الیکشن کے بعد
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شمع فروزاں
16؍ مئی 2014
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
الیکشن گیا، اور الیکشن کی ہماہمی گئی، وطن عزیز کے باشندوں نے اہل سیاست کے کیا کچھ کارنامے نہیں دیکھے؟ یہ بھی دیکھا کہ قوم کی نمائندگی کے لئے وہ لوگ امیدوار بن رہے ہیں، جن پر سنگین جرائم کی دفعات عائد ہیں، یہ بھی دیکھا کہ کرپٹ اور رشوت خور، ظلم و جبر کے ذریعہ سرکار اور عوام کی املاک پر قبضہ کرنے والے، اور غنڈہ گردی کے ذریعہ اپنی دھونس جمانے والے، قومی اور مقامی پارٹیوں کی طرف سے کھڑے کئے گئے ہیں؛ کیوں کہ ان کے ذریعہ پارٹی کو فنڈ حاصل ہوتا ہے، تنہائیوں میں نہیں؛ بلکہ اسٹیج پر اخلاق کی دھجیاں بکھیری گئیں۔
ایک دوسرے کے نجی واقعات کو نمک مرچ لگا کر پیش کیا گیا، غرض کہ عمومی طور پر سیاسی قائدین نے اس بات کو واضح کر دیا کہ سیاست میں اخلاقی اقدار کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، بڑا لیڈر وہ نہیں ہے، جو قوم کا خادم ہو، ملک سے محبت رکھتا ہو؛ بلکہ بڑا لیڈر وہ ہے جو لفاظ ہو، پیسے بہا کر ووٹ خرید کر سکتا ہو، مظلوموں کی لاش پر چڑھ کر اپنا قد بلند کر سکتا ہو، اور اپنی زیادہ سے زیادہ تشہیر کرا سکتا ہو، یہ سب مفاسد وہ ہیں، جو صرف ابھی گذرنے والے الیکشن ہی کا حصہ نہیں ہیں؛ بلکہ یہ الیکشن کے لوازم میں شامل ہو گئے ہیں، ہر الیکشن میں یہ منظر سامنے لاتا ہے، اور روز بروز اس میں ترقی ہوتی چلی جاتی ہے۔
مگر اس بار کے الیکشن میں دو ایسی باتیں سامنے آئیں جو حد درجہ افسوسناک اور نہایت تکلیف دہ ہیں، پہلی بات یہ ہے کہ اس دفعہ واضح طور پر یہ بات محسوس کی گئی کہ ہمارے ذرائع ابلاغ جن کو جمہوریت کا ایک ستون کہا جاتا ہے، متاع خرید فروخت بن گئے ہیں، وہ انصاف کے علمبردار نہیں؛ بلکہ مے خانۂ مال و متاع کے قدح و خوار، اور اس کی قیمت اپنے ضمیر کی شکل میں ادا کرنے پر تیار ہیں، وہ مظلوموں کی صدائے فریاد نہیں ہیں، سرمایہ داروں کی آواز ہیں، پیسوں کے ذریعہ ان کو خریدا جا سکتا ہے، اور دولت کا استعمال کر کے ایک زرخرید کنیز کی طرح ان کا استعمال کیا جا سکتا ہے، خاص کر الکٹرانک میڈیا نے اس سلسلہ میں جو مذموم کردار ادا کیا، وہ ان کے پیشے پر ایک دھبہ سے کم نہیں، یہ بات حد درجہ افسوسناک اور ملک کے مستقبل کے لئے خطرناک ہے۔
اگر اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ اتنہائی ناروا طرز عمل ہے، اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کا حکم دیا ہے: (ان اللہ ےأمر بالعدل)(النحل:۹۰) کسی بات کا فیصلہ کرنے میں بھی عدل ہونا چاہیے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اذا حکمتم فاعدلوا‘‘(مجمع الزوائد:۵؍۱۹۷عن أنسؓ ) اور اگر نوبت مصالحت کی ہو تو اس میں بھی عدل کا دامن چھوٹنا نہیں چاہیے: ’’فأصلحوا بینہما بالعدل وأقسطوا‘‘(حجرات :۹)
عدل و انصاف کا تعلق صرف دو افراد کے جھگڑوں ہی سے نہیں ہے؛ بلکہ انسان کے رویہ اور اس کے اظہار خیال سے بھی ہے، سچائی کو پیش کرنا عدل ہے، اور جھوٹا پروپیگنڈا کرنا ظلم ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارے اندر چار باتیں ہوں تو دنیا کی کوئی اور چیز تمہارے پاس نہ ہو تمہیں فکرمند نہ ہونا چاہیے، امانت کی حفاظت، گفتگو میں سچائی، خوش اخلاقی اور کھانے میں حرص و ہوس سے دوری (مسند احمد :عن عبداللہ بن عمرو:۲؍۱۷۷) پس جھوٹ کو پھیلانا، واقعات کی غلط تصویر پیش کرنا، ظالم کے ظلم و جور کو نظر انداز کر دینا، کسی رہنما کی شرح ترقی کو بڑھا چڑھا کر اس کی تشہیر کرنا، اور دوسروں کے کام سے آنکھیں موند لینا یہ عدل کے خلاف ہے، یہ صرف جھوٹ نہیں ہے؛ بلکہ جھوٹ کی تبلیغ و اشاعت ہے، یہ لوگوں کو گمراہ کرنا، اور ان کو ایک ایسے راستہ کی طرف لے جانا ہے، جو کھائیوں سے اور خطرات سے پر ہے۔
میڈیا کی حیثیت ہمارے معاشرہ میں گواہ کی ہے، وہ افراد و اشخاص کے بارے میں، گروہوں اور پارٹیوں کے بارے میں، حکومت اور عوام کے بارے میں، سچائی اور حقیقت پر مبنی گواہی پیش کرتی ہے، اس کی شہادت و گواہی پر عوام رائے قائم کرتے ہیں اور حکومتوں کی سوچ بنتی ہے؛ اس لئے اس کی غلط بیانی شہادت زور یعنی جھوٹی گواہی ہے، اور جھوٹی گواہی اتنا بڑا گناہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب کبیرہ گناہوں کا ذکر فرمایا تو لیٹے ہوئے تھے؛ لیکن جب جھوٹی گواہی کا ذکر آیا تو اس کی اہمیت اور سنگینی کو بتا نے کے لئے آپ بیٹھ گئے، اور تین بار اس گناہ کا ذکر فرمایا؛ کیونکہ گواہ کے بیان پر فیصلے ہوتے ہیں، اور معاملات طے ہوتے ہیں، اگر وہی جھوٹا بیان دینے لگیں تو ظاہر ہے کہ سارے فیصلے غلط قرار پائیں گے، اور سچائی کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی، رسول اللہ ﷺ کے ارشادات صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ہیں؛ بلکہ پوری انسانیت کی فلاح سے متعلق ہیں؛ اس لئے ضروری ہے کہ میڈیا اپنے چہرے کو درست کرے، وہ اپنا محاسبہ کرے، وہ دیکھے کہ ایک غیر جانبدار گواہ کے بجائے کہیں اس نے باطل کے طرفدار کی حیثیت تو اختیار نہیں کر لی ہے، اگر ملک کے ذرائع ابلاغ پر سنگھ پریوار قابض ہو گیا تو سچائیاں اس طرح دفن ہو جائیں گی کہ وہ کبھی سامنے نہیں آ سکیں گی، اور ملک میں ظالم اور بددیانت لوگوں کو ایسی ڈھال مل جائے گی کہ انصاف کا ہتھیار اس پر اثرانداز نہیں ہو سکے گا۔
دوسری افسوسناک بات جو اس الیکشن میں دیکھنے میں آئی وہ یہ ہے کہ ظالموں کا ساتھ دینا کوئی عار کی بات باقی نہیں رہی، ایک ایسا شخص جس پر گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کا خون ہے، جس نے اعلانیہ طور پر اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی کی، جس نے صرف مسلمانوں ہی پر ظلم نہیں کیا؛ بلکہ سیاسی حریفوں کے قتل کا الزام بھی اس کے سر پر ہے، اس کو میڈیا نے ایک ہیرو کی طرح پیش کیا، اور سیاسی بازیگروں نے اس سے دوستی کے ہاتھ ملائے، پہلے تو آر ایس ایس کی شہ پر بی جے پی نے تمام سینئر لیڈروں کو کنارے کر دیا، پھر مختلف وہ سیاسی پارٹیاں جو بارہا اعلان کرتی تھیں کہ وہ فرقہ پرست پارٹی سے کوئی تعلق نہیں رکھی گی؛ بلکہ بعض وہ لیڈران جن کو سیکولرزم کا نمائندہ اور ترجمان سمجھا جاتا تھا، انہوں نے بھی صرف سیاسی مفادات کے لئے تمام اصول و نظریات کو پسِ پشت ڈال دیا، اور ان کا وہ حقیقی چہرہ عوام کے سامنے آگیا، جس کو انہوں نے چھپا رکھا تھا، یہ اس ملک کے لئے بڑی بدنصیبی کی بات ہے، یہ ایک کثیر مذہبی، کثیر تہذیبی، اور کثیر لسانی ملک ہے، یہ ملک کثرت میں وحدت کا نمونہ ہے، اس کی حیثیت اس خوبصورت گلدستہ کی ہے جس کو مختلف رنگ و بو کے پھولوں سے سجایا گیا ہے، یہ تنوع ہی اس کا اصل حسن ہے، اس سے اس کی شناخت ہے، اسی کی وجہ سے پوری دنیا میں اس کی ستائش کی جاتی ہے، اور اس حقیقت پر قائم رہنے میں بھی اس ملک کی سالمیت ہے؛ اسی لئے جنگ آزادی کے مجاہدین اور اس جنگ کے قائدین نے جو دستور د یا، اس میں اس رنگا رنگی کا پورا خیال رکھا؛ لیکن آزادی کے بعد ہی سے کچھ فرقہ پرست عناصر پیدا ہو گئے جن کو ملک کا یہ نظام اور اس کی رنگا رنگی پسند نہیں آئی، اس کے لئے آزادی سے پہلے آر ایس ایس قائم ہوئی، اور اس کے بطن سے مختلف فرقہ پرست پارٹیاں اور انتہا پسند تنظیمیں پیدا ہوتی رہیں، بی جے پی بھی اس کی پیدا وار ہے، یہ ایک شجر خبیث ہے؛ لیکن اس کی جڑ وہی فرقہ وارانہ فکر ہے جس کا نعرہ آر ایس ایس لگاتی رہی ہے۔
اسی لئے شروع ہی سے بیش تر سیاسی جماعتیں بی جے پی، سے کنارہ کرتی رہی ہیں؛ تاکہ ان کے سیکولرزم کے دامن پر کوئی دھبہ نہ پڑ جائے، ایک زمانہ تھا کہ تلاش کے باوجود اس کو کوئی حلیف پارٹی نہیں ملتی تھی؛ لیکن اب حلیفوں کی لائن لگی ہوئی ہے، اور سیکولرزم کا دم بھرنے والے لوگ صرف اس امید پر اس کے دوش بدوش کھڑے ہیں کہ جب تختۂ اقتدار بچھے تو دوچار انچ ہی سہی، ان کو بھی اس پر بیٹھنے کی گنجائش مل جائے، تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ بعض نامی گرامی مسلمانوں نے بھی مودی کی حمایت شروع کر دی، اور مودی کے قول و فعل کی تاویل کرنے لگے، بی جے پی کی حمایت کا اظہار کیا، کم سے کم کسی مسلمان سے بجا طور پر اس کی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔
ظالم کوظلم سے روکنا مسلمانوں کا شرعی فریضہ اور ایمان کے لوازم میں سے ہے، یہ کافی نہیں ہے، کہ آدمی خود اپنے آپ کو ظلم کرنے سے بچائے؛ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ظالموں کے ساتھ کھڑا نہ ہو، :’’فلا تقعدبعد الذکریٰ مع القوم الظالمین‘‘(انعام:۶۸) ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرائی گئی کہ ہمیں ظالموں کا ساتھی نہ بنائیں :’’ربنا لاتجعلنا مع القوم الظالمین‘‘(اعراف :۴۷) ظالموں کی تعریف، اور ان کا تعاون تو دور کی بات ہے ان کی طرف انسان کا جھکاؤ بھی نہ ہونا چاہیے :ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار(ہود:۹۱۱۳ بلکہ ظالم کو کیفرکردار تک پہنچا کر مظلموں کی مدد کرنا چاہیے؛ کیونکہ مسلمانوں کو ان کے پیغمبر ﷺ نے مظلوموں کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے:’’ أعینوا المظلموم‘‘(سنن الترمذی عن البراء بن عازب،حدیث،نمبر:۲۷۲۶)
یہ دو ایسی باتیں اس الیکشن میں سامنے آئی ہیں جو اس ملک کے جمہوری کردار، سیکولرزم پر مبنی دستور، اقلیتوں کے تحفظ، اور اس ملک کے تکثیری سماج میں امن قائم رہنے کے اعتبار سے نہایت خطرناک، اور دور رس اثر کی حامل ہیں، اس کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان آگے بڑھیں، ذرائع ابلاغ کے اس جانبدارانہ رویہ کا مقابلہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ مسلمان خود ذرائع ابلاغ میں حصہ دار بنیں، مسلمان سرمایہ دار اس شعبہ میں سرمایہ کاری کریں، ایسی قوتوں اور صلاحتیوں کو ابھاریں جو سیکرلرزم پر یقین رکھتی ہوں، ان کا ضمیر بھی زندہ ہو، اور جو عدل و انصاف کے قیام کو ایک انسانی فریضہ سمجھتی ہوں، رسول اللہ ﷺ نے اپنے عہد کے وسائل ابلاغ کو استعمال کیا ہے، صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر اپنی نبوت کا اعلان کرنا کوئی اتفاقی واقعہ نہیں تھا؛ بلکہ اس زمانہ میں کم سے کم وقت میں تمام اہل مکہ تک اپنا پیغام پہنچانے کا یہی واحد ذریعہ تھا، اسی طرح آپ نے پورے جزیرۃ العرب تک اسلام کی دعوت پہنچا نے کے لئے حج کے اجتماع کا، اور ان تجارتی میلوں کا استعمال کیا جہاں پورے جزیرۃ العرب کے لوگ جمع ہوتے تھے، اس طرح پورے جزیرۃ العرب میں آپﷺ نے اپنا پیغام پہنچایا، اسی طرح عالم عرب سے باہر دور دور تک دعوتی خطوط پہنچوائے، یہ اپنے زمانے کے ذرائع ابلاغ ہی تھے، جن کو آپ نے استعمال فرمایا؛ اس لئے مسلمان، اور ملک کے محب وطن شہر یوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ غیر جانبدار، اور منصف مزاج ذرائع ابلاغ کو وجود میں لائیں، اور ایسے باصلاحیت نوجوان کو تیار کریں، جو میڈیا میں اپنی جگہ بنا سکیں، اس کے بغیر سیکولرزم اور فرقہ پرستی کی جنگ میں فتح حاصل نہیں کی جا سکتی۔
دوسرے فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے کے لئے اس کے سوا چارہ نہیں کہ تمام اقلیتوں کو اور دلتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے؛ کیونکہ فرقہ پرستی کے پیچھے جو دماغ کارفرما ہے وہ برہمنوں کا ہے، برہمن اور اونچی ذات کے لوگ صدیوں سے دلتوں پر زیادتی بھی کرتے رہے ہیں، اور انہوں نے ان کو ذلیل و رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے؛ لیکن وہ فرقہ پرستی کے لئے دھوکہ دے کر ان ہی کو استعمال بھی کرتے ہیں، اگر دلتوں کو قریب کیا جائے تو ایک ایسا اشتراک قائم ہو سکتا ہے جو اونچی ذات والوں کے ہاتھ سے ان کی لاٹھی کھینچ لے، رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں اس کی مثال حلف الفضول ہے، جس میں مظلوموں کی مدد، اور ظالموں کوظلم سے روکنے کے لئے ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کیا گیا تھا جس پر منصف مزاج طاقتیں اکٹھا ہو گئی تھیں، رسول اللہ ﷺ نے پوری سرگرمی کے ساتھ اس میں شرکت فرمائی، اور اگر چہ کہ یہ مکی زندگی کا واقعہ تھا؛ لیکن آپ پوری زندگی ایس کوشش کے مؤید رہے، آپﷺ فرمایا کرتے تھے: ’’الودعیت إلیہ لأجبت ‘‘۔
الیکشن کے موسم میں سرگرم ہو کر وقتی فائدے تو حاصل کیے جا سکتے ہیں لیکن دور رس اور وسیع الاثر تاریخ کے لئے مکمل منصوبہ بندی اور مسلسل جدوجہد ضروری ہے؛ اس لئے مسلم مفکّرین نیز مذہبی سماجی، اور سیاسی قائدین کو سر جوڑ کر بیٹھنا، اور ایک طویل مدتّی منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے، اور اس حقیر کا خیال ہے کہ اس سلسلہ میں جو بھی منصوبہ بنے گا، اس میں ان دونوں نکات کو بنیادی اہمیت حاصل ہو گی، یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ان مشکل حالات میں بھی مسلکی، جماعتی اور تنظیمی تحفظات سے اوپر اٹھ کر مسلمان ان مسائل پر غور نہ کریں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی قوم اپنے وجود کو جان و مال کے نقصان کی وجہ سے نہیں کھوتی؛ بلکہ قوت فکر یہ سے محرومی کی بنا پر اس کا وجود گم ہو جاتا ہے۔ (بصیرت فیچر سروس)
ربط:
بصیرت آن لائن - شمع فروزاں - الیکشن کے بعد