کاشفی
محفلین
نطامِ زندگی
(بہزاد لکھنوی)
عشق کی اب وہ صبح و شام نہیں
زندگی کا کوئی نظام نہیں
کیا حکومت ہے آج توبہ کی؟
آج ساقی جو دورِ جام نہیں
آنکھ میں جو شراب ہے ساقی
اس کا پینا کبھی حرام نہیں
جھوٹ ہے آپ کا یہ عہدوفا
یہ تو میرا خیالِ خام نہیں
جتنا جلوؤں کا انتظار ہے عام
اُن کے جلوے تو اتنے عام نہیں
کیا یہ سچ ہے کہ لوگ کہتے ہیں
حسن کی زندگی دوام نہیں
آپ کی ہر غزل میں ہے اک درد
اس میں بہزاد کچھ کلام نہیں
(بہزاد لکھنوی)
عشق کی اب وہ صبح و شام نہیں
زندگی کا کوئی نظام نہیں
کیا حکومت ہے آج توبہ کی؟
آج ساقی جو دورِ جام نہیں
آنکھ میں جو شراب ہے ساقی
اس کا پینا کبھی حرام نہیں
جھوٹ ہے آپ کا یہ عہدوفا
یہ تو میرا خیالِ خام نہیں
جتنا جلوؤں کا انتظار ہے عام
اُن کے جلوے تو اتنے عام نہیں
کیا یہ سچ ہے کہ لوگ کہتے ہیں
حسن کی زندگی دوام نہیں
آپ کی ہر غزل میں ہے اک درد
اس میں بہزاد کچھ کلام نہیں