عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی-چترا سنگھ
فرخ منظور لائبریرین جولائی 12، 2009 #2 واہ واہ بہت ہی خوبصورت گائی ہے چترا نے اور اس سے بھی خوبصورت جگجیت نے اس غزل کی دھن بنائی ہے۔ مرزا غالب ڈرامے کی تمام تر موسیقی ہی بہت خوبصورت تھی۔ بہت شکریہ پون شئیر کرنے کے لئے۔ اس غزل کا ٹیکسٹ یہاں کاپی کر رہا ہوں۔ عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی میری وحشت تری شہرت ہی سہی قطع کیجے نہ تعلّق ہم سے کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے غیر کو تجھ سے محبّت ہی سہی اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی عمر ہر چند کہ ہے برق خرام دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے بے نیازی تری عادت ہی سہی یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
واہ واہ بہت ہی خوبصورت گائی ہے چترا نے اور اس سے بھی خوبصورت جگجیت نے اس غزل کی دھن بنائی ہے۔ مرزا غالب ڈرامے کی تمام تر موسیقی ہی بہت خوبصورت تھی۔ بہت شکریہ پون شئیر کرنے کے لئے۔ اس غزل کا ٹیکسٹ یہاں کاپی کر رہا ہوں۔ عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی میری وحشت تری شہرت ہی سہی قطع کیجے نہ تعلّق ہم سے کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے غیر کو تجھ سے محبّت ہی سہی اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی عمر ہر چند کہ ہے برق خرام دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے بے نیازی تری عادت ہی سہی یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی