سید عاطف علی
لائبریرین
ڈاکٹر اقبال کو نوجوانی میں کافی پڑھا ۔ اول اول بانگ درا بال جبریل اور پھر ضرب کلیم اور ارمغان اور پھر اسکے بعد کچھ فارسی کا درکو شوق پیدا ہوا اور بڑھنے لگا تو اسرار رموز ،پیام،زبور،جاوید نامہ، پس چہ باید کرد وغیرہ بھی پڑھیں ، کیوں کہ والد صاحب بقید حیات تھے اور کلاسیکی فارسی کی اعلی اور بہت اچھی استعداد رکھتے تھے اس لیے ذوق کو پنپنے میں کافی مدد مل جاتی تھی ۔
اسی دور میں بانگ درا کی ابتدائی منظومات بہت دلچسپ لگیں جن میں کئی ایک انگریزی ادب سے ماخوذ بھی ہوا کرتی تھیں انہی میں سے آج ایک پر انگریزی اور اردو دونوں کے متن پر نظر پڑی تو کچھ پرانی یادیں تازہ ہوگئیں ۔ سو اس دھاگے میں پیش کر دیں ۔ ذیل میں ضیا محیی الدین صاحب کی آواز بھی ساتھ ہے اور کیا خوب ہے ۔
Alfred Lord Tennyson
Aug. 6, 1809 - Oct. 6, 1892
TitlesFirst LinesLast Lines
Love And Death
by Alfred Lord Tennyson
What time the mighty moon was gathering light
Love paced the thymy plots of Paradise,
And all about him roll'd his lustrous eyes;
When, turning round a cassia, full in view,
Death, walking all alone beneath a yew,
And talking to himself, first met his sight:
You must begone, said Death, these walks are mine.
Love wept and spread his sheeny vans for flight;
Yet ere he parted said, This hour is thine:
Thou art the shadow of life, and as the tree
Stands in the sun and shadows all beneath,
So in the light of great eternity
Life eminent creates the shade of death;
The shadow passeth when the tree shall fall,
But I shall reign for ever over all.
Source:
The Works Of Alfred Lord Tennyson
Copyright 1893
عشق اور موت ۔
سہانی نمود جہاں کی گھڑی تھی
تبسم فشاں زندگی کی کلی تھی
کہيں مہر کو تاج زر مل رہا تھا
عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی
سيہ پيرہن شام کو دے رہے تھے
ستاروں کو تعليم تابندگی تھی
کہيں شاخ ہستی کو لگتے تھے پتے
کہيں زندگی کی کلی پھوٹتی تھی
فرشتے سکھاتے تھے شبنم کو رونا
ہنسی گل کو پہلے پہل آ رہی تھی
عطا درد ہوتا تھا شاعر کے دل کو
خودی تشنہ کام مے بے خودی تھی
اٹھی اول اول گھٹا کالی کالی
کوئی حور چوٹی کو کھولے کھڑی تھی
زميں کو تھا دعوی کہ ميں آسماں ہوں
مکاں کہہ رہا تھا کہ ميں لا مکاں ہوں
غرض اس قدر يہ نظارہ تھا پيارا
کہ نظارگی ہو سراپا نظارا
ملک آزماتے تھے پرواز اپنی
جبينوں سے نور ازل آشکارا
فرشتہ تھا اک ، عشق تھا نام جس کا
کہ تھي رہبری اس کي سب کا سہارا
فرشتہ کہ پتلا تھا بے تابيوں کا
ملک کا ملک اور پارے کا پارا
پئے سير فردوس کو جا رہا تھا
قضا سے ملا راہ ميں وہ قضا را
يہ پوچھا ترا نام کيا ، کام کيا ہے
نہيں آنکھ کو ديد تيری گوارا
ہوا سن کے گويا قضا کا فرشتہ
اجل ہوں ، مرا کام ہے آشکارا
اڑاتی ہوں ميں رخت ہستی کے پرزے
بجھاتی ہوں ميں زندگی کا شرارا
مری آنکھ ميں جادوئے نيستی ہے
پيام فنا ہے اسی کا اشارا
مگر ايک ہستی ہے دنيا ميں ايسی
وہ آتش ہے ميں سامنے اس کے پارا
شرر بن کے رہتی ہے انساں کے دل ميں
وہ ہے نور مطلق کی آنکھوں کا تارا
ٹپکتی ہے آنکھوں سے بن بن کے آنسو
وہ آنسو کہ ہو جن کی تلخی گوارا
سنی عشق نے گفتگو جب قضا کی
ہنسی اس کے لب پر ہوئی آشکارا
گری اس تبسم کی بجلی اجل پر
اندھيرے کا ہو نور ميں کيا گزارا
بقا کو جو ديکھا فنا ہو گئی وہ
قضا تھی شکار قضا ہو گئی وہ
اسی دور میں بانگ درا کی ابتدائی منظومات بہت دلچسپ لگیں جن میں کئی ایک انگریزی ادب سے ماخوذ بھی ہوا کرتی تھیں انہی میں سے آج ایک پر انگریزی اور اردو دونوں کے متن پر نظر پڑی تو کچھ پرانی یادیں تازہ ہوگئیں ۔ سو اس دھاگے میں پیش کر دیں ۔ ذیل میں ضیا محیی الدین صاحب کی آواز بھی ساتھ ہے اور کیا خوب ہے ۔
Alfred Lord Tennyson
Aug. 6, 1809 - Oct. 6, 1892
TitlesFirst LinesLast Lines
Love And Death
by Alfred Lord Tennyson
What time the mighty moon was gathering light
Love paced the thymy plots of Paradise,
And all about him roll'd his lustrous eyes;
When, turning round a cassia, full in view,
Death, walking all alone beneath a yew,
And talking to himself, first met his sight:
You must begone, said Death, these walks are mine.
Love wept and spread his sheeny vans for flight;
Yet ere he parted said, This hour is thine:
Thou art the shadow of life, and as the tree
Stands in the sun and shadows all beneath,
So in the light of great eternity
Life eminent creates the shade of death;
The shadow passeth when the tree shall fall,
But I shall reign for ever over all.
Source:
The Works Of Alfred Lord Tennyson
Copyright 1893
عشق اور موت ۔
سہانی نمود جہاں کی گھڑی تھی
تبسم فشاں زندگی کی کلی تھی
کہيں مہر کو تاج زر مل رہا تھا
عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی
سيہ پيرہن شام کو دے رہے تھے
ستاروں کو تعليم تابندگی تھی
کہيں شاخ ہستی کو لگتے تھے پتے
کہيں زندگی کی کلی پھوٹتی تھی
فرشتے سکھاتے تھے شبنم کو رونا
ہنسی گل کو پہلے پہل آ رہی تھی
عطا درد ہوتا تھا شاعر کے دل کو
خودی تشنہ کام مے بے خودی تھی
اٹھی اول اول گھٹا کالی کالی
کوئی حور چوٹی کو کھولے کھڑی تھی
زميں کو تھا دعوی کہ ميں آسماں ہوں
مکاں کہہ رہا تھا کہ ميں لا مکاں ہوں
غرض اس قدر يہ نظارہ تھا پيارا
کہ نظارگی ہو سراپا نظارا
ملک آزماتے تھے پرواز اپنی
جبينوں سے نور ازل آشکارا
فرشتہ تھا اک ، عشق تھا نام جس کا
کہ تھي رہبری اس کي سب کا سہارا
فرشتہ کہ پتلا تھا بے تابيوں کا
ملک کا ملک اور پارے کا پارا
پئے سير فردوس کو جا رہا تھا
قضا سے ملا راہ ميں وہ قضا را
يہ پوچھا ترا نام کيا ، کام کيا ہے
نہيں آنکھ کو ديد تيری گوارا
ہوا سن کے گويا قضا کا فرشتہ
اجل ہوں ، مرا کام ہے آشکارا
اڑاتی ہوں ميں رخت ہستی کے پرزے
بجھاتی ہوں ميں زندگی کا شرارا
مری آنکھ ميں جادوئے نيستی ہے
پيام فنا ہے اسی کا اشارا
مگر ايک ہستی ہے دنيا ميں ايسی
وہ آتش ہے ميں سامنے اس کے پارا
شرر بن کے رہتی ہے انساں کے دل ميں
وہ ہے نور مطلق کی آنکھوں کا تارا
ٹپکتی ہے آنکھوں سے بن بن کے آنسو
وہ آنسو کہ ہو جن کی تلخی گوارا
سنی عشق نے گفتگو جب قضا کی
ہنسی اس کے لب پر ہوئی آشکارا
گری اس تبسم کی بجلی اجل پر
اندھيرے کا ہو نور ميں کيا گزارا
بقا کو جو ديکھا فنا ہو گئی وہ
قضا تھی شکار قضا ہو گئی وہ
آخری تدوین: