سید محمد نقوی
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نہیں معلوم اس تحریر کو پڑھنے والے کس مذہب، مسلک، یا دین کے پابند ہیں۔ لیکن اتنا ضرور ہے سب قارئین کا میری فکر و نظر سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ آزادی فکر کا مطلب ہی یہی ہے۔ فبشر عبادی الذین یستمعون القول و یتبعون احسنہ۔ خیر میں اس تحریر میں کوئی ایسی بات نہیں کرنے والاہوں جس میں اختلاف نظر ہو، یا بحث مباحثہ ہو، لیکن یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں، کہ اس تحریر میں جو باتیں آئیں گی شاید بعض لوگوں کو اس سے اختلاف ہو۔ ان حضرات سے پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔ ہمارے سامنے جب کبھی کربلا اور نجف کا ذکر ہوتا ہے، دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، روح جانب معشوق سفر کرجاتی ہے، آنکھوں کو اگر روکا نہ جائے تو آنسووں سے بھیگ جاتی ہیں۔ نہیں معلوم آپ نے کبھی عشق کیا ہے کہ نہیں، ہمارا عشق تو ایسا ہے، کسی حسینہ کی جگہ ہم شاہ کربلا کے عشق میں گرفتار ہیں۔جب معشوق کا ذکر ہو تو ہمارا حال کیا ہوتا ہے، یہ تحریر کرنے سے قاصر ہوں۔بس اتنا سن لیں،
تمنائے نجف قاتل ہے میری
مجھے عشق و جنون کربلا ہے
ہمارا یہ سفر کہاں سے شروع ہوا؟ ہوا یہ کہ ایک دن ہاسٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے، ایک ایسی بات ہوئی جو ہمارے دلوں کے زخموں پر نمک چھڑک گئی۔ کربلا جانا ہے۔ اس وقت تو یہ بات گذر گئی اور بھلا دی گئی۔ لیکن دل کا کیا حال تھا، عاشق لوگ ہی جان سکتے ہیں۔ دو ہفتے بعد طے پایا ۲۵۰ سٹوڈنٹس کو کربلا لے جانا ہے۔ اس درمیان کیا ہوا، کافی لمبی کہانی ہے، آگے بڑھتا ہوں۔
۱۰ جنوری۲۰۱۰، یونیورسٹی کے مرکزی ہال میں، ایک میز پر چند لسٹیں رکھی ہیں، دو افراد بیٹھے ہیں، آنے والوں کے نام لکھ رہے ہیں۔ میز کی دوسری طرف ہجوم ہے۔ ۷۰۰ افراد نام لکھواچکے ہیں۔ میں بظاہر پرسکون کھڑا یہ منظر دیکھ رہا ہوں۔ لیکن دل میں محشر بپا ہے۔ بڑی مشکل سے بات کی جارہی ہے۔ جب یہ خیال ستاتا ہے کہ یہ سب لوگ چودہ دن بعد کربلا میں ہوں گے، اور میں نہیں جاسکتا، رونے کو دل کرتا ہے۔ آپ بھی جارہے ہیں؟ ایک صاحب نے پوچھا۔ میرے دل کا کیا حال ہوا، میں ہی جانتا ہوں۔ کیا جواب دیتا، نہیں کہنے کو دل نہیں مانتا، ہاں کہنے کو حالات روکتے ہیں۔ دل ہی دل میں، معشوق سے کہا، بتاو تمھے کیا منظور ہے؟ کیا کہہ دوں کہ دل تو چاہتا ہے مگر، حضرت دل کے مالک بلا نہیں رہے۔ فورا جواب مل گیا، آجاو۔ بس پھر کیا، جو کام ناممکن تھا، ایک ہفتے میں ممکن ہوگیا۔ جس کو بھی بتایا کہ جا رہا ہوں، مان نہیں رہا۔ ایک دوست نے تو کہہ دیا کہ یار مزاق چھوڑو سچ بتاو۔ سچ کیا بتاتا، خود بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ چند دنوں میں، بارگاہ عشق میں ہوں گا۔ تفصیل لکھنے سے قاصر ہوں کہ اس میں چند پردہ نشینوں کے نام ہیں، اور کسی کو رسوا کرنے، مسلک عشق نہیں۔
خیر بڑی مشکلات جھیلیں، لیکن آخر وہ دن آہی گیا۔ جب ۶۰۰ طالب علم، کربلا کے لیے روانہ ہونے لگے۔ ہم بھی ایک خادم کی حیثیت سے ساتھ تھے۔ حقیقت تو یہ ہے ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنی بڑی سعادت، اتنی آسانی سے نصیب ہوگئی۔ ۸ فروری کو رات نو بجے ہم سرحد کی جانب چل پڑے۔ خوشی ہماری، نہ پوچھیے، کہ ابھی بھی اس کی یاد سے ہم پھولوں نہیں سماتے۔
لیکن انتظار کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے گھڑی آگے بڑھنے کی جگہ پیچھے جارہی ہے۔ کیا ہوتا اگر ہمیں بھی خدا نے پر دیے ہوتے۔ لیکن اس انتظار میں جو لذت ہے، اسے کسی چیز سے نہیں بدلا جاسکتا، اور اس کے بعد جب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوتی ہیں، تو آدمی تمنا کرتا ہے، کہ کاش یہ گھڑیاں اور طویل ہوتیں۔ ہاں تو ہم اس انتظار میں تھے کہ کب یہ سرحدیں، سڑکیں، دیواریں ختم ہوں گی اور ہم اپنے معشوق کے در پہ پہنچے گے۔ صبح پانچ بجے سرحد پہنچے، اور آٹھ بجے تک ہمارے ساتھی بھی آگئے، اب سرحد پر ہمیں روک دیا گیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ ۔۔۔۔۔ خیر رہنے دیں۔ یہاں بھی چند پردہ نشین ہیں، پردہ نشین کیا، وہ تو ۔۔۔۔۔ چلیں یہ بھی رہنے دیں، سفر کی مٹھاس کو کڑواہٹ سے خراب نہیں کرنا چاہیے۔
ویسے تو فاصلہ شاید بمشکل پانچ یا دس کلو میٹر کا تھا۔ لیکن ہمیں یہ فاصلہ طے کرنے میں۱۲ گھنٹے لگ گئے، یعنی تقریبا شام پانچ بجے، امیگریشن کے مراحل سے گذر کر مملک عراق میں قدم رکھے اور سکون کی سانس لی۔
رستے میں امریکا سے بھی ہو لیے۔ وہ ایسے کہ جب عراقی حدود میں داخل ہوئے تو پہلے امریکی فوجیوں نے ہم سب کے پاسپورٹ دیکھے، انگلیوں کے نشان لیے۔ پھر عراقی سرحدی پولیس نے ہمارے پاسپورٹوں پر داخلے کی مہر لگائی۔ ایک مرحلہ طے ہو گیا۔ نماز شکر، میں خدا کا شکر ادا کیا، اور باقی سفر خیریت سے گذرنے کی دعا کی۔ دعا تو ہم نے صرف وہاں تک پہنچنے کی کی تھی، کیونکہ وہاں پہنچ کر واپسی کی تمنا کم از کم مجھے نہیں تھی۔ ہمارا حال کچھ ایسا ہے،
اے ابرِ کرم ذرا تھم کے برس، اتنا نہ برس کہ وہ آ نہ سکیں
جب آجائیں تو جم کے برس، پھر اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں
بس فرق اتنا ہے کہ اس طرح کی دعا، کسی کے آنے کے لیے نہیں، ہم جانے کے لیے کر رہے تھے۔ سرحدی شہر، کوت، سے ہم کوئی آٹھ بجے روانہ ہوئے جانب نجف اشرف۔ نجف میں ہمارے دادا، بلکہ بابا، مولا، مقتدا، امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کا مرقد منور ہے۔ جس کے لیے ہم آئے تھے۔ یہاں سے بھی گیارہ یا بارہ گھنٹوں کا سفر طے کرکے، اذان فجر سے کچھ دیر پہلے نجف میں داخل ہوئے۔ گرچہ گذشتہ دو تین دنوں سے سونا تو کیا، ڈھنگ سے آرام بھی نہیں کر پائے تھے۔ تھکن کا یہ حال کہ چلا نہیں جا رہا۔ لیکن جب اپنے مولا کے مزار کا گنبد دیکھا، ساری تھکن اتر گئی۔ سامان اپنے کمرے میں رکھا۔ نماز تو اب حرم میں ہی پڑھیں گے۔ باہر نکلنے لگے تو ہمیں روک دیا گیا۔ آرام کرلیں پھر حرم جائیے گا۔ کیا بتاوں، بس ایسا سمجھیں کہ پیاس سے ہلکان ہورہے ہوں، اور کوئی سامنے بہتی میٹھے پانی کی نہر سے روک دے، کہ تھوڑی دیر میں ہم خود آپ کو اسی نہر کا پانی پلا دیں گے۔ بڑی مشکل سے، بلکہ لڑ کے باہر نکلے اور مولا کی ضریح کے سامنے فجر کی نماز ادا کی۔ ارے جناب ہمارا حال نہ پوچھیے کہ نہ قلم میں لکھنے کی سکت ہے، اور نہ ہم لکھ سکتے ہیں۔
حال شب وصال بیاں کر نہ پاو گے
فاضل قلم کو روک دے دل اپنا تھام لے
نوٹ:
یہ تحریر ابھی پوری نہیں ہوئی ہے، مطلب یہ کہ ہمارا سفر ختم نہیں ہوا ہے. اگر اسے اہالی محفل کا شرف قبولیت حاصل ہو، تو باقی بھی یہاں بھیج دوں گا. ان شاء اللہ
اور کوئی خامی ہو تو اصلاح فرمائیں. شکریہ
نہیں معلوم اس تحریر کو پڑھنے والے کس مذہب، مسلک، یا دین کے پابند ہیں۔ لیکن اتنا ضرور ہے سب قارئین کا میری فکر و نظر سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ آزادی فکر کا مطلب ہی یہی ہے۔ فبشر عبادی الذین یستمعون القول و یتبعون احسنہ۔ خیر میں اس تحریر میں کوئی ایسی بات نہیں کرنے والاہوں جس میں اختلاف نظر ہو، یا بحث مباحثہ ہو، لیکن یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں، کہ اس تحریر میں جو باتیں آئیں گی شاید بعض لوگوں کو اس سے اختلاف ہو۔ ان حضرات سے پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔ ہمارے سامنے جب کبھی کربلا اور نجف کا ذکر ہوتا ہے، دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، روح جانب معشوق سفر کرجاتی ہے، آنکھوں کو اگر روکا نہ جائے تو آنسووں سے بھیگ جاتی ہیں۔ نہیں معلوم آپ نے کبھی عشق کیا ہے کہ نہیں، ہمارا عشق تو ایسا ہے، کسی حسینہ کی جگہ ہم شاہ کربلا کے عشق میں گرفتار ہیں۔جب معشوق کا ذکر ہو تو ہمارا حال کیا ہوتا ہے، یہ تحریر کرنے سے قاصر ہوں۔بس اتنا سن لیں،
تمنائے نجف قاتل ہے میری
مجھے عشق و جنون کربلا ہے
ہمارا یہ سفر کہاں سے شروع ہوا؟ ہوا یہ کہ ایک دن ہاسٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے، ایک ایسی بات ہوئی جو ہمارے دلوں کے زخموں پر نمک چھڑک گئی۔ کربلا جانا ہے۔ اس وقت تو یہ بات گذر گئی اور بھلا دی گئی۔ لیکن دل کا کیا حال تھا، عاشق لوگ ہی جان سکتے ہیں۔ دو ہفتے بعد طے پایا ۲۵۰ سٹوڈنٹس کو کربلا لے جانا ہے۔ اس درمیان کیا ہوا، کافی لمبی کہانی ہے، آگے بڑھتا ہوں۔
۱۰ جنوری۲۰۱۰، یونیورسٹی کے مرکزی ہال میں، ایک میز پر چند لسٹیں رکھی ہیں، دو افراد بیٹھے ہیں، آنے والوں کے نام لکھ رہے ہیں۔ میز کی دوسری طرف ہجوم ہے۔ ۷۰۰ افراد نام لکھواچکے ہیں۔ میں بظاہر پرسکون کھڑا یہ منظر دیکھ رہا ہوں۔ لیکن دل میں محشر بپا ہے۔ بڑی مشکل سے بات کی جارہی ہے۔ جب یہ خیال ستاتا ہے کہ یہ سب لوگ چودہ دن بعد کربلا میں ہوں گے، اور میں نہیں جاسکتا، رونے کو دل کرتا ہے۔ آپ بھی جارہے ہیں؟ ایک صاحب نے پوچھا۔ میرے دل کا کیا حال ہوا، میں ہی جانتا ہوں۔ کیا جواب دیتا، نہیں کہنے کو دل نہیں مانتا، ہاں کہنے کو حالات روکتے ہیں۔ دل ہی دل میں، معشوق سے کہا، بتاو تمھے کیا منظور ہے؟ کیا کہہ دوں کہ دل تو چاہتا ہے مگر، حضرت دل کے مالک بلا نہیں رہے۔ فورا جواب مل گیا، آجاو۔ بس پھر کیا، جو کام ناممکن تھا، ایک ہفتے میں ممکن ہوگیا۔ جس کو بھی بتایا کہ جا رہا ہوں، مان نہیں رہا۔ ایک دوست نے تو کہہ دیا کہ یار مزاق چھوڑو سچ بتاو۔ سچ کیا بتاتا، خود بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ چند دنوں میں، بارگاہ عشق میں ہوں گا۔ تفصیل لکھنے سے قاصر ہوں کہ اس میں چند پردہ نشینوں کے نام ہیں، اور کسی کو رسوا کرنے، مسلک عشق نہیں۔
خیر بڑی مشکلات جھیلیں، لیکن آخر وہ دن آہی گیا۔ جب ۶۰۰ طالب علم، کربلا کے لیے روانہ ہونے لگے۔ ہم بھی ایک خادم کی حیثیت سے ساتھ تھے۔ حقیقت تو یہ ہے ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنی بڑی سعادت، اتنی آسانی سے نصیب ہوگئی۔ ۸ فروری کو رات نو بجے ہم سرحد کی جانب چل پڑے۔ خوشی ہماری، نہ پوچھیے، کہ ابھی بھی اس کی یاد سے ہم پھولوں نہیں سماتے۔
لیکن انتظار کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے گھڑی آگے بڑھنے کی جگہ پیچھے جارہی ہے۔ کیا ہوتا اگر ہمیں بھی خدا نے پر دیے ہوتے۔ لیکن اس انتظار میں جو لذت ہے، اسے کسی چیز سے نہیں بدلا جاسکتا، اور اس کے بعد جب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوتی ہیں، تو آدمی تمنا کرتا ہے، کہ کاش یہ گھڑیاں اور طویل ہوتیں۔ ہاں تو ہم اس انتظار میں تھے کہ کب یہ سرحدیں، سڑکیں، دیواریں ختم ہوں گی اور ہم اپنے معشوق کے در پہ پہنچے گے۔ صبح پانچ بجے سرحد پہنچے، اور آٹھ بجے تک ہمارے ساتھی بھی آگئے، اب سرحد پر ہمیں روک دیا گیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ ۔۔۔۔۔ خیر رہنے دیں۔ یہاں بھی چند پردہ نشین ہیں، پردہ نشین کیا، وہ تو ۔۔۔۔۔ چلیں یہ بھی رہنے دیں، سفر کی مٹھاس کو کڑواہٹ سے خراب نہیں کرنا چاہیے۔
ویسے تو فاصلہ شاید بمشکل پانچ یا دس کلو میٹر کا تھا۔ لیکن ہمیں یہ فاصلہ طے کرنے میں۱۲ گھنٹے لگ گئے، یعنی تقریبا شام پانچ بجے، امیگریشن کے مراحل سے گذر کر مملک عراق میں قدم رکھے اور سکون کی سانس لی۔
رستے میں امریکا سے بھی ہو لیے۔ وہ ایسے کہ جب عراقی حدود میں داخل ہوئے تو پہلے امریکی فوجیوں نے ہم سب کے پاسپورٹ دیکھے، انگلیوں کے نشان لیے۔ پھر عراقی سرحدی پولیس نے ہمارے پاسپورٹوں پر داخلے کی مہر لگائی۔ ایک مرحلہ طے ہو گیا۔ نماز شکر، میں خدا کا شکر ادا کیا، اور باقی سفر خیریت سے گذرنے کی دعا کی۔ دعا تو ہم نے صرف وہاں تک پہنچنے کی کی تھی، کیونکہ وہاں پہنچ کر واپسی کی تمنا کم از کم مجھے نہیں تھی۔ ہمارا حال کچھ ایسا ہے،
اے ابرِ کرم ذرا تھم کے برس، اتنا نہ برس کہ وہ آ نہ سکیں
جب آجائیں تو جم کے برس، پھر اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں
بس فرق اتنا ہے کہ اس طرح کی دعا، کسی کے آنے کے لیے نہیں، ہم جانے کے لیے کر رہے تھے۔ سرحدی شہر، کوت، سے ہم کوئی آٹھ بجے روانہ ہوئے جانب نجف اشرف۔ نجف میں ہمارے دادا، بلکہ بابا، مولا، مقتدا، امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کا مرقد منور ہے۔ جس کے لیے ہم آئے تھے۔ یہاں سے بھی گیارہ یا بارہ گھنٹوں کا سفر طے کرکے، اذان فجر سے کچھ دیر پہلے نجف میں داخل ہوئے۔ گرچہ گذشتہ دو تین دنوں سے سونا تو کیا، ڈھنگ سے آرام بھی نہیں کر پائے تھے۔ تھکن کا یہ حال کہ چلا نہیں جا رہا۔ لیکن جب اپنے مولا کے مزار کا گنبد دیکھا، ساری تھکن اتر گئی۔ سامان اپنے کمرے میں رکھا۔ نماز تو اب حرم میں ہی پڑھیں گے۔ باہر نکلنے لگے تو ہمیں روک دیا گیا۔ آرام کرلیں پھر حرم جائیے گا۔ کیا بتاوں، بس ایسا سمجھیں کہ پیاس سے ہلکان ہورہے ہوں، اور کوئی سامنے بہتی میٹھے پانی کی نہر سے روک دے، کہ تھوڑی دیر میں ہم خود آپ کو اسی نہر کا پانی پلا دیں گے۔ بڑی مشکل سے، بلکہ لڑ کے باہر نکلے اور مولا کی ضریح کے سامنے فجر کی نماز ادا کی۔ ارے جناب ہمارا حال نہ پوچھیے کہ نہ قلم میں لکھنے کی سکت ہے، اور نہ ہم لکھ سکتے ہیں۔
حال شب وصال بیاں کر نہ پاو گے
فاضل قلم کو روک دے دل اپنا تھام لے
نوٹ:
یہ تحریر ابھی پوری نہیں ہوئی ہے، مطلب یہ کہ ہمارا سفر ختم نہیں ہوا ہے. اگر اسے اہالی محفل کا شرف قبولیت حاصل ہو، تو باقی بھی یہاں بھیج دوں گا. ان شاء اللہ
اور کوئی خامی ہو تو اصلاح فرمائیں. شکریہ