اپنی نا لائقی کی وجہ سے شعر کہنا آئے نہ آئے،
اس بے چاری ملزمہ "نالائقی" کا مجرب علاج صرف ایک ہے۔ مطالعہ اور اپنے مطالعے کا محاکمہ؛ اب اسے پتہ نہیں کیا کہیں گے کہ مطالعہ سے فرار ممکن ہی نہیں۔ کوئی بھی شخص (اشارہ کسی فرد کی طرف نہیں ہے) جو پڑھنے سے متامل ہے اسے لکھنے کا کتنا حق ہے، وہ خود ہی فیصلہ کر لے۔
میں نے ایک نوجوان سے کہا کہ "یہاں وہاں شاعری پر جو گفتگو ہوتی ہے وہ نکات پہلے سے کسی نہ کسی کتاب میں کسی نہ کسی حوالے سے مذکور ہوتے ہیں"۔
ارشاد ہوا: "تو آپ ان کو یہاں نقل کر دیں (مفہوم: میں تو کتاب پڑھنے پر مائل نہیں)، بلکہ اس کے متن کی شرح بھی کر دیں اور میرے کلام پر منطبق بھی! آخر آپ استاد ہیں"۔
"بجا ارشاد حضور کہ اس فقیر کو آپ نے استاد کی نوکری بلاتنخواہ عنایت فرما دی ہے، بے چارے کو کتابی گردانی اور ٹائپنگ الاؤنس تو دلوا دیجئے! کہ بڑھاپے کے مارے ہوئے جسم میں کچھ جان پیدا ہو جائے کہ وہ آپ کے ایماء پر پڑھے بھی اور پھر اس سارے کچھ کو ٹائپ بھی کرے، اور پھر آپ کے 'استادانہ بے سمتی' کے حامل سوالوں کا جواب دینے کی ہمت بھی پا لے"۔
یہ بات تو ضمناً آ گئی۔ مختصر یہ ہے کہ:
مطالعہ کیجئے، شعر کا بھی، فنِ شعر کا بھی اور رعایاتِ شعر کا بھی، اور سب سے پہلے زبان کا۔ اگلا مرحلہ آپ کے افکار کا ہے جو آپ کی شخصیت کا پرتو ہیں، آپ کوئی سا روپ دھار لیجئے، آپ کے افکار دھوکا نہیں کھائیں گے۔ سو، اپنے آپ سے کبھی جھوٹ مت بولئے۔ بات برائے بات کوئی چیز نہیں ہے۔ اپنے شعر میں انشا کا عنصر لائیے، اس کے بغیر آپ کا کلام کلامِ منظوم بن سکتا ہے، شعر نہیں بن سکتا۔ فکر کے ساتھ ساتھ اظہار، زبان، محاورے اور لفظیات؛ ہر عنصر میں جمالیات لائیے۔ شعر جمالیاتی حوالے سے خالی ہو تو وہی کلامِ منظوم والی بات ہے۔ آپ کی فکر میں جتنی گہرائی ہو گی، آپ کے شعر کی اتنی پذیرائی ہو گی۔ آپ کا مضمون جتنا آفاقی اور ہمہ گیر ہے آپ کے شعر کی عمر بھی اتنی ہی ہو گی۔ وہ جو کہتے ہیں نا، کہ جی میں تو اپنے کتھارسس کے لئے لکھتا ہوں، مجھے قاری سے کیا لینا دینا؛ یہ خود فریبی ہے۔ آپ لکھتے ہی قاری (بشمول سامع) کے لئے ہیں؛ اس کو نکال دیجئے، آپ کا لکھنے کا جواز گیا! آپ نے ایک بات سوچ لی، خود کلامی کر لی، آپ کی تسلی ہو گئی؛ چھوڑئیے کیا کریں گے لکھ کر! سوچ تو اپنی ہے نا! وہ تو کہیں نہیں جا رہی۔ ایک بہت آزمودہ طریقہ یہ بھی ہے کہ اپنے شعر کو کسی اور کا کہا قیاس کیجئے اور اپنی ذات کو نکال کر اپنے قاری کے ذہن سے اس شعر کو دیکھئے پرکھئے۔ اپنے شعر کے ساتھ کچھ وقت گزارئیے اور اس کی نوک پلک جتنی سنوار سکتے ہیں سنوارئیے۔ پھر اگر آپ مطمئن ہیں تو اسے اپنے قاری کے سامنے پیش کیجئے، اگر نہیں تو اُس بے چارے نے آپ کا کچھ نہیں بگاڑا، وہ کس بات کی سزا بھگتے گا؟ اور کیوں؟۔ کاتا اور لے دوڑی والی بات شعر میں نہیں چل سکتی! شعر ایک بار کہہ دیا تو وہ پتھر پر لکیر نہیں بن گیا، اس میں آپ جب چاہیں جتنی بار چاہیں ترامیم کریں چاہے دہائیاں گزر چکی ہوں اور چاہے وہ شعر چھپ بھی چکا ہو۔
بہت آداب۔ دعاؤں کا طالب رہا کرتا ہوں۔