عشق کیا ہے۔۔۔؟

با ادب جو نہیں ہے ، اس میں عشق کیسے سما جائے ؟ پیدائشی روح اگر با ادب تو ٹھیک کہ عشق کے ساتھ پیدا ہوئی مگر جو با ادب نہیں اور عشق میں ہے تو کیا کہیں گے آپ
ممکن ہی نہیں، عرض کر چکا عشق کرنے والے کو اس کا ادراک نہیں ہوتا کہ وہ عشق میں ہے۔ اور ادب اور عشق کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ آپ محبوب کو سنگھاسن پہ نہیں بیٹھا سکتی تو وہ محبوب کیسا؟ اسے کے لیے سلطنت دل خالی کر کے حوالے کر دی جاتی ہے اب وہ جو چاہے کرے کہ وہ اس سلطنت کا شاہ ہے۔ اور شاہ کا ادب بھی کیا جاتا ہے اور حکم کی تعمیل بھی۔ تاویل نہیں ہوتی۔
 

نور وجدان

لائبریرین
پھر آپ کو عشق نہیں ہے۔ جب عشق ہو جائے پھر ادراک اور فہم نہیں رہتا۔ عشق کوشش سے نہیں ہوتا۔ توفیق سے ہوتا ہے۔ بلکہ عشق، عشق کیے جانے سے ہوتا ہے۔ جب تک آپ میں یہ فہم ہے کہ یہ میں اور وہ ہیں اور آپ اسے بالارادہ مٹائیں گی تو پھر آپ فہم کی گلی میں کھڑی ہیں۔ عشق کو عقل اور فہم سے علاقہ نہ ہے۔
میں نے دعوی کیا ہے کہ میں عشق میں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار دل نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فہم ۔۔۔۔یہ کہا درست مگر میں فہم کے ساتھ عشق میں ہوں ۔۔۔ دیوانے وہ نہیں ہوتے جن کے پاس عقل نہ ہو ۔۔ عشق کی دیوانگی تو مجذوبیت ہوتی ہے جس میں عقل کو استعمال کرکے طلاق دے دی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔کیا کریں عقل کے بغیر عشق بھی نہیں ہوتا
 

نور وجدان

لائبریرین
ممکن ہی نہیں، عرض کر چکا عشق کرنے والے کو اس کا ادراک نہیں ہوتا کہ وہ عشق میں ہے۔ اور ادب اور عشق کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ آپ محبوب کو سنگھاسن پہ نہیں بیٹھا سکتی تو وہ محبوب کیسا؟ اسے کے لیے سلطنت دل خالی کر کے حوالے کر دی جاتی ہے اب وہ جو چاہے کرے کہ وہ اس سلطنت کا شاہ ہے۔ اور شاہ کا ادب بھی کیا جاتا ہے اور حکم کی تعمیل بھی۔ تاویل نہیں ہوتی۔

یہ کیسا عشق ہے کہ میرے محبوب نے مجھ سے بتائے بغیر سب خالی کرالیا ۔۔۔۔۔وہ کہتا میرے ہوتے تجھے اب کسی اور کیا ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ادب نہیں آتا ۔۔۔میں کہتی ہوں کہ مجھے نظر تو آو۔۔۔۔جلوہ تو کراؤ ۔۔۔۔۔۔وہ نظر تو نہیں آتا مگر وہ کہتا ہے میں دل میں سمانا ہے ، دل کی سلطنت اس نے لے لے لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب میں خالی ہاتھ ہوں ۔۔۔۔۔۔کیا کروں
 
میں کم علم ۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ روشنی ڈالیے اس واقعے پر



اس کو سمجھا دیجئے کہ عشق سے انسان پردہ فاصلہ رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو عشق لڑکی کو ہونا چاہیے تاکہ وہ مرد کا روپ دھار لے ۔۔۔۔۔مرد لڑکی بنے تو زمانہ جینے نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔کیا ایسا ہے ؟
جتنا بزرگوں کی مجالس سے پایا، اس کے مطابق اللہ رب العزت نے اس پوری کائنات میں مخلوقات میں جو شے سب سے زیادہ طاقتور بنائی ہے وہ انسان ہے۔ لیکن انسان جب تک "میں" خول میں رہتا ہے وہ نہ باہر جھانکتا ہے نہ باہر دیکھتا ہے۔ عشق اس خول کو توڑتا ہے۔ جب فہم اور ادراک ختم ہو جائے اور معرفت حاصل ہو، تو پھر انسان بیک وقت محلے کی مسجد اور صحن حرم میں سجدہ ریز پایا جاتا ہے۔ اس کی کچھ تفصیلات پیا رنگ کالا میں بیان ہوئی ہیں لیکن فہم کے ترازو میں تولنے والوں سے وہ بالا ہے۔
سوال دوم۔ آپ عشق کے سارے سوال عقل کے ترازو میں تول رہی ہیں۔ عقل کو عشق سے بیر ہے۔ کس کو کس سے ہونا "چاہیے" سوال ہی غلط ہے۔ یہ ہو جاتاہے۔ یہ بوٹا اگ جاتا ہے۔ کب کہاں کیسے کی قید نہیں ہے۔ اور زمانہ جینے نہ دے یہی تو عشق ہے۔
عقل والوں کے نصیبوں میں کہاں ذوق جنوں
عشق والے ہیں جو ہر چیز لٹا دیتے ہیں۔
 
میں نے دعوی کیا ہے کہ میں عشق میں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار دل نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فہم ۔۔۔۔یہ کہا درست مگر میں فہم کے ساتھ عشق میں ہوں ۔۔۔ دیوانے وہ نہیں ہوتے جن کے پاس عقل نہ ہو ۔۔ عشق کی دیوانگی تو مجذوبیت ہوتی ہے جس میں عقل کو استعمال کرکے طلاق دے دی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔کیا کریں عقل کے بغیر عشق بھی نہیں ہوتا
مختلف مراسلوں میں ان کا جواب عرض کر دیا ہے۔ جب تک دعوی ہے تب عشق نہ ہے۔ جب عشق ہے پھر دعوی نہیں رہتا پھر عشق ہوتا ہے۔ فہم کے ساتھ عشق ناممکن ہے۔ عقل اور فہم کا گھر دماغ ہے عشق کا گھر دل ہے۔ آپ نے تو علاقے ہی بدل دیے۔ اور جذب ہی تو وہ کیفیت ہے جو دیدار کے مزے دیتی ہے۔ جسے غالب نے کہا،
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
جذب میں فرش سے عرش نظر آتا ہے مکاں سے لامکاں کا سفر ہوتاہے۔ یہ ضروری نہیں کہ عقل چھن جائے یہ الگ بحث ہے۔ عقل سلامت رہتی ہے مگر عشق کا ادراک اور فہم نہیں رہتا۔ زمانے کی پرواہ نہیں رہتی۔
 
یہ کیسا عشق ہے کہ میرے محبوب نے مجھ سے بتائے بغیر سب خالی کرالیا ۔۔۔۔۔وہ کہتا میرے ہوتے تجھے اب کسی اور کیا ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ادب نہیں آتا ۔۔۔میں کہتی ہوں کہ مجھے نظر تو آو۔۔۔۔جلوہ تو کراؤ ۔۔۔۔۔۔وہ نظر تو نہیں آتا مگر وہ کہتا ہے میں دل میں سمانا ہے ، دل کی سلطنت اس نے لے لے لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب میں خالی ہاتھ ہوں ۔۔۔۔۔۔کیا کروں
یہی تو عشق ہے وہ احباب نے لکھا تھا نا کہ صحرا کی بوٹی جو سکھا کہ ختم کر دیتی ہے۔ وہ پوچھ کے تھوڑا اگتی ہے۔ یہی تو عشق ہے۔ عشق میں سوال جواب نہیں ہوتی، فقط تسلیم ہوتا ہے۔ اور تسلیم و رضا ہی ادب ہے کہ سر جھکا کہ ہر حکم مانے جاؤ۔ جب تک آپ جلوہ کی طلب رکھیں گے تب تک جلوہ ممکن نہیں۔ جیسا کہ عرض کیا تھا حضرت موسی کے لن ترانی والا قصہ۔ آپ ابھی میں اور تو کے فرق میں زندہ ہیں۔ جہاں یہ فرق ختم، کہنے کی ضرورت ہیں نہیں آپ اس کی محفل اور بارگاہ میں اس کے سامنے دو زانو ہوں گی۔ یہی ہے وہ طاقت جو فرش سے عرش دکھا دیتی ہے۔ ادب آتا نہیں ادب آ جاتا ہے۔ عشق ہے تو ادب ضرور بضرور ہوگا ورنہ پھر عشق نہیں ہے محض دعوی خام ہے۔

نالہ ہے تیرا بلبل شوریدہ ذرا خام ابھی
اپنے سینے میں ذرا اور اسے تھام ابھی۔
 

نور وجدان

لائبریرین
دل کے محسوسات بڑے عجیب سے ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے پروا نہین ہے کہ کون کیا سوچے گا۔۔مجھے بس وہی دکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور کچھ نظر نہیں آرہا ہے ۔۔۔۔۔عشق آسان نہیں ہے ۔مت کرو دعوی عشق کا۔۔۔۔۔۔۔۔جس نے دعوی کیا وہ نہ ادھر کا رہا نہ ادھر کا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی زندگی موسیقیت بھر دی گئی مگر اس کی زندگی معلق ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معلق ایسی ہوئی کہ کسی دنیا اچھی نہیں لگتی مگر دنیا اچھی بھی لگتی ہے کہ میرا محبوب اس دنیا میں ہے ۔۔۔میں اس کے عشق میں سدھ بدھ کھو بیٹھی ہوں ۔۔۔۔ وہ میرے اندر ،''میں '' بن کے سدا لگائے ہے ۔۔۔میں اس سدا سے بے تاب ہوں ، اس کو دیکھنا چاہتی ہوں ، وہ مجھے نظر نہیں آتا ہے ۔۔۔۔۔۔
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟
کہاں ہو ؟ سامنے تو آو؟ اپنا جلوہ تو کراؤ!
چھپ کے من میں کیوں لگاتے ہو صدائیں ۔۔۔۔

میں تو ، تو میں ، مجھ میں تجھ میں فرق کیا
تو حسن مجسم ہے ، جمال کی انتہا ہے
اپنی دید کر ، اور مجھے دیکھے جا ،
مت کر بے تابی اتنی ، بڑی جلد باز ہے تو
میں تیرا یار ہو، رقص کر میرے ساتھ تو
تری ہست میں مستی میرے دم سے ہے
غم ، درد ، تڑپ ، اضطراب تری دوا ہے
تو ساز میرا ہے ، کیامیں تجھ میں صدا نہ دوں ؟

میں جذب میں ہوں ، میں مستی میں ہوں
میں تجھ میں محو ہوں ، ابھی ہوش کہاں ہے
میں تجھے کیسے پاؤں ، میں ہوش میں کہاں ہوں
میں تجھے سے دور کیسے جاؤں ، میں ہوش میں کہاں ہو
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

''دیوانی ! تو میری دیوانی، نا کر اتنی طوالانی''
کیسے نہ جذب میں اب میں آؤں
بحر کو لازم ہے موجوں کی طغیانی
گھروندے مٹاؤں ، لہروں میں سماؤں
طوفان لاؤں کہ سیلاب بن کے مٹاؤں
بارش بن کے برسوں یا بادل بن کےچھاؤں
میں تیری ہوئی ، میں نے سدھ بدھ کھو دی
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

کس کس جگہ نہیں تو ، کس کس جگہ تو ہے
طور پر موجود تھے پہلے سے یا تجلی فرمائی
مست موسی ّ تھے یا طور نے ہستی کھوئی
میں کون ہوں ؟ میں تو ہوں یا تو ہی میں ہوں
میں کب سے تیری متلاشی ، ادھر بھٹک ، ادھر بھٹک
کبھی مجاز میں دیکھوں ، تو کبھی حقیقت کو کھوجوں
کہیں نہ ملے تم مگر دل کے اسرار خانوں میں!
کب تیری دید کا ہوگا نظارا مجھے ، کہ دعوی بشر کی ناقص العقلی کا ہے تم کو
زندگی سے پہلے ، موت کے بعد ، کیوں دیدار کرا دیتے ہو
لاکھوں حجاب میں چھپے ہے ، مگر بے حجاب بھی تو ہو
کیسی بے حجابی لامکانی میں ؟ کیسا ہے حجاب مکان میں ؟
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

قربانی کرتے محبوب کو نیزے پہ چڑھا دیتے ہو
کہیں اپنے ہی خلیل کو نار میں پھنکوا دیتے ہو
اسماعیل کو ذبیح کا حکم دیتے خود ہی قربانی کا سامان بھجوا دیتے ہو
عیسی کو سولی پہ چڑھاتے ہو ، اس کو پھر آسمان پر اٹھوا لیتے ہو
''قرنی'' کو دے کے عشق ، مجاز میں کیوں الجھا دیتے ہو
سرمد کو اپنے عشق کی مئے پلا کے ، سر کٹوا دیتے ہو
عشق کی مئے جسے پلاتے ہو ، نعرہ انالحق کو لگوادیتے ہو
فتوی کفر کا اپنے عشاق پر تم لگوادیتے ہو
قربانی ، قربانی کرتے اپنے عاشق کو سزا دیتے ہو
میں عشق کی بات کروں یا قربانی کا سوچوں
جذب دے کے کیوں عقل میں الجھا دیتے ہو
تم کون ہو ؟ تم کیا ہو؟
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

دنیا کو اپنی سلطنت بناتے ہو،
سب میں خود سما کے، خود کو چھپا لیتے ہو
فلک کو دیکھوں یا زمین پر رہوں
بارش میں بھیگوں یا دھوپ میں جلوں
پھول کی خوشبو بنو ، کانٹوں سے لہو بہاؤں
روشنی عقل کی بن کے خون سے لا الہ کا رقص کر دایتے ہو
تم کون ہو ؟ تم کیا ہو؟
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

حرم والوں کو محرومِ حج کرکے، دل کو حاجی بنا دیتے ہو
نمازِ عشق پڑھوا کے ، مناجات کی دنیا سجا دیتے ہو
جمال یار بن کے ، زمانے کے سامنے رسوا کرادیتے ہو
در در کی ٹھوکریں کھلا کے دل میں الا اللہ کا ذکر کرا دیتے ہو
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

اپنے عشق کی تسبیح سے عشاق کو پرو کے
اللہ ھو کی صدائیں من میں لگاتے ہو
احد احد کرتے ، دل کو قبلہ کعبہ بنا دیتے ہو
خود ہی اپنے میں گم کرتے ہو عاشق کو
پھر خود ہی اس کو متلاشی بنا دیتے ہو
اس میں بیٹھ کے سوچوں میں الجھا دیتے ہو
پھر خود اس کا عاقل چرچا کرادیتے ہو
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

خوب رنگ سجایا ہے دنیا کا ، کیسا تماشا ہے دنیا
آدم کو خلیفہ بنا کے ، ابلیس کو جنت سے نکال دیتے ہو
نذر، قربانی کو ، ہابیل کو قابیل سے مروا دیتے ہو
اپنی رسی سے باندھ کے ، آسمان و زمیں میں معلق کرادیتے ہو
گھماتے ہو ادھر ادھر ، اپنے نام سے جلا دیتے ہو
موسی کو کرتے ہو ماں سے جدا ، خود ہی اس کو ملا دیتے ہو
زلیخا کو عشق میں مبتلا کرکے ہاتھ حاضرین کے کٹوا دیتے ہو
مظالم کے سیلاب میں سرمستی کی کیفیت جگادیتے ہوں
تم کون ہو ؟ تم کیا ہو؟

تمھیں جانوں کیسے ؟ خود کو پہچانوں کیسے
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟
میں عاشق ہوں کہ معشوق ہوں
میں پستی ہوں کہ بلندی ہوں
میں کون ہوں ؟ میں کیا ہوں ؟
 
آخری تدوین:
دل کے محسوسات بڑے عجیب سے ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے پروا نہین ہے کہ کون کیا سوچے گا۔۔مجھے بس وہی دکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور کچھ نظر نہیں آرہا ہے ۔۔۔۔۔عشق آسان نہیں ہے ۔مت کرو دعوی عشق کا۔۔۔۔۔۔۔۔جس نے دعوی کیا وہ نہ ادھر کا رہا نہ ادھر کا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی زندگی موسیقیت بھر دی گئی مگر اس کی زندگی معلق ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معلق ایسی ہوئی کہ کسی دنیا اچھی نہیں لگتی مگر دنیا اچھی بھی لگتی ہے کہ میرا محبوب اس دنیا میں ہے ۔۔۔میں اس کے عشق میں سدھ بدھ کھو بیٹھی ہوں ۔۔۔۔ وہ میرے اندر ،''میں '' بن کے سدا لگائے ہے ۔۔۔میں اس سدا سے بے تاب ہوں ، اس کو دیکھنا چاہتی ہوں ، وہ مجھے نظر نہیں آتا ہے ۔۔۔۔۔۔
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟
کہاں ہو ؟ سامنے تو آو؟ اپنا جلوہ تو کراؤ!
چھپ کے من میں کیوں لگاتے ہو صدائیں ۔۔۔۔

میں تو ، تو میں ، مجھ میں تجھ میں فرق کیا
تو حسن مجسم ہے ، جمال کی انتہا ہے
اپنی دید کر ، اور مجھے دیکھے جا ،
مت کر بے تابی اتنی ، بڑی جلد باز ہے تو
میں تیرا یار ہوں ، تو میرے ساتھ رقص کر
تری ہست میں مستی میرے دم سے ہے
غم ، درد ، تڑپ ، اضطراب تری دوا ہے
تو ساز میرا ہے ، کیامیں تجھ میں صدا نہ دوں ؟

میں جذب میں ہوں ، میں مستی میں ہوں
میں تجھ میں محو ہوں ، ابھی ہوش کہاں ہے
میں تجھے کیسے پاؤں ، میں ہوش میں کہاں ہوں
میں تجھے سے دور کیسے جاؤں ، میں ہوش میں کہاں ہو
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

''دیوانی ! تو میری دیوانی، نا کر اتنی طوالانی''
کیسے نہ جذب میں اب میں آؤں
بحر کو لازم ہے موجوں کی طغیانی
گھروندے مٹاؤں ، لہروں میں سماؤں
طوفان لاؤں کہ سیلاب بن کے چھاؤں
بارش بن کے برسوں یا بادل بن کےچھاؤں
میں تیری ہوئی ، میں نے سدھ بدھ کھو دی
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

کس کس جگہ نہیں تو ، کس کس جگہ تو ہے
طور پر موجود تھے پہلے سے یا تجلی فرمائی
مست موسی ّ تھے یا طور نے ہستی کھوئی
میں کون ہوں ؟ میں تو ہوں یا تو میں ہوں
میں کب سے تیری متلاشی ، ادھر بھٹک ، ادھر بھٹک
کبھی مجاز میں دیکھوں ، تو کبھی حقیقت کو کھوجوں
کہیں نہ ملے تم مگر دل کے اسرار خانوں میں
کب تیری دید کا ہوگا نظارا مجھے ، کہ دعوی بشر کی ناقص العقلی کا ہے
موت سے پہلے ، موت کے بعد ، کیوں دیدار کرا دیتے ہو
لاکھوں حجاب میں چھپا ہے ، مگر بے حجاب بھی تو ہی ہے
کیسی بے حجابی لامکانی میں ؟ کیسا ہے حجاب مکان میں ؟
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

قربانی کرتے محبوب کو نیزے پہ چڑھا دیتے ہو
کہیں اپنے ہی خلیلّ کو نار میں پھنکوا دیتے ہو
اسماعیلّ کو ذبیح کا حکم دیتے خود ہی قربانی کا سامان بھجوا دیتے ہو
عیسیّ کو سولی پہ چڑھاتے ہو ، اس کو پھر آسمان پر اٹھوا لیتے ہو
قرنی کو دے کے عشق ، مجاز میں کیوں الجھا دیتے ہو
سرمد کو اپنے عشق کی مئے پلا کے ، سر کٹوا دیتے ہو
عشق کی مئے جسے پلاتے ہو ، نعرہ انالحق کو لگوادیتے ہو
فتوی کفر کا اپنے عشاق پر تم لگوادیتے ہو
قربانی ، قربانی کرتے اپنے عاشق کو سزا دیتے ہو
میں عشق کی بات کروں یا قربانی کا سوچوں
جذب دے کے ، عقل میں الجھا دیتے ہو
تم کون ہو ؟ تم کیا ہو؟
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

دنیا کو اپنی سلطنت بناتے ہو،
سب میں خود ہی سما کے، خود کو چھپا لیتے ہو
فلک کو دیکھوں یا زمیں پر رہوں
بارش میں بھیگوں یا دھوپ میں جلوں
پھول کی خوشبو بنو ، کانٹوں سے لہو بہاؤں
روشنی عقل کی بن کے خون سے لا الہ کا رقص کر دایتے ہو
تم کون ہو ؟ تم کیا ہو؟
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

حرم والوں کو محرومِ حج کرکے، دل کو حاجی بنا دیتے ہو
نمازِ عشق پڑھوا کے ، مناجات کی دنیا سجا دیتے ہو
جمال یار بن کے ، زمانے کے سامنے رسوا کرادیتے ہو
در در کی ٹھوکریں کھلا کے دل میں الہ کا ذکر کرا دیتے ہو
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

اپنے عشق کی تسبیح سے عشاق کو سجا کے
اللہ ھو کی صدائیں من میں لگاتے ہو
احد احد کرتے ، دل کو قبلہ کعبہ بنا دیتے ہو
خود ہی اپنے میں گم کرتے ہو عاشق کو
پھر خود ہی اس کو متلاشی بنا دیتے ہو
اس میں بیٹھ کے سوچوں میں الجھا دیتے ہو
پھر خود اس کا عاقل چرچا کرادیتے ہو
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟


اللہ اپنے محبوب کے صدقے خیر کا معاملہ فرمائے اور بارگاہ سرور دوجہاں سے خیرات نصیب ہو۔
 

حسن ترمذی

محفلین
1۔آپ نے زندگی میں کبھی مجاز سے کشش محسوس کی ؟ اگر کی تو کتنی دفعہ ۔۔۔۔؟
2۔ کشش ، محبت ، عشق میں کیا فرق ہے؟
3۔ کیا ادب واقعی ہی پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں ؟
4۔ عشق حقیقی اور مجاز میں کیا فرق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب 1۔ میں تو ہر وقت مجاز کی کشش میں ہی گرفتار ہوں ، بلکہ میرے خیال میں ہر کوئی ہی مجاز کی کشش میں گرفتار اور کشش کو ہم کسی غرض یا مطلب میں بھی بیان کرسکتے ہیں ۔۔ ہر نظر آنے یا مادی وجود رکھنے والی شے مجاز ہی ہے ۔
جواب2۔ جو بھی شے آپ کو اپنی طرف کھینچے تو اس کھینچے چلے جانے کو کشش ہی کہیں گے یہ محفل پہ آنا اس کی کشش ہی تو ہے۔۔ محبت:- کسی دیکھ کر بے اختیار مسکرادینا، اس کی غلطی کو نظر انداز کردینا، کسی کا ہر قدم دل پہ پڑتے محسوس کرنا تو کسی اور کے غم میں اس سے زیادہ خود گھلنا محبت ہی ہے ۔۔ عشق:- یار اس کا مجھے نہیں پتا۔
جواب3۔ بے شک ادب سب سے پہلا قرینہ ہے اور آسان نہیں ہے بالکل بھی ، کبھی کردیکھیئے ۔
4۔ جب مجھے عشق کا ہی نہیں پتا تو حقیقی اور مجاز کا کیسے بتا سکتا ہوں ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
جتنا بزرگوں کی مجالس سے پایا، اس کے مطابق اللہ رب العزت نے اس پوری کائنات میں مخلوقات میں جو شے سب سے زیادہ طاقتور بنائی ہے وہ انسان ہے۔ لیکن انسان جب تک "میں" خول میں رہتا ہے وہ نہ باہر جھانکتا ہے نہ باہر دیکھتا ہے۔ عشق اس خول کو توڑتا ہے۔ جب فہم اور ادراک ختم ہو جائے اور معرفت حاصل ہو، تو پھر انسان بیک وقت محلے کی مسجد اور صحن حرم میں سجدہ ریز پایا جاتا ہے۔ اس کی کچھ تفصیلات پیا رنگ کالا میں بیان ہوئی ہیں لیکن فہم کے ترازو میں تولنے والوں سے وہ بالا ہے۔
سوال دوم۔ آپ عشق کے سارے سوال عقل کے ترازو میں تول رہی ہیں۔ عقل کو عشق سے بیر ہے۔ کس کو کس سے ہونا "چاہیے" سوال ہی غلط ہے۔ یہ ہو جاتاہے۔ یہ بوٹا اگ جاتا ہے۔ کب کہاں کیسے کی قید نہیں ہے۔ اور زمانہ جینے نہ دے یہی تو عشق ہے۔
عقل والوں کے نصیبوں میں کہاں ذوق جنوں
عشق والے ہیں جو ہر چیز لٹا دیتے ہیں۔
عشق کی منزل عقل کے بغیر آتی نہیں ہے ، منزل عشق مین گرچہ عقل نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
یہی تو عشق ہے وہ احباب نے لکھا تھا نا کہ صحرا کی بوٹی جو سکھا کہ ختم کر دیتی ہے۔ وہ پوچھ کے تھوڑا اگتی ہے۔ یہی تو عشق ہے۔ عشق میں سوال جواب نہیں ہوتی، فقط تسلیم ہوتا ہے۔ اور تسلیم و رضا ہی ادب ہے کہ سر جھکا کہ ہر حکم مانے جاؤ۔ جب تک آپ جلوہ کی طلب رکھیں گے تب تک جلوہ ممکن نہیں۔ جیسا کہ عرض کیا تھا حضرت موسی کے لن ترانی والا قصہ۔ آپ ابھی میں اور تو کے فرق میں زندہ ہیں۔ جہاں یہ فرق ختم، کہنے کی ضرورت ہیں نہیں آپ اس کی محفل اور بارگاہ میں اس کے سامنے دو زانو ہوں گی۔ یہی ہے وہ طاقت جو فرش سے عرش دکھا دیتی ہے۔ ادب آتا نہیں ادب آ جاتا ہے۔ عشق ہے تو ادب ضرور بضرور ہوگا ورنہ پھر عشق نہیں ہے محض دعوی خام ہے۔

نالہ ہے تیرا بلبل شوریدہ ذرا خام ابھی
اپنے سینے میں ذرا اور اسے تھام ابھی۔
مجھے دعوی ہے کہ میں عشق میں ہوں
مجھے دعوی ہے کہ عقل ، ہوش میں ہوں
مجھے دعوی ہے وہ مجھ میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعوی خود ایک فہم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں عقل بھی ہوں ،
میں فہم بھی ہوں ،
میں عشق ، عاشق کا نعرہ ہوں
میں تجھ میں بھی ہوں ، میں اس میں بھی ہوں
میں کہاں کہاں نہیں ہوں
میں ہی تو نمانے عقل ہوں
 

نور وجدان

لائبریرین
جواب 1۔ میں تو ہر وقت مجاز کی کشش میں ہی گرفتار ہوں ، بلکہ میرے خیال میں ہر کوئی ہی مجاز کی کشش میں گرفتار اور کشش کو ہم کسی غرض یا مطلب میں بھی بیان کرسکتے ہیں ۔۔ ہر نظر آنے یا مادی وجود رکھنے والی شے مجاز ہی ہے ۔
جواب2۔ جو بھی شے آپ کو اپنی طرف کھینچے تو اس کھینچے چلے جانے کو کشش ہی کہیں گے یہ محفل پہ آنا اس کی کشش ہی تو ہے۔۔ محبت:- کسی دیکھ کر بے اختیار مسکرادینا، اس کی غلطی کو نظر انداز کردینا، کسی کا ہر قدم دل پہ پڑتے محسوس کرنا تو کسی اور کے غم میں اس سے زیادہ خود گھلنا محبت ہی ہے ۔۔ عشق:- یار اس کا مجھے نہیں پتا۔
جواب3۔ بے شک ادب سب سے پہلا قرینہ ہے اور آسان نہیں ہے بالکل بھی ، کبھی کردیکھیئے ۔
4۔ جب مجھے عشق کا ہی نہیں پتا تو حقیقی اور مجاز کا کیسے بتا سکتا ہوں ۔

جو نہیں جانتا عشق کیا ہے ،
وہی جانتا ہے عشق کیا ہے
مجازِ لباس میں وہی چار سو ہے
کشش کا نظام بکھرا ہر سو ہے
میں نہیں جانتی میں کون ہوں
جب سے تجھے دیکھا ، بھولی میں کون ہوں
خاک کو تسلی جذبہ عشق دیتا ہے
سانحوں میں جینے کا حوصلہ دیتا ہے
تم جانتے نہیں تم عشق میں ہو
مسکراتے پھراتے ہو جو ہر بات میں
کیا اسی سے مل کے آئے ہو جو ہے دل میں
ادب بنا عشق کہاں ، مستی ملے تو ہست کہاں
میں اپنے ہوش میں اب کہاں ہوں
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
میں اس کے پاس ہوں؟ یا وہ میرے پاس ہے ؟
فلک زمین پر ہے یا زمین فلک پر ہے
میں فضا ہوں کہ بادل ہوں
میں بارش ہوں کہ نغمہ ہوں
میں کیا جانوں میں کون ہوں؟
اب میں ہوش میں کہاں ہوں
ہر کسی کے بس میں عشق کی بات نہیں
مدہوشی میں ہوں ، مری کوئی اوقات نہیں
کبھی گُل تو کبھی بلبل کے ترنم میں وہی ملے
شجر ، حجر کی باتوں میں اس کے قصے سنوں
پتے اس کے ذکر میں مسجود ہوئے ہیں
کائنات ابھی سجدے میں ہے ،
میں رکوع سے اٹھوں تو سجدہ کروں
کیسے سجدہ میں کروں کہ میں ہوش میں کہاں ہوں
نماز کا سلیقہ مجھ میں نہیں ، رکوع کو سجدہ مانوں
سجدہ کیسے کروں کہ میں ہوش میں کہاں ہوں
 

فرقان احمد

محفلین
ایک سوال:

جو فرد عشق میں مبتلا ہو جائے کیا وہ لفظوں کی صورت میں اپنے جذبات کا اظہار کر سکتا ہے؟

عرض کرتا چلوں، اب تک جو میں سمجھا ہوں، اس کا جواب نفی میں ہے۔

امید ہے، محفلین رہنمائی فرمائیں گے۔
 
ایک سوال:

جو فرد عشق میں مبتلا ہو جائے کیا وہ لفظوں کی صورت میں اپنے جذبات کا اظہار کر سکتا ہے؟

عرض کرتا چلوں، اب تک جو میں سمجھا ہوں، اس کا جواب نفی میں ہے۔

امید ہے، محفلین رہنمائی فرمائیں گے۔
عشق کا غالبا اظہار نہیں ہوتا، اظہار محبت کا کیا جاتا ہے۔ عشق ظاہر ہو جاتا ہے،جیسے عشق اور مشک چھپائے نہيں چھپتے۔ اظہار کی ضرورت محبت کو ہوتی ہے اور ہم اس کے بھی قائل نہيں۔ کچھ لوگ ہوں گے قائل۔۔۔
 

فرقان احمد

محفلین
عشق کا غالبا اظہار نہیں ہوتا، اظہار محبت کا کیا جاتا ہے۔ عشق ظاہر ہو جاتا ہے،جیسے عشق اور مشک چھپائے نہيں چھپتے۔ اظہار کی ضرورت محبت کو ہوتی ہے اور ہم اس کے بھی قائل نہيں۔ کچھ لوگ ہوں گے قائل۔۔۔

بہت خوب۔ تاہم، پھر بھی یوں لگا، آپ کچھ نہ کچھ چھپا گئے۔ شاید احتیاط کا تقاضا ہے۔ چلیں ایک اور طرح سے یہی سوال پوچھ لیتا ہوں۔ حضوروالا! یہ فرما دیجیے، کیا ایک فرد اس بات پر قادر ہے کہ وہ مکمل عقل و شعور کے ساتھ اپنے عشق کا اظہار کرے؟

سوال تو خیر ذہن میں اور بھی ہیں ۔۔۔ ذرا یہ جواب مل جائے تو پھر ۔۔۔۔!!!

محترمہ نور سعدیہ شیخ اور دیگر محفلین سے بھی رہنمائی مل جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔
 

نایاب

لائبریرین
با ادب جو نہیں ہے ، اس میں عشق کیسے سما جائے ؟ پیدائشی روح اگر با ادب تو ٹھیک کہ عشق کے ساتھ پیدا ہوئی مگر جو با ادب نہیں اور عشق میں ہے تو کیا کہیں گے آپ
میری محترم بٹیا
عشق کہتے ہیں جسے
آسان کہاں گویا آگ پہ چلنا خود کو مٹانا ہے ۔
اس عشق کی چنگاری جیسے ہی روح میں بھڑکتی ہے اسی پل " ادب " وجود میں آ جاتا ہے ۔
کونکہ عشق بنا توفیق ممکن ہی نہیں ۔ اور توفیق ملتی ہی ادب والوں کو ہے ۔
روح تو بے نیاز ہے کسی بھی تفریق سے ۔ صرف اک " امر "
بے ادب وہی کہلاتا ہے جو سرکشی اختیار کرے اور جھکنے والوں کے ساتھ جھکنے سے انکار کرے ۔
عشق جھکنا سکھاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
کیا ایک فرد اس بات پر قادر ہے کہ وہ مکمل عقل و شعور کے ساتھ اپنے عشق کا اظہار کرے؟
میرے محترم بھائی
میں کم علم ہوں علم کی تلاش ہے ۔ میرے ناقص خیال سے عشق کسی اظہار کا محتاج نہیں ہوتا " معشوق تک عاشق کی تڑپ خود راہ بنا لیتی ہے "
عشق جذب میں مبتلا کرتا ہے ۔ جنوں کا اسیر کرتا ہے ۔ عقل و شعور جاگتے ہمراہ ہوتے ہیں ۔ مگر روح اپنی ہی صدا میں محو ہوتی ہے ۔
اسے کسی اظہار کی حاجت نہیں ہوتی کہ اس کا وجود سراپا مظہر ہوتا ہے اس کے عشق کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختلاف کا حق رکھتے ہیں آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
بہت خوب۔ تاہم، پھر بھی یوں لگا، آپ کچھ نہ کچھ چھپا گئے۔ شاید احتیاط کا تقاضا ہے۔ چلیں ایک اور طرح سے یہی سوال پوچھ لیتا ہوں۔ حضوروالا! یہ فرما دیجیے، کیا ایک فرد اس بات پر قادر ہے کہ وہ مکمل عقل و شعور کے ساتھ اپنے عشق کا اظہار کرے؟

سوال تو خیر ذہن میں اور بھی ہیں ۔۔۔ ذرا یہ جواب مل جائے تو پھر ۔۔۔۔!!!

محترمہ نور سعدیہ شیخ اور دیگر محفلین سے بھی رہنمائی مل جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔
ویسے میں نے دانستہ کچھ چھپایا تو نہیں۔ خیر جواب عرض ہے کہ، عشق ہو جائے تو اس کا ادراک اور فہم نہيں ہوتا۔ جب عشق ہوتا ہے تو پورا وجود اظہار بن جاتا ہے۔ جسے لاحق ہوتا ہے اسے فہم و ادراک نہیں رہتا، لہذا اظہار کی نوبت نہیں آتی اور پوری دنیا کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے عشق لاحق ہے۔
 
Top