عشق کیا ہے۔۔۔؟

نور وجدان

لائبریرین
عشق کا مجاز اور حقیقت سے تعلق گزشتہ لڑی میں پڑھا ۔ عشق کے بارے میں کچھ اشکالات سبھی کو تنگ کرتے ہیں۔۔۔میں اب لوگوں سے ان کا تجربہ ۔ مشاہدہ پوچھنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔

1۔آپ نے زندگی میں کبھی مجاز سے کشش محسوس کی ؟ اگر کی تو کتنی دفعہ ۔۔۔۔؟
2۔ کشش ، محبت ، عشق میں کیا فرق ہے؟
3۔ کیا ادب واقعی ہی پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں ؟
4۔ عشق حقیقی اور مجاز میں کیا فرق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مناسب لگا تو باقی سوالات اسی ضمن میں پھر سے پوچھوں گی ۔ احباب سے گُزارش ہے کہ آپ اپنی آراء کو سب سے معتبر جانتے ہوئے میری رہنمائی کریں ۔۔۔۔۔۔
 
عشق کا مجاز اور حقیقت سے تعلق گزشتہ لڑی میں پڑھا ۔ عشق کے بارے میں کچھ اشکالات سبھی کو تنگ کرتے ہیں۔۔۔میں اب لوگوں سے ان کا تجربہ ۔ مشاہدہ پوچھنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔

1۔آپ نے زندگی میں کبھی مجاز سے کشش محسوس کی ؟ اگر کی تو کتنی دفعہ ۔۔۔۔؟
2۔ کشش ، محبت ، عشق میں کیا فرق ہے؟
3۔ کیا ادب واقعی ہی پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں ؟
4۔ عشق حقیقی اور مجاز میں کیا فرق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مناسب لگا تو باقی سوالات اسی ضمن میں پھر سے پوچھوں گی ۔ احباب سے گُزارش ہے کہ آپ اپنی آراء کو سب سے معتبر جانتے ہوئے میری رہنمائی کریں ۔۔۔۔۔۔
ہمارا جواب اسی لڑی والا ہے۔۔۔۔ اگر آپ نے ملاحظہ فرمایا تھا۔۔۔
 
کوشش کی کہ جملہ بحث کو پڑھا جاتا، لیکن جس قدر ہو سکا پڑھا اور سمجھنے کی توفیق اللہ دے۔ عشق، مجازی اور حقیقی کو ایک لحظہ ایک طرف کر دیں۔
عشق "میں" اور "تو" کا فرق مٹا دینے کا نام ہے۔ وہ جذبہ جہاں آپ میں "میں" اور "تو" کا فرق مٹ جائے۔ اس کا محل دل ہے۔ یعنی دل میں رہتا ہے۔ محبت کی انتہا وغیرہ اور شدت سے اسے تعبیر کرنا شاید مناسب نہ ہے۔
دوم یہ کہ محبت یا عشق ہر گز جنس مخالف سے تعلق اور کشش کا نام نہیں۔ یہ کسی بھی شے سے ہو سکتا ہے۔
ماں باپ اور رشتوں کی جو محبت اور شدت ہے اسے عشق سے تعبیر کرنا بالکل درست نہیں۔ یہ الگ جذبے ہیں۔
عشق میں محض عشق کیا جاتا ہے، اس میں حاصل و لا حاصل کو کوئی دخل نہیں۔ جیسا اوپر عرض کی محض اپنا آپ دوسرے میں کھو دینا (اس ضمن میں ایک واقعہ آگے ذکر کیا جائے گا)-
مجاز کا عشق یقینا حقیقی طرف لیکر جاتا ہے۔ بشرطیکہ وہ عشق ہو۔ پہلی محبت، آخری محبت، ناکام، کامیاب محبت یہ سب حسن کی کشش، تعلق قرب اور چاہت کے جذبے ہیں۔ انہیں عشق سے کوئی سروکار نہ ہے۔
عشق طلب سے بے نیاز ہوتا ہے۔ اس میں کچھ بھی طلب نہیں کیا جاتا، محض سپرد کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں حضرت موسی کا رب ارنی کا واقعہ، جس کی اہل تفسیر نے مختلف تشریحات و تفاسیر بیان کیں ہیں۔ صوفیاء اس کی تشریح یہ کرتے ہیں کہ، حضرت موسی علیہ السلام نے رب عزوجل سے عرض کی

رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ
مولا "مجھے" اپنا "آپ" دکھا،
تو مولا نے فرمایا موسی تم ابھی مجھے نہیں دیکھ سکتے، کیونکہ تم میں ابھی "مجھے" اور "تو" کا فرق موجود ہے، تو نے خود کو مجھ سے جدا جانا۔ جب یہ فرق ختم ہو جائے گا اور تجھ میں "میں" باقی نہ رہے گی تو تو یہ سوال ہی نہ کرے گا- تجھے ہر سمت و سو ہر قریہ کو میں ہی نظر آؤں گا۔ اس لیے موسی علیہ السلام نے بے ہوش ہو کر ہوش میں آنے کے بعد فرمایا

فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ
مولا میں اس طلب پر توبہ کرتا ہوں-

اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں اک شخص جو بہت سالوں سے اللہ کی عبادت کر رہا تھا، اللہ نے حضرت موسی سے فرمایا کہ موسی جاؤ اور اس شخص سے کہو کہ اللہ نے تمہاری ساری عبادت رد کر دی ہے۔ اور تمہارا نام ٹھکرائے ہوؤں کی فہرست میں ہے۔ جب حضرت موسی نے اس شخص کو یہ پیغام پہنچایا وہ اٹھ کھڑا ہوا اور دیوانہ وار رقص کرنے لگا۔ حضرت موسی علیہ السلام متعجب ہوئے اور پوچھا تو اتنے سالوں سے اس کی عبادت کر رہا تھا اور اس نے تیری عبادت رد کر دی تیری ساری محنت ضائع گئی، تو اس پر خوشی سے ناچنے لگا ہے۔ وہ شخص کہنے لگا اے موسی میری ساری عبادت کام آ گئی ہے۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ وہ عبادت قبول کرے یا رد، مجھے تو یہ خوشی ہے کہ میں اس کی کسی فہرست میں تو ہوں۔
ابھی چند دن پہلے ایک بزرگ نے بتایا کہ کسی شخص میں چار عیب نہ ہوں تو وہ عاشق نہیں۔
1- عقل کا نا ہونا
2- گونگا ہونا
3-بہرہ ہونا
4- اندھا ہونا
آقا کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی حدیث پاک کا مفہوم عرض ہے کہ کسی بھی شے کی محبت تمہیں اس سے متعلق اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے۔
اب آخر میں وہ واقعہ:
ایک دیہاتی ایک بزرگ کے پاس آکر کہنے لگا، مجھے آپ سے محبت ہے مجھے اپنا مرید کر لیں ۔ بزرگ کہنے لگے تو پہلے محبت سیکھ کے آ پھر تجھے مرید کر لیں گے۔ وہ شخص گاؤں لوٹ گیا اور کچھ عرصہ بعد پھر وہی گزارش لیے حاضر ہوا، پھر وہی حکم نامہ پا کر پلٹ گیا۔ تین مرتبہ ایسے ہونے کے بعد وہ دلبرداشتہ ہوا اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آیا۔ کچھ عرصہ بعد بزرگ نے اپنے مصاحبین سے پوچھا وہ دیہاتی اب کبھی نظر نہیں آیا، اس کی کوئی خبر تو لاؤ۔ لوگ اس کے گھر گئے اس کے متعلق پوچھا، بتایا گیا وہ اپنا "بیل" چرانے لے کر گیا ہے، باہر کھیتوں میں ملے گا۔ لوگ اس سے ملے اور کہنے لگے کہ تجھے بزرگ یاد کر رہے ہیں۔ وہ کہنے لگا میں نہیں آ سکتا میرا "بیل" اکیلا ہو جائے گا۔
اس کا پیغام بزرگ تک پہنچایا گیا، بزرگ نے کہا اسے اٹھا کر لے آؤ۔ چنانچہ لوگ اس شخص کو زبردستی اٹھا لے آئے وہ لاکھ چیختا چلاتا رہا۔ جب وہ آ گیا تو بزرگ کی حجرہ کے باہر کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے پوچھا کہ تم لوٹ کر آئے نہیں، تو وہ کہنے لگا کہ میرا "بیل" اکیلا ہو جاتا ہے، انہوں نے اس سےکہا کہ اچھا چل اب یہاں تک آ گیا ہے تو اندر تو آجا۔ دیہاتی نے ایک قدم دہلیز کے پار رکھا اور پھر پیچھے ہٹ آیا۔ دو تین مرتبہ ایسے کرنے پہ پوچھا گیا کہ کیا ماجرا ہے۔
دیہاتی کہنے لگا " میں اندر تو جاتا ہوں مگر میرے "سینگ" ٹکراتے ہیں۔
بو علی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردۂ محمل گرفت

محض آرا ہیں۔ بزرگو ں کی خاک سے پائی ہیں- اختلاف ہو سکتا ہے۔
جزاک اللہ۔ اللہ و رسولہ اعلم۔
 

فرقان احمد

محفلین
عشق کا مجاز اور حقیقت سے تعلق گزشتہ لڑی میں پڑھا ۔ عشق کے بارے میں کچھ اشکالات سبھی کو تنگ کرتے ہیں۔۔۔میں اب لوگوں سے ان کا تجربہ ۔ مشاہدہ پوچھنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔

1۔آپ نے زندگی میں کبھی مجاز سے کشش محسوس کی ؟ اگر کی تو کتنی دفعہ ۔۔۔۔؟
2۔ کشش ، محبت ، عشق میں کیا فرق ہے؟
3۔ کیا ادب واقعی ہی پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں ؟
4۔ عشق حقیقی اور مجاز میں کیا فرق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مناسب لگا تو باقی سوالات اسی ضمن میں پھر سے پوچھوں گی ۔ احباب سے گُزارش ہے کہ آپ اپنی آراء کو سب سے معتبر جانتے ہوئے میری رہنمائی کریں ۔۔۔۔۔۔

1۔آپ نے زندگی میں کبھی مجاز سے کشش محسوس کی ؟ اگر کی تو کتنی دفعہ ۔۔۔۔؟
جواب: کئی بار

2۔ کشش ، محبت ، عشق میں کیا فرق ہے؟
جواب: یوں تو اس کے کئی کتابی جوابات ہیں تاہم اپنے ذاتی تجربے کے مطابق عرض کرتا ہوں۔
کشش ایک فطری سا جذبہ ہے جس کی کوئی زیادہ عمر نہیں ہوتی اور کوئی شے یا فرد پسند آ جائے یا کسی کی کوئی ادا بھا جائے تو ذہن و دل اس کی طرف وقتی طور پر مائل ہو جاتے ہیں۔ اس کا تعلق روح سے زیادہ مادی جسم کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔
محبت ایک نفیس جذبہ ہے اور ذہن و قلب کسی کی طرف مائل ہو جائیں اور اٹھتے بیٹھتے کسی فرد کا حسین سا تصور قائم ہونے لگ جائے اور یوں لگے کہ روح کا تعلق کسی کے ساتھ جڑ سا گیا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ فلاں کو فلاں سے محبت ہو گئی ہے۔ ہاں، محبت کسی سے بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ ایک فنکار کو اپنے فن سے محبت ہو جاتی ہے۔ محبت میں ایک بے قراری تو ہوتی ہے، تاہم میرے خیال میں یہ دریا کی طرح ہی ہوتی ہے، سمندر کی طرح بے کنار نہیں ہوتی۔ اس میں بندہ ٹھوکر بھی کھا جائے تو بہرصورت سنبھل ہی جاتا ہے۔ مزید یہ کہ محبت کی عمر بھی اک ذرا زیادہ ہی ہوتی ہے، ذہن و دل سے کسی کا نقش مٹائے نہیں مٹتا۔
عشق ایک بڑا بڑا لفظ ہے اور اس کے معانی و مفاہیم تک رسائی بھی مشکل ہے۔ شاید ہی ایسا ممکن ہو کہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے عشق ہو جائے۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں، عشقِ حقیقی ہی اصل عشق ہے، اور جسے عشق مجازی کہتے ہیں، اسے مجازی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ حقیقی نہ ہے۔ عشق بہرصورت اللہ کی ذات سے ہی ہو سکتا ہے؛ انبیائے کرام اور اولیائے عظام نے بھی یہی درس دیا ہے۔


3۔ کیا ادب واقعی پہلا قرینہ ہے، محبت کے قرینوں میں؟
جواب: یہ لازم تو نہیں تاہم مستحسن ضرور ہے۔

4۔ عشق حقیقی اور مجاز میں کیا فرق ہے؟
جواب: ایک بے کنار ہے اور ایک دائرے میں مقید۔

بحث آگے بڑھے گی تو مزید گزارشات پیش کروں گا۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
آپ نے بہت اچھا لکھا ہوا مگر میں فرد واحد کی تجربے و مشاہدے کی بات کی ہے ۔۔۔۔۔ وہ بات جو ہم نے کتاب میں نہیں پڑھی ہو بلکہ ہمارا وجود اس بات پر گواہ ہو
 

نور وجدان

لائبریرین
1۔آپ نے زندگی میں کبھی مجاز سے کشش محسوس کی ؟ اگر کی تو کتنی دفعہ ۔۔۔۔؟
جواب: کئی بار

آپ کی پہلی بار کی کشش سے اب تک جو کشش ، کسی بھی مادی وجود میں محسوس کی یا غیر مادی ۔۔۔۔۔اس کے بارے کچھ شئیر کردیں ۔۔۔۔۔۔میری رہنمائی ہوجائے گی

جواب: یوں تو اس کے کئی کتابی جوابات ہیں تاہم اپنے ذاتی تجربے کے مطابق عرض کرتا ہوں۔
کشش ایک فطری سا جذبہ ہے جس کی کوئی زیادہ عمر نہیں ہوتی اور کوئی شے یا فرد پسند آ جائے یا کسی کی کوئی ادا بھا جائے تو ذہن و دل اس کی طرف وقتی طور پر مائل ہو جاتے ہیں۔ اس کا تعلق روح سے زیادہ مادی جسم کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔
محبت ایک نفیس جذبہ ہے اور ذہن و قلب کسی کی طرف مائل ہو جائیں اور اٹھتے بیٹھتے کسی فرد کا حسین سا تصور قائم ہونے لگ جائے اور یوں لگے کہ روح کا تعلق کسی کے ساتھ جڑ سا گیا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ فلاں کو فلاں سے محبت ہو گئی ہے۔ ہاں، محبت کسی سے بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ ایک فنکار کو اپنے فن سے محبت ہو جاتی ہے۔ محبت میں ایک بے قراری تو ہوتی ہے، تاہم میرے خیال میں یہ دریا کی طرح ہی ہوتی ہے، سمندر کی طرح بے کنار نہیں ہوتی۔ اس میں بندہ ٹھوکر بھی کھا جائے تو بہرصورت سنبھل ہی جاتا ہے۔ مزید یہ کہ محبت کی عمر بھی اک ذرا زیادہ ہی ہوتی ہے، ذہن و دل سے کسی کا نقش مٹائے نہیں مٹتا۔
عشق ایک بڑا بڑا لفظ ہے اور اس کے معانی و مفاہیم تک رسائی بھی مشکل ہے۔ شاید ہی ایسا ممکن ہو کہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے عشق ہو جائے۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں، عشقِ حقیقی ہی اصل عشق ہے، اور جسے عشق مجازی کہتے ہیں، اسے مجازی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ حقیقی نہ ہے۔ عشق بہرصورت اللہ کی ذات سے ہی ہو سکتا ہے؛ انبیائے کرام اور اولیائے عظام نے بھی یہی درس دیا ہے۔

میں مثال کے طور پر ایک مثال دیتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اپنا تجربہ گوکہ شئیر کیا تھا
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/جانے-کب-میخانہ-یہ-دل-بنے-گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.83684/#post-1688478

میں نہیں جانتی کہ اس کو محبت کہوں یا کشش مگر سچ ہے میری محبت کے متعلق نظریات میرے تجربے نے بدلے ہیں ۔۔۔۔۔۔ فرق جاننا اسی وجہ سے چاہ رہی تھی کیا کشش تبدیلی لاسکتی ہے یا عشق لاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ بھی اپنا تجربہ بتادیجئے ۔۔۔۔۔اگر نہیں تو اپنی آنکھوں دیکھا مشاہدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی واقعہ جو سچائی لیے ہو ، دل پر اثر کر جائے

جواب: یہ لازم تو نہیں تاہم مستحسن ضرور ہے۔

اقبال کا شعر ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں ۔۔۔۔
آپ کیا خیال کریں گے اس بارے میں ؟
جواب: ایک بے کنار ہے اور ایک دائرے میں مقید۔

محبت اگر دائرے میں مقید ہو تو یہ بس ایک فرد سے ہوتی ہے اگر محبت کی آگ بہت سے لگے تو کیا ہوگا ؟ عشق ؟ اگر عشق ہوگا تو کس سے ؟
 

فرقان احمد

محفلین
یہ ضرور بتائیے گا، آپ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتی ہیں۔ تحریر پڑھی، مسحور ہوئے بنا رہا نہ گیا؛ سچ تو یہی ہے۔ سب سے پہلے تو اس حوالے سے داد قبول فرمائیے۔

آپ کی پہلی بار کی کشش سے اب تک جو کشش ، کسی بھی مادی وجود میں محسوس کی یا غیر مادی ۔۔۔۔۔اس کے بارے کچھ شئیر کردیں ۔۔۔۔۔۔میری رہنمائی ہوجائے گی

سچ پوچھیے، مجھے تو کشش مادی وجود کے حوالے سے ہی محسوس ہوتی ہے۔ ہاں، اگر زیادہ غور کروں تو معاملہ کشش کی حد سے باہر نکل جائے گا جس کے اظہار کے لیے شاید کوئی اور لفظ موزوں رہے۔

میں نہیں جانتی کہ اس کو محبت کہوں یا کشش مگر سچ ہے میری محبت کے متعلق نظریات میرے تجربے نے بدلے ہیں ۔۔۔۔۔۔ فرق جاننا اسی وجہ سے چاہ رہی تھی کیا کشش تبدیلی لاسکتی ہے یا عشق لاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ بھی اپنا تجربہ بتادیجئے ۔۔۔۔۔اگر نہیں تو اپنی آنکھوں دیکھا مشاہدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی واقعہ جو سچائی لیے ہو ، دل پر اثر کر جائے

اسے میری ناقص فہم کا قصور تصور کیجیے کہ پوری طرح آپ کی بات سمجھ نہیں پایا ہوں۔ اپنا تجربہ تو فقط یہ ہے کہ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے کسی وجود سے متعلق مثبت سوچ قلب و ذہن کا احاطہ کر لے تو از بس خود کو دامِ محبت میں اسیر ہوا سمجھتا ہوں۔ ذہن و قلب پر محبت کا وار اکثر و بیشتر کارگر ثابت ہوتا ہے اور بندہ بشر کو ڈھیر ہوتے دیر نہیں لگتی۔ تاہم میں اسے عشق ایسے بے کنار جذبے کے مقابلے میں بہرصورت اک ذرا کم شدت کا ہی تصور کرتا ہوں۔ محبت کا مارا، بے چارہ، نڈھال ہو کر بھی، اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ محبت اسے جینے کا درس دیتی ہے۔ اسے سنبھلنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ لفظوں کے ذریعے اپنی کیفیت کے اظہار کا سلیقہ بھی فراہم کر دیتی ہے۔ محبت بڑا نفیس جذبہ ہے اور میرے ذاتی خیال میں، ایک انسان کو کسی دوسرے انسان سے بالعموم محبت ہی ہوتی ہے۔ ایک واقعہ یاد آ گیا جسے شاید واقعہ نہ بھی کہا جائے تو چلے گا۔ ایک صاحب جو میرے بڑے پیارے دوست ہیں، ایک دن یوں ہی میں ان کے ساتھ ان کے گھر کی چھت پر ٹھنڈی ہوا کے مزے لوٹ رہا تھا، خوش گپیوں میں مصروف تھا کہ ان کو چاند کو تکتے پایا، اور بار بار ان کی توجہ ادھر ہو جاتی۔ بالآخر ان سے پوچھ ہی لیا، بھئی تم چاند کو اتنے غور سے کیوں دیکھتے ہو، ایک بار پہلے بھی یہ بات محسوس کی تھی۔ فرمانے لگے، یار، بات یہ ہے، یہی وہ چاند ہے جس کو انبیائے کرام اور اولیائے عظام نے بھی دیکھ رکھا ہے؛ بس میں چاند کو اسی نظر سے دیکھتا ہوں کہ یہ ان مقدس ہستیوں کا دیکھا ہوا ایک ایسا دمکتا وجود ہے جو بے خود کر کے رکھ دیتا ہے، اگر اس خاص حوالے سے اس کا تصور کر لوں۔ اب معلوم نہیں، ان پاکیزہ ہستیوں سے اس کی کیا محبت و نسبت تھی کہ وہ چاند کو اس انہماک سے دیکھتا تھا۔ ہم تو یہ سمجھتے تھے، اسے چاند محبوب ہے؛ ہمیں کیا خبر کہ اس کا دیکھنا کیا ہے؛ اس کی محبتوں کا عالم کیا ہے۔ بلاشبہ محبت قلوب کو بدل ڈالتی ہے۔

3۔ کیا ادب واقعی ہی پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں ؟
اقبال کا شعر ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں ۔۔۔۔
آپ کیا خیال کریں گے اس بارے میں ؟

جس سے محبت ہوتی ہے، اس کے لیے دل میں ایسے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں کہ اس کی اچھی بات بھی بھلی لگتی ہے، اس کی تلخ بات بھی بری معلوم نہیں ہوتی۔ ظاہری بات ہے، اس کے اثرات انسان کے رویے پر بھی پڑتے ہیں، بھلا نرم خو فرد ادب آداب کے ضابطوں سے مبرا کیسے ہو سکتا ہے۔ معاشرے میں جو لوگ آسانیاں بانٹتے ہیں، ان کے لفظ بھی ان کے رویوں سے میل کھاتے معلوم ہوتے ہیں۔ کافی حد تک متفق ہوں تاہم اتنا ضرور عرض کر دوں کہ مستثنیات کا معاملہ بہرصورت اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔

محبت اگر دائرے میں مقید ہو تو یہ بس ایک فرد سے ہوتی ہے اگر محبت کی آگ بہت سے لگے تو کیا ہوگا ؟ عشق ؟ اگر عشق ہوگا تو کس سے ؟

محترمہ نور سعدیہ شیخ صاحبہ! میں یہ سمجھتا ہوں کہ محبت بہرصورت کسی نہ کسی دائرے میں مقید ہوتی ہے۔ محبت بے کنار نہیں ہوتی اور میرے نزدیک اس کی حدود و قیود ہوتی ہیں۔ انسان بے خود ہو جائے تب بھی سنبھل جاتا ہے۔ عشق سے بس اس کی یہی مماثلت ہے کہ اس پر بے کنار ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ محبت ایک سے ہو، یا زیادہ سے ہو، بے کنار نہیں ہو سکتی۔ تاہم، عشق ایک انسان کے لیے بہرصورت بے کنار ہی ہوتا ہے۔ عشق ہو جائے تو لفظ گم؛ سوچ گم؛ خیال گم۔ ترے عشق میں جو بھی ڈوب گیا، اسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا۔ ذاتی طور پر یہی سمجھتا ہوں کہ عشقِ حقیقی ہی اصل عشق ہے، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔ انبیائے کرام، اولیائے عظام اور سعید روحوں نے ہم تک یہی پیغام پہنچایا ہے۔ عشق کی منازل کیا ہیں؛ ان کی بابت کچھ کہا نہیں جا سکتا؛ اس حوالے سے کوئی ذاتی تجربہ بھی موجود نہیں اور اگر ہوتا بھی تو اس کا اظہار شاید کبھی نہ ہو پاتا۔

آپ کے لیے سلامتی کی دعا!
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
یہ ضرور بتائیے گا، آپ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتی ہیں۔ تحریر پڑھی، مسحور ہوئے بنا رہا نہ گیا؛ سچ تو یہی ہے۔ سب سے پہلے تو اس حوالے سے داد قبول فرمائیے۔

اسے میری ناقص فہم کا قصور تصور کیجیے کہ پوری طرح آپ کی بات سمجھ نہیں پایا ہوں
باقی باتوں پر بھی بات کرتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھا لکھا ۔۔۔۔اگر پسند آیا تو اس پر شکریہ ۔۔۔۔

یہ میں نے تحریر کا جو لنک دیا تھا اس پر تبصرہ دیا تھا
 

فرقان احمد

محفلین
باقی باتوں پر بھی بات کرتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھا لکھا ۔۔۔۔اگر پسند آیا تو اس پر شکریہ ۔۔۔۔

یہ میں نے تحریر کا جو لنک دیا تھا اس پر تبصرہ دیا تھا

شکریہ نور سعدیہ شیخ صاحبہ!

جی بالکل! آپ کی اسی تحریر پر تبصرہ کیا ہے۔ تحریر میں ایسی روانی شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ سلامت رہیں!
 
1۔آپ نے زندگی میں کبھی مجاز سے کشش محسوس کی ؟ اگر کی تو کتنی دفعہ ۔۔۔۔؟
محترمہ مجاز کئی طرح کا ہوتا ہے، ہر کسی کا مجاز الگ ہوتا ہے (اس کی وضاحت اگر طلب ہوئی تو)۔ اگر تو آپ مجاز بمعنی جنس مخالف لے رہی ہیں تو وہ اس کی کشش بمعنی چاہت و محبت چند بار ضرور ہوئی- ایک بار تو کافی شدید تھی جس نے ہلا کے رکھ دیا تھا۔ اور شاید زندگی میں وہ پہلی بار تھی جس نے اس جذبے کے محض کچھ پردے اٹھائے۔ کہ ہم شدید عقلیہ ہیں اور ناپ تول اور پیمائی کے چکر میں احساس گنوا بیٹھے۔
2۔ کشش ، محبت ، عشق میں کیا فرق ہے؟
کشش پسندیدگی کی ایک کیفیت کا نام ہے۔ جو آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اس میں جذبے کی پاکی و ناپاکی دونوں داخل ہوتی ہیں اور کچھ تصورات اور خیالات تشکیل پاتے ہیں۔ چاہے وہ کسی بھی شے کی کشش ہو۔
محبت، انسان کے اندر وہ جذبہ ہے جس کے بغیر انسان نامکمل ہے۔ لفظ انسان میں لفظ "انس" پایا جاتا ہے۔ یہ نہ ہو تو انسان حیوان بھی نہیں رہتا۔ وہ فقط ایک گوشت کو لوتھڑا ہوگا۔ یہ ایک پاکیزہ جذبہ ہے اور اس کی کیفیات اور شدت رشتوں ناطوں اور اشیاء کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ یہ وہ ہے جو اللہ کو اپنے حبیب کے ساتھ ہے۔ اور حبیب کو اپنے حبیب کے ساتھ۔ جس میں محبوب کو ایک تخت پہ بٹھا کر ہر شے اس کے قدموں پہ وار دی جاتی ہے۔
عشق، جیسا کہ گزشتہ لڑی میں بھی بیان کیا گیا کہ یہ وہ شے ہے جو انسان کو خشک کر دیتی ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے کہ جس شے سے ہو واقع ہوجائے، پھرہر شے ، سمت میں وہی نظر آتا ہے تفصیلات گزشتہ لڑی میں ہیں کہ سپردگی کی کیفیت جہاں طلب کا گزر نہ ہو۔ میں اور تو کا فرق مٹ کر ہم ہوجائے۔
4۔ عشق حقیقی اور مجاز میں کیا فرق ہے
حقیقی نام سے ظاہر جو حق اور حقیقت کے ساتھ ہو۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ۔ دراصل عشق حقیقی خود کوئی شے نہیں ہے۔ عشق مجازی کی جو آخری حد ہے وہ عشق حقیقی ہے۔ کہ مجاز جب اللہ رسول تک لے جائے وہ حقیقی کہلاتا ہے، لیکن در حقیقت وہ مجاز کا عشق ہی ہوتاہے۔ انسان مجاز میں اس قدر ڈوب جاتا ہے کہ ہر شے میں صرف "وہی" نظر آتا ہے اور یہ "وہی" "ھو" ہے۔ یعنی وہ۔ "ھواللہ احد" مجاز توحید سکھاتا ہے کہ ارتکاز فقط ایک پر ہو اور یہی اس کائنات کی اصل اور حقیقت کے وہ ایک ہے وہ ایک کا ارتکاز اصل ایک تک لے جاتا ہے۔ اب ضمن میں بے شمار واقعات اور امثال موجود ہیں۔
ادب کی بابت یہ عرض ہے کہ محبت اور ادب لازم ملزوم ہیں۔ محبت ادب سکھاتی ہے ۔ ادب محبت سکھاتا۔ یہ شعر مکمل پڑھا جائے اگر
خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
میر کہتے ہیں

دور بیٹھا غبار سے اس کے میر
عشق بن یہ ادب نہیں آتے۔۔۔

اللہ و رسولہ اعلم۔
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
اچھی پوسٹ ہے ۔ وقت کی کمی تبصرہ میں مانع ہے ۔
تبصرہ ادھار سمجھیئے گا محترم بٹیا جی
3۔ کیا ادب واقعی ہی پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں ؟
با ادب با نصیب
ادب کے بنا کچھ بھی نہیں
ادب نہیں تو اخلاق نہیں ۔ اخلاق نہیں تو انسانیت سے محبت کیسے ممکن ہے ۔؟
انسانیت سے لگاؤ نہیں تو محبت کیسے ممکن ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟
بہت دعائیں
 

نور وجدان

لائبریرین
کشش پسندیدگی کی ایک کیفیت کا نام ہے۔ جو آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اس میں جذبے کی پاکی و ناپاکی دونوں داخل ہوتی ہیں اور کچھ تصورات اور خیالات تشکیل پاتے ہیں۔ چاہے وہ کسی بھی شے کی کشش ہو۔
محبت، انسان کے اندر وہ جذبہ ہے جس کے بغیر انسان نامکمل ہے۔ لفظ انسان میں لفظ "انس" پایا جاتا ہے۔ یہ نہ ہو تو انسان حیوان بھی نہیں رہتا۔ وہ فقط ایک گوشت کو لوتھڑا ہوگا۔ یہ ایک پاکیزہ جذبہ ہے اور اس کی کیفیات اور شدت رشتوں ناطوں اور اشیاء کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ یہ وہ ہے جو اللہ کو اپنے حبیب کے ساتھ ہے۔ اور حبیب کو اپنے حبیب کے ساتھ۔ جس میں محبوب کو ایک تخت پہ بٹھا کر ہر شے اس کے قدموں پہ وار دی جاتی ہے۔
عشق، جیسا کہ گزشتہ لڑی میں بھی بیان کیا گیا کہ یہ وہ شے ہے جو انسان کو خشک کر دیتی ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے کہ جس شے سے ہو واقع ہوجائے، پھرہر شے ، سمت میں وہی نظر آتا ہے تفصیلات گزشتہ لڑی میں ہیں کہ سپردگی کی کیفیت جہاں طلب کا گزر نہ ہو۔ میں اور تو کا فرق مٹ کر ہم ہوجائے۔
عشق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عشق آسان ہے کیا؟ یہ انسان میں انسان کھو جانے نام ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے عشق جس سے ہوگیا اس نے میری سدھ بدھ کھو دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے ہر سو وہ دکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ درخت ہو ، پہاڑ ہو ، پتھر ہو یا انسان ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بہت پیارا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بِنا میں رات سو نہیں پاتی ! حیرت کی بات ہے وہ میرے ساتھ سوتا نہیں ہے مگر میں اس کے پاس سوجاتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ خشکی نہیں ہے ، نغمگی ہے ، احساس کا رشتہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ایسا رشتہ ہے جس میں خیال انسان کو طاقتور بنادیتا ہے یا طاقت مجسم ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک سوال ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا آپ مرد ہوتے ایک لڑکی سے محبت کریں تو کیا آپ وہی لڑکی بن سکتے ہیں؟ آپ اپنی صنف کو اس کے مطابق ڈھال سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
محترمہ نور سعدیہ شیخ صاحبہ! میں یہ سمجھتا ہوں کہ محبت بہرصورت کسی نہ کسی دائرے میں مقید ہوتی ہے۔ محبت بے کنار نہیں ہوتی اور میرے نزدیک اس کی حدود و قیود ہوتی ہیں۔ انسان بے خود ہو جائے تب بھی سنبھل جاتا ہے۔ عشق سے بس اس کی یہی مماثلت ہے کہ اس پر بے کنار ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ محبت ایک سے ہو، یا زیادہ سے ہو، بے کنار نہیں ہو سکتی۔ تاہم، عشق ایک انسان کے لیے بہرصورت بے کنار ہی ہوتا ہے۔ عشق ہو جائے تو لفظ گم؛ سوچ گم؛ خیال گم۔ ترے عشق میں جو بھی ڈوب گیا، اسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا۔ ذاتی طور پر یہی سمجھتا ہوں کہ عشقِ حقیقی ہی اصل عشق ہے، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔ انبیائے کرام، اولیائے عظام اور سعید روحوں نے ہم تک یہی پیغام پہنچایا ہے۔ عشق کی منازل کیا ہیں؛ ان کی بابت کچھ کہا نہیں جا سکتا؛ اس حوالے سے کوئی ذاتی تجربہ بھی موجود نہیں اور اگر ہوتا بھی تو اس کا اظہار شاید کبھی نہ ہو پاتا۔
کیسا عشق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موسی علیہ سلام طور پر گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔طور سرمہ ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ لامکاں ہے تو پہاڑ پر اس کی تجلی کیسے سماگئی ۔۔۔۔۔۔۔یا پہاڑ اس کے عشق میں مبتلا ہوتے مجسم نور بن گیا ؟ ایسا ہوا ہے تو موسی پہاڑ پر کیوں گئے ؟ اندر بھی تو وہی ہے جو باہر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ندر وہ تو ۔۔۔۔۔۔بار وی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتھے جاواں کتھے کتھے نئیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر وہ سب جگہ ہے تو لامکانی کا دعوی کیسا اور اگر مکاں میں ہے تو نظر کیوں نہیں آتا
 

نور وجدان

لائبریرین
جی بالکل! آپ کی اسی تحریر پر تبصرہ کیا ہے۔ تحریر میں ایسی روانی شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ سلامت رہیں!
آپ کی دُعا نے دل میں جگہ بنالی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاذ جو ملتی ہے وہی اصل ہوتی ہے باقی تو سب نقل ہے دنیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ بھی میں بھی ۔۔۔سبھی نقل

آپ کو دعا بے حد و حساب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
با ادب با نصیب
ادب کے بنا کچھ بھی نہیں
ادب نہیں تو اخلاق نہیں ۔ اخلاق نہیں تو انسانیت سے محبت کیسے ممکن ہے ۔؟
انسانیت سے لگاؤ نہیں تو محبت کیسے ممکن ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟

با ادب جو نہیں ہے ، اس میں عشق کیسے سما جائے ؟ پیدائشی روح اگر با ادب تو ٹھیک کہ عشق کے ساتھ پیدا ہوئی مگر جو با ادب نہیں اور عشق میں ہے تو کیا کہیں گے آپ
 

نور وجدان

لائبریرین
عشق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عشق آسان ہے کیا؟ یہ انسان میں انسان کھو جانے نام ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے عشق جس سے ہوگیا اس نے میری سدھ بدھ کھو دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے ہر سو وہ دکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ درخت ہو ، پہاڑ ہو ، پتھر ہو یا انسان ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بہت پیارا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بِنا میں رات سو نہیں پاتی ! حیرت کی بات ہے وہ میرے ساتھ سوتا نہیں ہے مگر میں اس کے پاس سوجاتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ خشکی نہیں ہے ، نغمگی ہے ، احساس کا رشتہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ایسا رشتہ ہے جس میں خیال انسان کو طاقتور بنادیتا ہے یا طاقت مجسم ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی بالکل جس سے عشق ہو جائے ہر شے میں صرف وہی نظر آتا ہے۔ جیسے فقیر نے "بیل" والا قصہ درج کیا تھا۔ اسے اپنا آپ بھی "بیل لگنے لگ پڑا تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ عشق طاقت ور بنا دیتا ہے۔ بہت زیادہ طاقت ور۔ بشرطیکہ اسے ادراک نہ ہو۔ اور وہ اس کا بالارادہ اظہار نہ کرے ورنہ توفیقات چھن جاتی ہیں۔
ایک سوال ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا آپ مرد ہوتے ایک لڑکی سے محبت کریں تو کیا آپ وہی لڑکی بن سکتے ہیں؟ آپ اپنی صنف کو اس کے مطابق ڈھال سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیفیات عشق پر منحصر ہے۔ ایسا بھی سنا ہے کہ لوگ لوگوں سے اس طرح پردہ اور فاصلہ رکھنے لگے گویا وہ خود لڑکی ہیں۔ لیکن منحصر ہے آپ پر کیا کفیات نازل ہوئی ہیں اور عشق نے کیا توفیق بخشی ہے۔
 
میں تو اسی فرق کو مٹانے کے چکر میں ہوں مگر مجھ سے مٹتا نہیں ہے ،،مجھے تو پھر بھی عشق ہے میں کیسے مان لو اس بات کو
پھر آپ کو عشق نہیں ہے۔ جب عشق ہو جائے پھر ادراک اور فہم نہیں رہتا۔ عشق کوشش سے نہیں ہوتا۔ توفیق سے ہوتا ہے۔ بلکہ عشق، عشق کیے جانے سے ہوتا ہے۔ جب تک آپ میں یہ فہم ہے کہ یہ میں اور وہ ہیں اور آپ اسے بالارادہ مٹائیں گی تو پھر آپ فہم کی گلی میں کھڑی ہیں۔ عشق کو عقل اور فہم سے علاقہ نہ ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت زیادہ طاقت ور۔ بشرطیکہ اسے ادراک نہ ہو۔ اور وہ اس کا بالارادہ اظہار نہ کرے ورنہ توفیقات چھن جاتی ہیں۔

میں کم علم ۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ روشنی ڈالیے اس واقعے پر

یہ کیفیات عشق پر منحصر ہے۔ ایسا بھی سنا ہے کہ لوگ لوگوں سے اس طرح پردہ اور فاصلہ رکھنے لگے گویا وہ خود لڑکی ہیں۔ لیکن منحصر ہے آپ پر کیا کفیات نازل ہوئی ہیں اور عشق نے کیا توفیق بخشی ہے۔

اس کو سمجھا دیجئے کہ عشق سے انسان پردہ فاصلہ رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو عشق لڑکی کو ہونا چاہیے تاکہ وہ مرد کا روپ دھار لے ۔۔۔۔۔مرد لڑکی بنے تو زمانہ جینے نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔کیا ایسا ہے ؟
 
Top