عشق حقیقی براسطہ عشق مجازی

ماہی احمد

لائبریرین
عشق نامی بیل دو بار دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے ، پہلی بار کویت کے علاقے " الزور " کے صحرا میں میرے ایک سعودی دوست نے دکھائی تھی جوکہ عجیب و غریب اور بد شکل جھاڑی سی تھی اور جو کہ ٹوٹی ہوئی وہاں پڑی تھی اور بقول میرے سعودی دوست یہ وہ بیل ہے کہ جس کی جڑیں زمین کے نیچے نہیں ہوتی بلکہ یہ جس درخت یا پودے سے چمٹ جائے اُسے سُکھا دیتی ہے ، وہ چھوٹی سا ٹوٹا ہوا ٹکڑا جانے وہاں کیسے آ گیا تھا ( اور دوسری بار کراچی میں ایک حکیم صاحب کے پاس دیکھی تھی )
امربیل کہتے ہیں اسکو
علم نہیں خیر مگر ایک بار امی نے عشقِ پیچاں دکھائی تھی۔ کچھ امربیل جیسی ہی لگی دوور سے تو۔
 

نایاب

لائبریرین
یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجے اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔۔۔۔۔
اور کون اس حقیقت سے انکار کرے کہ آگ ہر کثافت کو جلا کر فنا کر دیتی ہے ۔
سونا اس آگ میں پک کٹھالی میں تڑپ کندن بنتا ہے ۔۔۔۔۔۔
یہ وہ جذبہ جسے بیان کرنا اک محال امر ہے ۔ یہ تو ۔۔۔
جس تن لاگی وہ تن جانے ۔۔۔۔۔ کے مصداق ہے ۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجے اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔۔۔ ۔۔
اور کون اس حقیقت سے انکار کرے کہ آگ ہر کثافت کو جلا کر فنا کر دیتی ہے ۔
سونا اس آگ میں پک کٹھالی میں تڑپ کندن بنتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔
یہ وہ جذبہ جسے بیان کرنا اک محال امر ہے ۔ یہ تو ۔۔۔
جس تن لاگی وہ تن جانے ۔۔۔ ۔۔ کے مصداق ہے ۔
ایک بہت خوبصورت استفسار یاد آ گیا
"انسان جب جلتا ہے تو ایک ہی بار جل کر خاکستر کیوں نہیں ہو جاتا؟ کیوں اتنے برس لگ جاتے ہیں، جلتا رہتا ہے مگر بظاہر کوئی آگ بھی نہیں ہوتی، کوئی رنگ بھی نہیں ہوتا"۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
ایک بہت خوبصورت استفسار یاد آ گیا
"انسان جب جلتا ہے تو ایک ہی بار جل کر خاکستر کیوں نہیں ہو جاتا؟ کیوں اتنے برس لگ جاتے ہیں، جلتا رہتا ہے مگر بظاہر کوئی آگ بھی نہیں ہوتی، کوئی رنگ بھی نہیں ہوتا"۔۔۔
محترم ماہی بٹیا بہت خوبصورت استفسار شریک دھاگہ کیا آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
تیز آنچ پر گوشت گلنے کی بجائے جل کر اپنے وجود سے محروم ہوجاتا ہے ۔ اور اس کے جلنے کی تیز بو ناگوار محسوس ہوتی ہے ،
جبکہ دھیمی دھیمی آنچ پر گوشت جب گلنے پرآکر بھننے کے مقام پر پہنچتا ہے تو اس کے بھننے کی خوشبو اشتہاء کو بڑھا دیتی ہے ۔
جذبے بھی انسانی جسم و جاں پر کچھ ایسے ہی اثرات پیدا کرتے ہیں ۔
ہوس تیز آگ کی مانند جو جسم و جاں کو جلاتے متعفن کر دیتی ہے ۔۔
اور عشق دھیمی آنچ کی طرح جسم و جاں کو گلا کر خوشبودار کر دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق ہی نہیں بلکہ اکثر خواہشات آرزوئیں انسان کو اپنی شدت بھری طلب سے سلگاتی رہتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
محترم ماہی بٹیا بہت خوبصورت استفسار شریک دھاگہ کیا آپ نے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
بہت دعائیں
تیز آنچ پر گوشت گلنے کی بجائے جل کر اپنے وجود سے محروم ہوجاتا ہے ۔ اور اس کے جلنے کی تیز بو ناگوار محسوس ہوتی ہے ،
جبکہ دھیمی دھیمی آنچ پر گوشت جب گلنے پرآکر بھننے کے مقام پر پہنچتا ہے تو اس کے بھننے کی خوشبو اشتہاء کو بڑھا دیتی ہے ۔
جذبے بھی انسانی جسم و جاں پر کچھ ایسے ہی اثرات پیدا کرتے ہیں ۔
ہوس تیز آگ کی مانند جو جسم و جاں کو جلاتے متعفن کر دیتی ہے ۔۔
اور عشق دھیمی آنچ کی طرح جسم و جاں کو گلا کر خوشبودار کر دیتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
عشق ہی نہیں بلکہ اکثر خواہشات آرزوئیں انسان کو اپنی شدت بھری طلب سے سلگاتی رہتی ہیں ۔۔۔ ۔۔۔
بجا فرمایا۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
کیا عشق حقیقی کے لئے عشق مجازی کا ناکام ہونا ضروری ہے؟
بالکل بھی ضروری نہیں کہ مجاز کی طلب میں ناکامی حقیقت تک پہنچا دے ۔۔۔۔۔
اکثر اس ناکامی سے حد درجہ مایوس ہوتے اپنی جان بھی ضائع کر دیتے ہیں ۔
بہت کم ہوتے ہیں جو کہ اس ناکامی کا سامنا کرنے پر اپنا احتساب کرتے ہیں اور حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں ۔
عقل علم شوق شدت قلب صافی یہ سب ہمراہ ہوں تو عشق جنم لیتا ہے ۔۔۔۔۔ ورنہ ہوس عشق کے نام میں کھل کھیل رہی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
بالکل بھی ضروری نہیں کہ مجاز کی طلب میں ناکامی حقیقت تک پہنچا دے ۔۔۔ ۔۔
اکثر اس ناکامی سے حد درجہ مایوس ہوتے اپنی جان بھی ضائع کر دیتے ہیں ۔
بہت کم ہوتے ہیں جو کہ اس ناکامی کا سامنا کرنے پر اپنا احتساب کرتے ہیں اور حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں ۔
عقل علم شوق شدت قلب صافی یہ سب ہمراہ ہوں تو عشق جنم لیتا ہے ۔۔۔ ۔۔ ورنہ ہوس عشق کے نام میں کھل کھیل رہی ہوتی ہے ۔۔۔ ۔۔۔
انسان کی جبلت میں خوب سے خوب تر کی جستجو ازل سے ہے۔ مجاز میں خوب تر کا نعم البدل بھی میسر ہوتا ہے ۔ تاہم حقیقی کا بدل ممکن نہیں۔جب مجاز میں جستجو کا سفرکامرانی سے تکمیل کے مراحل طے کر لیتاہے تو بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ کامیاب اختتام کے بعد حقیقت کی تمنا پروان چڑھ سکے۔ کہ انسان اپنی دانست میں منزل حاصل کر چکا ہوتا ہے۔اکثر اوقات اپنے حقیقی حدف سےنابلد رہتا ہے۔تاہم ناکامی کو ہمیشہ کامیابی کے زینے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ روشن قلوب منفی اقدام کے متحمل نہیں ہوتے بلکہ مثبت پیش رفت کرتے ہوئے حرص و ہوس کی سرحدوں سے کہیں آگے نکل جاتے ہیں۔ اور مجاز کی عارضی راحت کو تیاگ کر حقیقت کی دائمی چاشنی کو ترجیح دیتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
انسان کی جبلت میں خوب سے خوب تر کی جستجو ازل سے ہے۔ مجاز میں خوب تر کا نعم البدل بھی میسر ہوتا ہے ۔ تاہم حقیقی کا بدل ممکن نہیں۔جب مجاز میں جستجو کا سفرکامرانی سے تکمیل کے مراحل طے کر لیتاہے تو بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ یہ کامیاب اختتام کے بعد حقیقت کی تمنا پروان چڑھ سکے۔ کہ انسان اپنی دانست میں منزل حاصل کر چکا ہوتا ہے۔اکثر اوقات اپنے حقیقی حدف سےنابلد رہتا ہے۔تاہم ناکامی کو ہمیشہ کامیابی کے زینے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ روشن قلوب منفی اقدام کے متحمل نہیں ہوتے بلکہ مثبت پیش رفت کرتے ہوئے حرص و ہوس کی سرحدوں سے کہیں آگے نکل جاتے ہیں۔ اور مجاز کی عارضی راحت کو تیاگ کر حقیقت کی دائمی چاشنی کو ترجیح دیتے ہیں۔
یعنی اگر عشق مجازی میں کامیابی ہو تو حقیقی کا کوئی چانس نہیں؟
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک بہت خوبصورت استفسار یاد آ گیا
"انسان جب جلتا ہے تو ایک ہی بار جل کر خاکستر کیوں نہیں ہو جاتا؟ کیوں اتنے برس لگ جاتے ہیں، جلتا رہتا ہے مگر بظاہر کوئی آگ بھی نہیں ہوتی، کوئی رنگ بھی نہیں ہوتا"۔۔۔
ایک بار ایک شاعری دیکھی تھی کہ عشق اگربتی کی طرح ہے، چند لمحوں کا جلنا اور ساری عمر کا سلگنا :)
پسِ نوشت: یہ ناکامی کی بات ہے۔ کامیابی کی صورت میں چتا ایک ہی بار جلتی ہے :)
 

نایاب

لائبریرین
یعنی اگر عشق مجازی میں کامیابی ہو تو حقیقی کا کوئی چانس نہیں؟
جب طلب جسم و جاں پوری ہو گئی تو نفس اپنی لذات میں اسیر ہوگیا ۔۔۔۔۔ خواہش کا دائرہ مکمل ہوگیا ۔
ذات حقیقی جب ہی یاد آتی ہے جب ناکامیاں نامرادیاں انسان کو ستاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ایسے بھی خوش نصیب ہوتے ہیں جن کی طلب بنا کسی یقین و گمان کے پوری ہوجاتی ہے ۔ مجاز حاصل ہوجاتا ہے تو وہ اس طلب کے پورا ہونے پر حقیقت کی جانب نکل پڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
عشق حقیقی کی جانب چل نکلنا بڑے نصیب کی بات بڑے کرم کا فیصلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
ایک بار ایک شاعری دیکھی تھی کہ عشق اگربتی کی طرح ہے، چند لمحوں کا جلنا اور ساری عمر کا سلگنا :)
پسِ نوشت: یہ ناکامی کی بات ہے۔ کامیابی کی صورت میں چتا ایک ہی بار جلتی ہے :)
یہ پس نوشت سمجهنے میں دقت کا سامنا ہے، مدد!
 

ابن رضا

لائبریرین
یعنی اگر عشق مجازی میں کامیابی ہو تو حقیقی کا کوئی چانس نہیں؟
انسان اپنی دانست میں منزل حاصل کر چکا ہوتا ہے۔اکثر اوقات اپنے حقیقی حدف سےنابلد رہتا ہے۔تاہم ناکامی کو ہمیشہ کامیابی کے زینے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ روشن قلوب منفی اقدام کے متحمل نہیں ہوتے بلکہ مثبت پیش رفت کرتے ہوئے حرص و ہوس کی سرحدوں سے کہیں آگے نکل جاتے ہیں۔ اور مجاز کی عارضی راحت کو تیاگ کر حقیقت کی دائمی چاشنی کو ترجیح دیتے ہیں۔
انسان کے تجربات اس کے بہترین استاد ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ساری عمر کچھ نہیں سیکھتے اور بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بہت کم مشاہدات سے بہت زیادہ فہم و فراست حاصل کر لیتے ہیں۔ جو لوگ مجاز کے تجربے سے واقعی مستفید ہوتے ہیں تو وہ کامیاب رہے ہوں یا ناکام وہ حقیقت کا مشاہد ہ کرنے کی جسارت ضرور کرتے ہیں۔ اس لیے ان کا سفر ختم نہیں ہوتا۔کیوں کہ حقیقی سے بہتر ممکن ہی نہیں۔۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
یعنی عشق کامیاب ہوا اور شادی ہو گئی تو پھر اللہ ہی بہتری کرے اور عشق کو قائم و دائم رکھے :)
ضروری تو نہیں، عشق تو عشق ہے، اس کا شادی سے کیا تعلق ہوا بهلا؟
بلکہ مجهے تو عشق کے "کامیاب" اور "ناکام" ہونے کی بهی بات پلے نہیں پڑتی، بهلا یہ کوئی کهیل ہے؟
 
CUJA_TAMUheintze.jpg
یہ امربیل ہے جناب :)
 
Top