محمد تابش صدیقی
منتظم
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دم بہ دم
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نم
اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک
اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم
دل کی آزادی شہنشاہی ، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے ، دل یا شکم!
اے مسلماں! اپنے دل سے پوچھ ، ملا سے نہ پوچھ
ہوگیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم
علامہ اقبال ؒ
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دم بہ دم
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نم
اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک
اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم
دل کی آزادی شہنشاہی ، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے ، دل یا شکم!
اے مسلماں! اپنے دل سے پوچھ ، ملا سے نہ پوچھ
ہوگیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم
علامہ اقبال ؒ