عطاءالحق قاسمی کے حق میں اور سپریم کورٹ کے خلاف یہ خوشامدی تحریر ملاحظہ فرمائیں۔ اور دیکھیں کس طرح ان قلم کے سوداگروں نے نظریاتی طور پر ملک کو تباہ برباد کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی خوشامد کی خاطر جانبداری میں اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے تک نہیں مانتے۔ لیکن ووٹ کو عزت دو۔
عطا الحق قاسمی کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ علم و فضل کی توہین ہے
09/11/2018 سید مجاہد علی
کسی بھی ملک کی سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کےبارے میں رائے زنی کوئی معقول رویہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن جب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اس فورم کو سیاست کرنے کا پلیٹ فارم بنانے پر تلی ہو تو اس سے مفر بھی ممکن نہیں ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی سیاست سے عام شہری کے علاوہ اعلیٰ عدالت کے ججوں کو بھی اتفاق یا اختلاف ہو سکتا ہے کیوں کہ عدلیہ کے ارکان بھی اس ملک کے شہری ہیں اور نظام کی کامیابی میں بطور شہری کردار ادا کرنا ان کا حق بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ تاہم یہ اظہار ووٹ کے ذریعے اپنے پسندیدہ امیدوار کی حمایت سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔ بطور جج جب تک کوئی شخص اس عہدہ جلیلہ پر متمکن رہتا ہے، اسے سیاسی تبصرے کرنے اور سیاسی معاملات میں اظہار خیال کا حق نہیں دیا جاسکتا۔
کوئی جج یا چیف جسٹس اگر یہ حق زبردستی حاصل کرنے کے درپے ہو تو صرف اس لئے اس سے درگزر نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ملک کے اعلیٰ عدالتی عہدہ پر فائز ہے۔ بلکہ ایسی صورت میں تو یہ نشاندہی کرتے ہوئے باور کروانا ضروری ہوجاتا ہے تاکہ سپریم کورٹ یا کوئی بھی جج اپنی غلط روش کو ترک کرکے وہ کام کرے جو قانون اسے تفویض کرتا ہے۔ آج چیف جسٹس ثاقب نثار کی قیادت میں سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ نے پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے سابق چئیرمین عطا الحق قاسمی کی تقرری کے بارے میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے اس تقرری کو نہ صرف غیرقانونی قرار دیا ہے بلکہ بیس کروڑ کے لگ بھگ رقم قاسمی صاحب کے علاوہ اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر اطلاعات پرویز رشید اور وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد سے وصول کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ اس فیصلہ کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ تو قانون دان لیں گے لیکن اس کے متن اور مطالب سے یہ سمجھنا ہرگز مشکل نہیں کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ سیاسی نوعیت کا ہے جو سابقہ حکومت اور اس کے ساتھ کام کرنے والوں کے بارے میں منفی تصویر کو راسخ کرنے میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔
عطا الحق قاسمی ملک کے ممتاز دانشور، کالم نگار، ادیب اور ڈرامہ نگار ہیں ۔ انہیں اس عہد کاصاحب طرز مزاح نگار سمجھا جاتا ہے۔ وہ طویل عرصہ تک استاد رہنے کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے مقبول ڈرامے لکھتے رہے ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے بعض ڈرامے ٹیلی ویژن ڈرامہ میں لازوال حیثیت کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں ناروے اور تھائی لینڈ میں پاکستان کا سفیر رہنے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے ۔ اس حیثیت میں قاسمی صاحب نے پاکستان کی سفارت میں اہم کردار ادا کرنے کے علاوہ ملکی ثقافت کو متعارف کروانے اور اردو ادب کا کا نام بلند کرنے کے لئے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دی ہیں۔
عطا الحق قاسمی نے گزشتہ دس پندرہ سال میں مسلم لیگ (ن) کی سیاسی حمایت کا بیڑا اٹھایا ہے اور وہ نواز شریف کو ملک کا آئیڈیل لیڈر سمجھتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے بلاشبہ اپنی قلمی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ ان کے اس طرز عمل سے اختلاف کی گنجائش ہمیشہ موجود رہے گی۔ ان کے لکھے ہوئے متعدد کالموں اور ان میں ظاہر کی گئی رائے کو بھی غلط کہا جاسکتا ہے لیکن علم و ادب سے شناسائی رکھنے والا کوئی فرد تو کیا، اس ملک کا کوئی عام شہری بھی بطور ادیب ان کے مقام و مرتبہ سے انکار نہیں کرسکتا۔ قاسمی صاحب جیسے لوگ کسی بھی قوم کا سرمایہ اور اس کے لئے وجہ افتخار ہوتے ہیں۔ قومیں ایسی گراں مایہ شخصیات کے علم و فضل، تجربہ اور مشاہدہ سے استفادہ کرنا اعزاز کی بات سمجھتی ہیں ۔ تاہم پاکستان ایک ایسا انوکھا ملک ہے کہ
یہاں کی سپریم کورٹ ایسے دانشور اور ملک دوست شخص کو پی ٹی وی کے چئیرمین جیسے معمولی عہدہ کے لئے نااہل قرار دے کر قلم کے ایک مزدور سے دس کروڑ کے لگ بھگ رقم واپس لینے کا حکم دے رہی ہے۔
اگر عطا الحق قاسمی کا یہ قصور ہے کہ وہ نواز شریف کے حامی ہیں تو اس سے تو وہ خود بھی انکار نہیں کریں گے۔
لیکن انہوں نے یہ حمایت بطور صحافی اور قلم کار کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ کوئی بھی صحافی ’غیر جانبدار‘ نہیں ہو سکتا۔ ان کی اس رائے سے بھی اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس سچائی سے کیسے انکار کیا جائے گا کہ دنیا میں اگر پاکستان چند گنے چنے لوگوں کے نام سے جانا جاتا ہے تو ان میں عطا الحق قاسمی کا اسم گرامی شامل ہوگا۔
پاکستان کے ساتھ قاسمی صاحب کی وابستگی اور محبت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے متعدد مواقع ملنے کے باوجود بیرون ملک قیام کرنے اور اس طرح اپنے خاندان کے لئے سہولتیں حاصل کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے اپنی تمام تر صلاحیتیں ملک و قوم کی خدمت میں صرف کرنے کو ترجیح دی۔ 1999 میں جب پرویز مشرف نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹا تو قاسمی صاحب بنکاک میں پاکستان کے سفیر تھے۔
انہیں نواز شریف سے تعلق خاطر ہی کی وجہ سے اس عہدہ پر مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن عطا الحق قاسمی کو سفیر بنا کر شاید نواز شریف نے قاسمی صاحب پر نہیں بلکہ ملک کے وقار اور مفاد پر احسان کیا تھا۔ کسی ملک کے لئے اس سے بڑا اعزاز کیا ہو سکتا ہے کہ ایک نامور ادیب اس کی نمائیندگی کرے اور سفیر کے طور پر اس کے مفادات کے فروغ کے لئے کام کرے۔
مشرف حکومت نے قاسمی صاحب سے سفارت واپس نہیں لی بلکہ انہوں نے خود ہی جب یہ دیکھا کہ ملک پر ایک فوجی آمر نے حکومت قائم کر لی ہے تو وہ استعفیٰ دے کر لاہور واپس آگئے۔ بالکل اسی طرح جیسے دسمبر 2017 میں سیکرٹری اطلاعات سے اختلافات کے سبب انہوں نے معاہدہ کی مدت پوری ہونے سے ایک سال پہلے ہی استعفیٰ دینا مناسب سمجھا۔ ملک کے بہت کم لکھاریوں اور کالم نگاروں نے مشرف کی آمریت کے خلاف اس حوصلہ کے ساتھ اظہار خیال کیا ہوگا جو عطا الحق قاسمی کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ آمریت کے خلاف قاسمی صاحب کی تحریروں کو نواز شریف کی حمایت یا خوشامد نہیں کہا جاسکتا بلکہ
یہ ملک پر عوامی حاکمیت کے اصول کو سربلند کرنے کے لئے لکھی گئی تھیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کی سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کی آڑ میں ایک آئین شکن کی حمایت اور اس کے جج اس کے نافذ کردہ پی سی او پر حلف اٹھا کر اپنی نوکریوں کا دفاع کر رہے تھے، تو قلم کا یہ مجاہد سفارت چھوڑ کر عوام کے بنیادی آئینی اور جمہوری حق کے لئے آواز بلند کر رہا تھا۔
قاسمی صاحب کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ قانونی دستاویز سے زیادہ ذاتی ایجنڈے کا پلندہ ہے۔ اس میں ایک قومی ادارے کے سربراہ کی تقرری کو انسانی حقوق کا معاملہ قرار دے کر پہلی ٹھوکر کھائی گئی ہے۔ اس کے بعد عدالت کے فاضل جج خود ہی یہ طے کرتے ہیں کہ انہیں آئین کی شق 184 (3) کے تحت عطا الحق قاسمی کے معاملہ کو دیکھنے اور اس پر حکم صادر کرنے کا اختیار ہے۔ حالانکہ اس شق کی صراحت کا مطالبہ ملک کے ممتاز قانون دان اور وکلا تنظیمیں کرچکی ہیں۔ اس کے بعد یہ بتانے کی بجائے کہ کس وجہ سے قاسمی صاحب اس عہدہ کے قابل نہیں تھے، فیصلہ میں سرکاری کارروائی کی تفصیل بتا کر صراحت سے یہ بتایا گیا ہے کہ عطا الحق قاسمی نے بطور چئیرمین، سفر اور دفتری سہولتوں پر کس قدر وسائل صرف کئے۔ ان میں فون، اخبار کمپیوٹر اور پرنٹر کی سہولت کا ذکر بھی موجود ہے۔
جس طرح یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ اگر عطا الحق قاسمی جیسا صحافی اور ٹی وی شناس پی ٹی وی کی سربراہی کا اہل نہیں ہے ، اسی طرح اس سوال کا جواب تلاش کرنا بھی ضروری ہے کہ صحافی اگر کاغذ ، قلم، فون اور اخبار طلب یا استعمال کرتا ہے تو اسے اصراف کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس فیصلہ میں سپریم کورٹ نے قاسمی پر یا ان کی طرف سے ہونے والے مصارف میں سفری اخراجات اور دفتر کی تزئین و آرائش کے اخراجات کا ذکر بھی کیا ہے۔ حالانکہ اس سال کے شروع میں ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزول کئے گئے جج شوکت عزیز صدیقی کے خلاف اپنی سرکاری رہائش گاہ کی تزئین پر ناجائز طور سے وسائل صرف کرنے کے ریفرنس میں شوکت صدیقی نے مطالبہ کیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل اعلیٰ عدالتوں کے باقی ججوں کی رہائش گاہوں پر ہونے والے مصارف کا حساب بھی طلب کرے۔ اس سوال کا جواب لینے کی کوشش کرنے کی بجائے اس ریفرنس کو نظر انداز کیا گیا لیکن چیف جسٹس کی نگرانی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے آئی ایس آئی کے خلاف بیان دینے پر شوکت صدیقی کو بہر طور ججی سے فارغ کر کے حساب برابر کردیا۔
اگر حکومتوں کی غلطیوں کا حساب کرتے ہوئے مالی نقصان بعد از وقت اس کے اہل کاروں سے وصول کرنے کی روایت ڈالنا ہی مقصود ہے تو سپریم کورٹ اس بات کا حساب بھی کرلے کہ اس کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ملک کو کتنا مالی خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے۔
اسٹیل مل اور ریکوڈک کیس میں عدالت عظمی کے فیصلوں سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ کیا جائے تو ججوں کی آنے والی سینکڑوں پیڑھیاں اس مالی نقصان کو پورا نہیں کرسکیں گی جو یہ قوم بھگت چکی ہے یا اسے بھگتنا پڑے گا۔ عطا الحق قاسمی کے خلاف فیصلہ میں ان کی تقرری کو ہی ناجائز نہیں کہاگیا بلکہ بطور چئیرمین پی ٹی وی انہوں نے جو احکامات جاری کئے تھے، انہیں بھی غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ یہ حکم اسی سپریم کورٹ سے جاری ہؤا ہے جو ماضی میں جمہوریت کش اقدامات کو جائز اور آمروں کی آئین شکنی کو درست قرار دیتی رہی ہے اور کسی جج کو ابھی تک اس ماضی پر شرمندگی ظاہر کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
عطا الحق قاسمی کے خلاف سپریم کورٹ کا حکم ناانصافی ہی نہیں ، علم و فضل کی توہین کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ فیصلہ لکھتے ہوئے یہ بھی سوچ لینا چاہئے تھا کہ جو قوم اپنے عالموں اور دانشوروں کی توقیر نہیں کرتی زمانہ بھی انہیں عزت نہیں دیتا۔