کاشفی
محفلین
غزل
(شمیم روش - کراچی پاکستان)
عشق ہی پھیلا ہوا ہے رنگ سے تصویر تک
حسن کیا ہے بس یہی نا، زلف سے زنجیر تک
کون جانے کب سیاہی پھیل جائے آنکھ میں
اور ہوا لے جائے کاغذ سے مری تحریر تک
زندگی جب ختم ہونے جارہی تھی تب کھلا
میں ہی میں پھیلا ہوا تھا خواب سے تعبیر تک
یہ نہ ہو ترتیب دے لوں زندگی کو پھر سے میں
نوچ کر لے جاؤ دل سے خواہشِ تعبیر تک
دل لہو، چہرہ دھواں، آنکھیں سپردِ رہ گزر
ایک جیسا سلسلہ ہے مجھ سے لے کر میر تک
(شمیم روش - کراچی پاکستان)
عشق ہی پھیلا ہوا ہے رنگ سے تصویر تک
حسن کیا ہے بس یہی نا، زلف سے زنجیر تک
کون جانے کب سیاہی پھیل جائے آنکھ میں
اور ہوا لے جائے کاغذ سے مری تحریر تک
زندگی جب ختم ہونے جارہی تھی تب کھلا
میں ہی میں پھیلا ہوا تھا خواب سے تعبیر تک
یہ نہ ہو ترتیب دے لوں زندگی کو پھر سے میں
نوچ کر لے جاؤ دل سے خواہشِ تعبیر تک
دل لہو، چہرہ دھواں، آنکھیں سپردِ رہ گزر
ایک جیسا سلسلہ ہے مجھ سے لے کر میر تک