ادب دوست
معطل
ہے لہو مجھ کو میسر زیرِ پا بالائے سر
عشق میں پتھر ہی پتھر زیرِ پا بالائے سر
دھوپ جھلسائے برابر زیرِ پا بالائے سر
آگ لگتی ہے سراسر زیرِ پا بالائے سر
کم ہی دیکھے ہیں مسخر زیرِ پا بالائے سر
کربلا میں تھے بَہتّر زیرِ پا بالائے سر
رب سے رحمت کی دعا ہو اور قدم بڑھتے رہیں
دونوں جانب ہے مقدر زیرِ پا بالائے سر
پاؤں سے نکلی زمیں چکرا گیا سر دیکھئے
گردشِ دوراں کے تیور زیرِ پا بالائے سر
چاندنی نے کر دیا روشن جو کوئے یار کو
ہوگیا رستہ منور زیرِ پا بالائے سر
ان کے آنے کی خبر پر جام اچھالے جائیں گے
ہوگا کچھ لمحوں میں ساغر زیرِ پا بالائے سر
ہوگئی، بارش میں جب بھیگا دوپٹہ ننگے پیر
پھول کو شبنم میسر زیرِ پا بالائے سر
زندگی برباد تھی جنت بھی نکلی ہاتھ سے
عشق میں لٹتے ہیں دو گھر زیرِ پا بالائے سر
رات کو مزدور کی چادر میں اتنے چھید تھے
رو پڑی غربت لپٹ کر زیرِ پا بالائے سر
تاجِ شاہی آئے گا آخر کو دیوانوں کے ہاتھ
کیا خبر رکھیں کہاں پر؟ زیرِ پابالائے سر
کہہ تو دی ہے اک غزل محفل میں رکھ کر دیکھئے
رکھتے ہیں کس جا سخنور زیرِ پا بالائے سر
عشق میں پتھر ہی پتھر زیرِ پا بالائے سر
دھوپ جھلسائے برابر زیرِ پا بالائے سر
آگ لگتی ہے سراسر زیرِ پا بالائے سر
کم ہی دیکھے ہیں مسخر زیرِ پا بالائے سر
کربلا میں تھے بَہتّر زیرِ پا بالائے سر
رب سے رحمت کی دعا ہو اور قدم بڑھتے رہیں
دونوں جانب ہے مقدر زیرِ پا بالائے سر
پاؤں سے نکلی زمیں چکرا گیا سر دیکھئے
گردشِ دوراں کے تیور زیرِ پا بالائے سر
چاندنی نے کر دیا روشن جو کوئے یار کو
ہوگیا رستہ منور زیرِ پا بالائے سر
ان کے آنے کی خبر پر جام اچھالے جائیں گے
ہوگا کچھ لمحوں میں ساغر زیرِ پا بالائے سر
ہوگئی، بارش میں جب بھیگا دوپٹہ ننگے پیر
پھول کو شبنم میسر زیرِ پا بالائے سر
زندگی برباد تھی جنت بھی نکلی ہاتھ سے
عشق میں لٹتے ہیں دو گھر زیرِ پا بالائے سر
رات کو مزدور کی چادر میں اتنے چھید تھے
رو پڑی غربت لپٹ کر زیرِ پا بالائے سر
تاجِ شاہی آئے گا آخر کو دیوانوں کے ہاتھ
کیا خبر رکھیں کہاں پر؟ زیرِ پابالائے سر
کہہ تو دی ہے اک غزل محفل میں رکھ کر دیکھئے
رکھتے ہیں کس جا سخنور زیرِ پا بالائے سر