عشق جس دن سے بے اصول ہوا

عاطف ملک

محفلین
عشق جس دن سے بے اصول ہوا
جور و عصیاں بنا، فضول ہوا

چھا گئی دل پہ ایسی بوالہوسی
پھول ہوتا تھا جو، ببول ہوا

وہ کہ ٹھہرے متاعِ جاں میری
میں کہ ان کی ذرا سی بھول ہوا

خار کیا شے ہے، سنگ ہے کیا چیز
ان کے در کا ہوا تو پھول ہوا

تہمتیں، طنز و طعنہ، رسوائی
بسر و چشم سب قبول ہوا

دکھ نہیں تیری بے رخی کا مجھے
جانے کیوں پھر بھی دل ملول ہوا

آپ ناکام کس طرح سے ہوئے
تجربے کا اگر حصول ہوا

یاس کے قافلے رہے تکتے
وقت گویا کہ اڑتی دھول ہوا

ان کی خوشنودی و رضا جوئی
اپنا عاطفؔ یہی اصول ہوا


★★★★
عاطفؔ ملک
فروری ۲۰۲۰​
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ واہ!

کیا کہنے عاطف بھائی!

عشق جس دن سے بے اصول ہوا
جور و عصیاں بنا، فضول ہوا
وہ کہ ٹھہرے متاعِ جاں میری
میں کہ ان کی ذرا سی بھول ہوا
خار کیا شے ہے، سنگ ہے کیا چیز
ان کے در کا ہوا تو پھول ہوا
آپ ناکام کس طرح سے ہوئے
تجربے کا اگر حصول ہوا

ان اشعار پر خصوصی داد! :in-love:
 
کیا کہنے عاطف بھائی۔ بہت خوب
عشق جس دن سے بے اصول ہوا
جور و عصیاں بنا، فضول ہوا

چھا گئی دل پہ ایسی بوالہوسی
پھول ہوتا تھا جو، ببول ہوا

وہ کہ ٹھہرے متاعِ جاں میری
میں کہ ان کی ذرا سی بھول ہوا

آپ ناکام کس طرح سے ہوئے
تجربے کا اگر حصول ہوا

ان کی خوشنودی و رضا جوئی
اپنا عاطفؔ یہی اصول ہوا
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہت خوب عاطف بھائی، کیا ہی مثبت اندازِ نظر ہے

آپ کی غزل پڑھ کر بے اختیار علامہ کا ایک شعر ذہن میں دوڑنے لگا

شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
 

عاطف ملک

محفلین
بہت اچھے اک مثبت طرز فکر
بہت شکریہ
واہ۔
۔۔آپ ناکام کس طرح سے ہوئے۔۔تجربے کا اگر حصول ہوا۔۔۔۔

چلیں جی کچھ تو ہاتھ آیا۔۔۔۔:)
جی بالکل۔۔۔۔اور بہت اہم چیز ہاتھ آئی
واہ واہ!

کیا کہنے عاطف بھائی!

ان اشعار پر خصوصی داد! :in-love:
اس خصوصی داد کیلیے خصوصی شکریہ:battingeyelashes:
کیا کہنے عاطف بھائی۔ بہت خوب
شکریہ تابش بھائی۔۔محبت ہے آپ کی:)
واہ کیا کہنے عاطف بھائی

بہت خوب
شکریہ عبداللہ بھائی
بہت خوب عاطف بھائی، کیا ہی مثبت اندازِ نظر ہے

آپ کی غزل پڑھ کر بے اختیار علامہ کا ایک شعر ذہن میں دوڑنے لگا

شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
بالکل درست کہا۔۔۔۔
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا:)
تعریف کیلیے ممنون ہوں:)
 
آخری تدوین:
عشق جس دن سے بے اصول ہوا
جور و عصیاں بنا، فضول ہوا

چھا گئی دل پہ ایسی بوالہوسی
پھول ہوتا تھا جو، ببول ہوا

وہ کہ ٹھہرے متاعِ جاں میری
میں کہ ان کی ذرا سی بھول ہوا

خار کیا شے ہے، سنگ ہے کیا چیز
ان کے در کا ہوا تو پھول ہوا

تہمتیں، طنز و طعنہ، رسوائی
بسر و چشم سب قبول ہوا

دکھ نہیں تیری بے رخی کا مجھے
جانے کیوں پھر بھی دل ملول ہوا

آپ ناکام کس طرح سے ہوئے
تجربے کا اگر حصول ہوا

یاس کے قافلے رہے تکتے
وقت گویا کہ اڑتی دھول ہوا

ان کی خوشنودی و رضا جوئی
اپنا عاطفؔ یہی اصول ہوا


★★★★
عاطفؔ ملک
فروری ۲۰۲۰​
عاطف صاحب، سلام عرض ہے ۔ عمدہ غزل ہے ۔ میری ناچیز داد قبول فرمائیے ۔
نیازمند،
عؔرفان عابد
 

عاطف ملک

محفلین
واہ بھئی واہ!
بہت عمدہ اشعار ہیں۔
خوبصورت غزل۔
بہت شکریہ آپا:)
بہت خوب عاطف بھائی۔
خوبصورت غزل۔بہت سی داد۔
بہت شکریہ بھائی:)
عاطف صاحب، سلام عرض ہے ۔ عمدہ غزل ہے ۔ میری ناچیز داد قبول فرمائیے ۔
نیازمند،
عؔرفان عابد
متشکرم محترمی:)
 
Top