عشق ننگِ آستاں ، پیرِ مغاں کا کیا کروں

عاطف ملک

محفلین
عشق ننگِ آستاں، پیرِ مغاں کا کیا کروں
حُسن رسوائے جہاں، بادہ کشاں کا کیا کروں

کیا خرد کم تھی جو میری جان کو آیا جنوں
اے خدا! اب اس بلائے ناگہاں کا کیا کروں

شامِ ہجراں تُو بتا، کیسے چھپاؤں حالِ دل
لب پہ رکھ تو لُوں ہنسی ، اشکِ رواں کا کیا کروں

کیا خبر مرغ ِتخیل ، کس افق پر کھو گیا
نسخہِ پرواز گُم ہے، آسماں کا کیا کروں

شاہراہ ِ زیست سے اب، دھوپ ہجرت کر گئی
گر شجر مل جائے بھی تو ، سائباں کا کیا کروں

روزِ محشر، اک تماشا اور بھی تھا منتظر
جان چھوٹی تھی مکاں سے ، لامکاں کا کیا کروں

پار ہو اُس کے جگر کے ، زخم کاری چاہیے
دیجئے مجھ کو قلم ، نوکِ سناں کا کیا کروں

ہر شعر نہایت ہی عمدہ ہے۔
آپ واقعی اچھی نقاد کے ساتھ ساتھ بہت ہی اچھی شاعرہ بھی ہیں۔
بہت سی داد قبول کیجیے۔
 
Top