عشق میں لُٹتے ہیں دو گھر زیرِ پا بالائے سر

اچھی غزل کہی ہے۔ مرحوم تسلیم بھی خوش ہوئے ہوں گے۔
استادِ محترم مرحوم تسلیم کا تو علم نہیں مگر آپ کا یہ ایک جملہ پڑھ کر جتنی خوشی مجھے ہوئی ہے وہ بیان سے باہر ہے یقین کیجئے آج ساری محنت وصول ہوئی۔
بہت بہت نوازش۔ بہت بہت شکریہ
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی سب سے پہلے تو آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے توجہ دی۔
میرا اپنا شعری عقیدہ یہ ہے کہ جو بات شاعر شعر میں بیان نہ کر سکے اس بات کو نثر میں بھی بیان نہ کرے یعنی مضمون شعر میں ہی کہنا چاہییے شعر کی مدد کے لیے نثر کا سہارا لینا میں درست نہیں سمجھتا۔
لیکن یہاں کچھ عرض کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ایک تو آپ نے اتنی شفقت سے حوصلہ افزئی فرمائی دوسرے یہ کہ میں محفل میں بہت سے لوگوں کی بات اور انکی رائے کو بہت اہمیت دیتا ہوں جن میں آپ بھی شامل ہیں لہذا صرف اس خیال سے کچھ عرض کروں گا واضح رہے کہ بحثیت شاعر اپنے شعر کے بارے میں گفتگو کرنا میں اپنی زاتی رائے میں درست نہیں سمجھتا
اگر آپ ان اشعار کی طرف اشارہ کر دیں تو مجھے بہت آسانی ہوگی۔ یہ عرض کرنے میں کہ میں نے کیا کہنے کی کوشش کی ہے، کہہ سکا یا نہیں بہرحال یہ فیصلہ قاری ہی کا ہوتا ہے
محبت ہے آپ کی کہ آپ نے میری گزارش کا جواب اتنے خلوص سے دیا۔ مجھے جن اشعار میں ردیف اضافی لگ رہی ہے وہ یہ ہیں:
دھوپ جھلسائے برابر زیرِ پا بالائے سر
آگ لگتی ہے سراسر زیرِ پا بالائے سر

کم ہی دیکھے ہیں مسخر زیرِ پا بالائے سر
کربلا میں تھے بَہتّر زیرِ پا بالائے سر

رب سے رحمت کی دعا ہو اور قدم بڑھتے رہیں
دونوں جانب ہے مقدر زیرِ پا بالائے سر

زندگی برباد تھی جنت بھی نکلی ہاتھ سے
عشق میں لٹتے ہیں دو گھر زیرِ پا بالائے سر
ان اشعار کو نثر بنا کر دیکھیے، مثلاً
دھوپ جھلسائے برابر زیرِ پا بالائے سر
پاؤں کے نیچے اور سر پر دھوپ برابر جھلسائے ۔ سر پر تو دھوپ جھلساتی ہے لیکن پاؤں کے نیچے دھوپ کیسے جھلسا سکتی ہے؟ ہاں پاؤں کے نیچے آبلے پڑ سکتے ہیں

آگ لگتی ہے سراسر زیرِ پا بالائے سر
پاؤں کے نیچے اور سر پرآگ لگتی ہے۔ کیسے؟

الخ
 
محبت ہے آپ کی کہ آپ نے میری گزارش کا جواب اتنے خلوص سے دیا۔ مجھے جن اشعار میں ردیف اضافی لگ رہی ہے وہ یہ ہیں:

ان اشعار کو نثر بنا کر دیکھیے، مثلاً
دھوپ جھلسائے برابر زیرِ پا بالائے سر
پاؤں کے نیچے اور سر پر دھوپ برابر جھلسائے ۔ سر پر تو دھوپ جھلساتی ہے لیکن پاؤں کے نیچے دھوپ کیسے جھلسا سکتی ہے؟ ہاں پاؤں کے نیچے آبلے پڑ سکتے ہیں

آگ لگتی ہے سراسر زیرِ پا بالائے سر
پاؤں کے نیچے اور سر پرآگ لگتی ہے۔ کیسے؟

الخ

بہت شکریہ فاتح بھائی، میں اپنی گزارشات عرض کئے دیتا ہوں۔ مطلع ثانی میں یہ مضمون باندھا ہے کہ
دھوپ کی تپش براہِ راست سر پر ، اور اسی دھوپ کی تمازت سے جلنے والی زمین، ننگے پیروں کو جھلسا رہی ہے اور یہ تمازت اس قدر زیادہ ہے گویا حقیقی آگ میں جل رہے ہوں
 
کم ہی دیکھے ہیں مسخر زیرِ پا بالائے سر
کربلا میں تھے بَہتّر زیرِ پا بالائے سر

اس مطلع میں یہ مضمون باندھا ہے کہ
مشاہدہ ہے کہ جس کو تسخیر کر لیا جائے وہ کبھی مسخّر کرنے والے پر فائق نہیں ہوتا مگر کربلا کے معرکے میں جن کو بظاہر زیر کرلیا گیا اور جو بظاہر سموں اور ٹاپوں کے نیچے تھے درحقیقت وہی ہر طریقے سے فائق رہے
 
رب سے رحمت کی دعا ہو اور قدم بڑھتے رہیں
دونوں جانب ہے مقدر زیرِ پا بالائے سر

اس شعر میں یہ کہ
انسان کا مقدر اسکی اپنی محنت اور اللہ کی رحمت دونوں سے براہِراست تعلق رکھتا ہے۔ رحمت کی ضمیر آسمان کی طرف اور کوشش زمینی۔
 
زندگی برباد تھی جنت بھی نکلی ہاتھ سے
عشق میں لٹتے ہیں دو گھر زیرِ پا بالائے سر

اس میں یوں کہ
عشق کا حاصل یہ ہوا کہ اول تو اس دنیا کی زندگی برباد ہوئی او پھر جنت بھی ہاتھ سے نکلی گویا انسان کو میسر پہلا گھر یہ دنیا اور دوسرا گھر جنت دونوں ضائع ہوگئے
 
ان اشعار میں مضمون کے ساتھ ساتھ لفظی و معنوی رعایتوں سے ردیف کو نبھایا گیا ہے
( نبھا سکا یا نہیں یہ فیصلہ بہرحال قاری کا ہی تسلیم کیا جائے گا)
 
Top