰ‘‘ یعنی اللہ عزوجل کیمرضی سب سے بہتر ہے۔ یو تو اللہ پاک کی رحمت ہمارے اوپر سارا ہی سال رہتی ہے۔اور رمضان المبارک اس میں مزید اضا فہ ہوجاتا ہے نیز رمضانالمبارک کے ابتدائی 10 دن یہ خصوصیت کے ساتھ اللہ پاک سے رحمت طلب کرنے کے ہے اسی لئےانہیں کہا ہی عشرہ رحمت جاتا ہے یعنی رحمت والے دس دن ۔تو لہذا ہمیں ان دس دنوں میںخصوصیت کے ساتھ اپنے رب کریم سے اس کی رحمت طلب کرنا چاہیئے ۔ اللہ پاک اپنے بندہ سے اس سے مانگنے کو پسند فرماتا اور اس کی رحمت سے بڑے بڑے گناہ گار بخشے جاتے ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۵۳) (پ:24/ الزمر:53) ترجمہ کنزالایمان:’’ تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ،اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو بےشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ، بےشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

احادیث شریف میں ہے ۔پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں جبرئیل امین علیہ السلام حاضر ہوئے اس حال میں کے آپ منبر پر چڑھ رہے تھے اس وقتتین دعائیں کی جن پر آپ علیہ السلام نے امین کہا (پیارے آقا علیہ السلام کی زبان مبارکہ سے جاری ہونے والی کوئی بات رائیگا نھی جاتی) ان میں ایک دعا یہ تھی جس نے ماہِ رمضان کو پایا اور اپنی بخشش نہ کروا سکا تو اس پر آپ نے امین فرمایا۔ (صحیح ابن حبان،ح:410،باب حق الوالدین ،ج:1،ص:315، دارالکتب العلمیہ۔بیروت )

اَبرِ رحمت چھاگیا ہے اور سماں ہے نُورنُور
فضلِ رب سے مغفرت كا ہوگیا سامان ہے​
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت جب رمضان کی پہلی رات آتی ہےاللہ عزوجل نظررحمت فرماتا ہےجس پر اللہ پاک نظر رحمت فرمائےاس کو کبھی بھی عذاب نہیں ہوگا۔(اَلتَّرغیب والتَّرہیب ج2ص56حدیث7، دارالکتب العلمیہ،) اس مہینہ میں جو کوئی بھی گناہ کرتا ہے وہ اپنے نفس امارہ کی شرارت سے کرتا ہے نہ کہ شیطان کے بہکانے سے۔(مراٰۃ ،ج:3،ص:134)

٭حضرت سَیِّدُنا عبدُاللّٰہ ابن عباس ر َضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ رحمت عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ معظم ہے : ’’جب رَمضان شریف کی پہلی رات آتی ہے تو عرش عظیم کے نیچے سے مَثِیْرہ نامی ہوا چلتی ہے جوجنت کے درختوں کے پتو ں کو ہلاتی ہے، اِس ہوا کے چلنے سے ایسی دِلکش آواز بلند ہوتی ہے کہ اِس سے بہتر آواز آج تک کسی نے نہیں سنی۔اِس آواز کوسن کربڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ظاہر ہوتی ہیں یہاں تک کہ جنت کے بلند محلات پر کھڑی ہوجاتی ہیں اور کہتی ہیں :’’ہے کوئی جو ہم کو اللہ تَعَالٰی سے مانگ لے کہ ہمارا نکاح اُس سے ہو؟‘‘ پھر وہ حوریں داروغۂ جنت (حضرت)رِ ضوان (عَلَیْہِوَالسَّلَام) سے پوچھتی ہیں : ’’آج یہ کیسی رات ہے؟‘‘ (حضرت) رِ ضوان (عَلَیْہِ السَّلَام) جواباً تَلْبِیَہ (یعنی لبَّیْک) کہتے ہیں ، پھر کہتے ہیں :’’یہ ماہِ رَمضان کی پہلی رات ہے، جنت کے دروازےاُمّتِ مُحمّد عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے روزے داروں کے لئے کھول دئیے گئے ہیں ۔ ‘‘(اَلتَّرغیب والتَّرہیب، ج 2 ،ص60، حدیث 23)
٭ بلعموم پورا ہی سال اوربلخصوص رمضان شریف میں ہمیں اس مقولہ کا مصداق بنا رہنا چاہیے’’ رِضائے مولیٰ ازہَمہ اَولیٰ‘‘ یعنی اللہ عزوجل کیمرضی سب سے بہتر ہے۔ یو تو اللہ پاک کی رحمت ہمارے اوپر سارا ہی سال رہتی ہے۔اور رمضان المبارک اس میں مزید اضا فہ ہوجاتا ہے نیز رمضانالمبارک کے ابتدائی 10 دن یہ خصوصیت کے ساتھ اللہ پاک سے رحمت طلب کرنے کے ہے اسی لئےانہیں کہا ہی عشرہ رحمت جاتا ہے یعنی رحمت والے دس دن ۔تو لہذا ہمیں ان دس دنوں میںخصوصیت کے ساتھ اپنے رب کریم سے اس کی رحمت طلب کرنا چاہیئے ۔ اللہ پاک اپنے بندہ سے اس سے مانگنے کو پسند فرماتا اور اس کی رحمت سے بڑے بڑے گناہ گار بخشے جاتے ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۵۳) (پ:24/ الزمر:53) ترجمہ کنزالایمان:’’ تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ،اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو بےشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ، بےشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

احادیث شریف میں ہے ۔پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں جبرئیل امین علیہ السلام حاضر ہوئے اس حال میں کے آپ منبر پر چڑھ رہے تھے اس وقتتین دعائیں کی جن پر آپ علیہ السلام نے امین کہا (پیارے آقا علیہ السلام کی زبان مبارکہ سے جاری ہونے والی کوئی بات رائیگا نھی جاتی) ان میں ایک دعا یہ تھی جس نے ماہِ رمضان کو پایا اور اپنی بخشش نہ کروا سکا تو اس پر آپ نے امین فرمایا۔ (صحیح ابن حبان،ح:410،باب حق الوالدین ،ج:1،ص:315، دارالکتب العلمیہ۔بیروت )
جزاک اللہ۔۔رب کریم ماہِ رمضان کے صدقے ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے۔آمین۔
 
Top