جواب 1۔ میں تو ہر وقت مجاز کی کشش میں ہی گرفتار ہوں ، بلکہ میرے خیال میں ہر کوئی ہی مجاز کی کشش میں گرفتار اور کشش کو ہم کسی غرض یا مطلب میں بھی بیان کرسکتے ہیں ۔۔ ہر نظر آنے یا مادی وجود رکھنے والی شے مجاز ہی ہے ۔
جواب2۔ جو بھی شے آپ کو اپنی طرف کھینچے تو اس کھینچے چلے جانے کو کشش ہی کہیں گے یہ محفل پہ آنا اس کی کشش ہی تو ہے۔۔ محبت:- کسی دیکھ کر بے اختیار مسکرادینا، اس کی غلطی کو نظر انداز کردینا، کسی کا ہر قدم دل پہ پڑتے محسوس کرنا تو کسی اور کے غم میں اس سے زیادہ خود گھلنا محبت ہی ہے ۔۔ عشق:- یار اس کا مجھے نہیں پتا۔
جواب3۔ بے شک ادب سب سے پہلا قرینہ ہے اور آسان نہیں ہے بالکل بھی ، کبھی کردیکھیئے ۔
4۔ جب مجھے عشق کا ہی نہیں پتا تو حقیقی اور مجاز کا کیسے بتا سکتا ہوں ۔
جو نہیں جانتا عشق کیا ہے ،
وہی جانتا ہے عشق کیا ہے
مجازِ لباس میں وہی چار سو ہے
کشش کا نظام بکھرا ہر سو ہے
میں نہیں جانتی میں کون ہوں
جب سے تجھے دیکھا ، بھولی میں کون ہوں
خاک کو تسلی جذبہ عشق دیتا ہے
سانحوں میں جینے کا حوصلہ دیتا ہے
تم جانتے نہیں تم عشق میں ہو
مسکراتے پھراتے ہو جو ہر بات میں
کیا اسی سے مل کے آئے ہو جو ہے دل میں
ادب بنا عشق کہاں ، مستی ملے تو ہست کہاں
میں اپنے ہوش میں اب کہاں ہوں
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
میں اس کے پاس ہوں؟ یا وہ میرے پاس ہے ؟
فلک زمین پر ہے یا زمین فلک پر ہے
میں فضا ہوں کہ بادل ہوں
میں بارش ہوں کہ نغمہ ہوں
میں کیا جانوں میں کون ہوں؟
اب میں ہوش میں کہاں ہوں
ہر کسی کے بس میں عشق کی بات نہیں
مدہوشی میں ہوں ، مری کوئی اوقات نہیں
کبھی گُل تو کبھی بلبل کے ترنم میں وہی ملے
شجر ، حجر کی باتوں میں اس کے قصے سنوں
پتے اس کے ذکر میں مسجود ہوئے ہیں
کائنات ابھی سجدے میں ہے ،
میں رکوع سے اٹھوں تو سجدہ کروں
کیسے سجدہ میں کروں کہ میں ہوش میں کہاں ہوں
نماز کا سلیقہ مجھ میں نہیں ، رکوع کو سجدہ مانوں
سجدہ کیسے کروں کہ میں ہوش میں کہاں ہوں